جِن کے کمروں میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں


کاشف شاہ

\"kashif\" علم دشمنی اور کتابوں سے دوری زوال پذیر معاشرے کی نشانی ہوتی ہے۔ خصوصا جب نوجوان نسل میں کتابوں سے دوری کا رجحان فروغ پائے تو قوم کے مقدّر پر بڑے زہریلے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کیونکہ جس معاشرے میں پیغمبرانہ اقدار رسوا ہو جائیں۔ جہاں کے ابنِ رشد کو مسجدِ قرطبہ کی سیڑھیوں میں بیٹھ کر نمازیوں کے جوتے صاف کرنے پر مجبور کیا جائے۔ جہاں حکیمانہ شعور اس درجہ پستی میں اتر جائے کہ خدائی ارادوں کو ناپنا اور قانونِ فطرت کی نبض کو محسوس کرنا نا ممکنات میں شمار ہوجائے وہاں زندگی کے اعلٰی و ارفع مقاصد کے چہرے دھندلا جاتے ہیں اور اس کے پیروں میں غفلت اور انجماد کی بیڑیاں پڑ جاتی ہیں۔ ایسے معاشرے کی مثال ایک گورکن کی سی ہوتی ہے۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ گورکن دوسروں کی قبر کھودتا ہے جبکہ ایسا معاشرہ اپنی قبر آپ کھود لیتا ہے۔

تمہید کی ضرورت اس لئے پڑی کہ گھٹن کے اس ماحول میں اس حقیر کے ساتھ بڑا خوشگوار معاملہ ہوا۔ واقعہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا سے اس خاکسار کی لگ بھگ آٹھ نو برسوں سے شناسائی ہے۔ یہ عرصہ کسی بھی چیز سے اُکتا جانے کے لئے کافی ہے۔ بلکہ مجھ جیسے اکتائے ہوئے بندے کے لئے کافی سے کچھ زیادہ ہے۔ اِتنے عرصے بعد قریب تھا کہ میں سوشل میڈیا خاص کر فیسُ بک کو الوداع کہہ دیتا کہ کسی مہربان نے مجھے فیس بُک پر ایک گروہ سے روشناس کرایا۔ ویسے تو یار لوگ انٹ شنٹ گروپس میں مجھے شامل کرتے رہتے تھے جو میری اکتاہٹ میں مزید اضافہ کرتے لیکن یاری کا خون کرنے کی بجائے خود ہی لہو کے گھونٹ پینے میں ہمیشہ عافیت جانی کہ طبیعت فطرتاً عدم تشدد کی طرف زیادہ مائل ہے۔ خیر جس گروپ میں مجھے ایڈ کیا گیا اُس کا نام Bookay ہے۔ کچھ ہی دنوں میں اندازہ ہوگیا کہ یہاں معقول لوگ آباد ہیں۔ کچھ اور شناسائی ہوئی تو پتا چلا کہ NUST میں پڑھنے والے ایک خوش شکل اور چمکتی آنکھوں والے نوجوان جہانداد خان نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر یہ گروپ بنایا۔ اب جہانداد کے علاوہ مراکش میں مقیم سلمہ ایلمو اور کچھ دیگر دوست اس گروپ کے منتظمین ہیں۔ اِس گروپ کا بنیادی مقصد نوجوان نسل میں کتابوں کے مطالعے کو فروغ دینا ہے۔ جتنے نوجوان لڑکے لڑکیاں اس گروپ کا حصّہ ہیں وہ سارے کے سارے کتابوں سے شغف رکھنے والے لوگ ہیں۔ یہاں مجھے بے شمار ایسے دوستوں سے ملنے کا موقع ملا جو حد درجہ ذہین اور بے پناہ صلاحیتوں کے حامل لوگ ہیں۔ یہ گروپ آہستہ آہستہ ایک عالمی تحریک کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے کیونکہ اس میں اور ممالک جیسے انڈیا، متحدہ عرب امارات، امریکہ، مراکش، اور انگلستان کے دوست بھی شامل ہیں۔ تعداد لگ بھگ چار ہزار تک جا پہنچی ہے اور یہ چار ہزار لوگ وہ سنجیدہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہیں جو زندگی کو ایک غیر سنجیدہ مذاق ماننے پر قطعاً آمادہ نہیں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کتاب دشمنی کے اس برف کدے میں زندہ جاوید شعلوں کی مانند جہالت اور علم دشمنی کی لمبی تاریک اور سرد رات سے نبرد آزما ہیں۔

پاکستان میں اس گروپ کے اسلام آباد، کراچی، لاہور،پشاور اور دیگر بڑے شہروں کی سطح پر اپنے اپنے ذیلی چیپٹرز ہیں۔ اس طرح سے اس گروپ میں شامل دوستوں کے درمیان ایک منظم طریقے سے رابطے کا ایک نظام قائم ہے۔ ایک باقاعدہ وقفے سے ہر چیپٹر کی میٹینگ ہوتی ہے جس میں اُس چیپٹر سے متعلقہ دوست آتے ہیں بلکہ دوسرے چیپٹرز سے آنے والے دوستوں کو بھی ویلکم کیا جاتا ہے۔ اِن ملاقاتوں میں ہر دوست اپنی زیرِ مطالعہ کتاب لاتا ہے اور دوسرے دوستوں کو اُس کتاب سے روشناس کراتا ہے۔ علم کا تبادلہ ہوتا ہے اور شعور کی بالیدگی کے مراحل ان ملاقاتوں میں طے کئے جاتے ہیں۔ خاکسار کا تعلق چونکہ پشاور چیپٹر سے ہے اِس لئے 26 ستمبر کو ہونے والی پشاور چیپٹر کی میٹنگ کے بارے میں کچھ باتیں بتانا مناسب سمجھتا ہوں۔
ہماری ایک دوست سدرہ امین صاحبہ جو کہ غالباً اس گروپ کی ایڈمن بھی ہیں انہوں نے پشاور چیپٹر کی دوسری میٹنگ کا اہتمام کیا تھا۔ پہلی میٹنگ مارچ میں ہوئی تھی۔ وقتِ مقررہ پر پہنچا تو عُمر صاحب کو جو ہمارے بڑے پیارے دوست ہیں انہیں منتظر پایا۔ کچھ ہی دیر میں سدرہ امین اور حرا نذیر بھی تشریف لے آئیں۔ فیضان، ثمرہ، اور رابعہ کے لئے کچھ انتظار کرنا پڑا۔ ہمارے بڑے اچھے دوست صمید اپنے ٹوٹے ہوئے بازو اور ایک عدد کمال کے دوست زرک خان کے ساتھ وارد ہوئے۔ کراچی کی دوست ثانیہ صدیقی صاحبہ ہمارے ساتھ آن لائن رہیں۔ جہانداد خان اسلام آباد سے آئے تھے اُن سے بھی گھلنے ملنے کا موقع مِلا۔ کمال کے ذہین آدمی ہیں۔ بدقسمتی ہماری یہ تھی کہ جہانداد کو ضروری کام سے جانا پڑا۔ باقی کے دوستوں نے 6 بجے سے شام 7 بجے تک محفل جمائی اور کیا خوب محفل تھی۔ غالب کے یار کی بزم سے تو \’بوئے گُل،نالہ دل، دودِ چراغِ محفل\’ سب پریشاں ہو کر نکلے تھے لیکن یہاں عقل و شعور کے حسن کے سامنے سے کسی کا اُٹھنے کو دل نہیں چاہا۔ دوست بڑی خوبصورت کتابیں ساتھ لائے تھے۔ نامی گرامی مصنفین جیسے موراکامی، اعتزاز احسن، جون ایلیا، اشفاق احمد، ملیحہ لودھی، رحمان بابا، البرٹ کیمس، آغا شاہد علی وغیرہ کی کتابیں لائی گئی تھیں۔ ساری کتابوں پہ سیر حاصل گفتگو ہوئی جو بہت ثمربار رہی۔ آخری مرحلے میں دوستوں نے اپنی اپنی نہایت خوبصورت تخلیقات پیش کیں۔ ثمرہ اور حراء کی شاعری قابلِ داد تھی۔ فیضان ہمارا ابھرتا ہوا دانشور ٹھہرا کیونکہ اُس کی تحریر بہت گہری تھی۔ سدرہ کا نام آنے والے وقتوں میں انگریزی کی بہترین مصنّفہ کے طور پر لیا جائے گا۔ اُن کے خطوط نے سلویا پلاتھ کی یاد دِلا دی۔ خود خاکسار نے بھی اپنی ہلکی پھلکی شاعری سے دوستوں کو نوازا جس کو دوستوں نے پسند کیا۔ اِن خوبصورت، خوب سیرت، روشن دماغ اور با شعور دوستوں کے ساتھ یہ شام بڑی یادگار ٹھہری۔ دل کو تسلّی بھی ہوئی کہ ہمارے بارود سے جلے ماحول میں ایسے کامریڈ ابھی موجود ہیں جو زندگی کی آنکھوں کو خوابوں سے اور خوابوں کے دامن کو تعبیروں سے تہی نہیں ہونے دیں گے۔ Bookay کے سارے ممبرز ایسے ہی باکمال لوگ ہیں۔

اِس تحریک کا اثر روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ پشاور کے دوستوں سدرہ، حرا، فیضان وغیرہ نے اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے پشاور بُک کلب بھی بنا ڈالا۔ دِل سے دعا نکلتی ہے کہ یہ سلسلہ بڑھتا ہی رہے۔ یہ کارواں علم کے راستے پہ یونہی گامزن رہے اور مسافر اور بھی آتے رہیں۔ علم دوستی اور کتابوں کی محبت اور اُن کی روشنی میں انسانی کردار کی تشکیل زندگی کے مقاصد سے وفا کرنے کا واحد طریقہ ہے۔ اور تاریخ کا سبق یہ ہے کہ زندگی کے مقاصد سے وفا نہ کرنے والے افراد اور گروہوں کا نام ہر جُرم کے ماتھے پہ لکھا ہوا ملے گا۔ پروردگارِ عالم ہمیں زندگی کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچائے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments