جیک ما اور ایلون مسک کی بحث: مصنوعی ذہانت کے حوالے سے علی بابا اور ٹیسلا کے بانیوں کی رائے یکسر مختلف


جیک ما اور ایلان مسک

ایشیا کی مشہور ای کامرس کمپنی علی بابا کے شریک چیئرمین جیک ما اور امریکہ کی نجی ٹیکنالوجی کمپنی سپیس ایکس کے مالک ایلون مسک کا تعلق نہ صرف دنیا کی دو بڑی مخالف قوّتوں – چین اور امریکہ – سے ہے بلکہ ٹیکنالوجی کے یہ دو بڑے نام مصنوعی ذہانت پر بھی مختلف رائے رکھتے ہیں۔

گذشتہ روز جب یہ دونوں چین کے شہر شنگھائی میں مصنوعی ذہانت پر منعقد کی جانے والی ’ورلڈ اے آئی کانفرنس‘ میں آمنے سامنے آئے تو دنیا کی نظریں اس ملاقات پر جم گئیں۔

دونوں شخصیات کے درمیان ہونے والی 45 منٹ کی گفتگو میں نہ صرف انسانی اور مصنوعی ذہانت کا موازنہ کیا گیا بلکہ انسانوں اور دنیا کے مستقبل پر بھی بات کی گئی۔

https://twitter.com/yicaichina/status/1166960541903908865

سپیس ایکس کمپنی اور برقی گاڑیاں بنانے والی کمپنی ٹیسلا کے مالک ایلون مسک کا ماننا ہے کہ کمپیوٹر انسان سے زیادہ سمارٹ ہیں لیکن جیک ما ان کی اس رائے سے اختلاف رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ بلاشبہ کمپیوٹرز انتہائی ہوشیار ہیں لیکن انسان کہیں زیادہ ذہین ہیں۔

انھوں نے اپنی اس بات کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم (انسانوں) نے کمپیوٹر کو ایجاد کیا لیکن میں نے کبھی کسی کمپییوٹر کو انسان ایجاد کرتے نہیں دیکھا۔‘

یہ بھی پڑھیے

چینی مصنوعی ذہانت سے طاقت کے توازن کو ’خطرہ‘

سوشلستان: ٹیکنالوجی کی جنگ

سپیس ایکس سیاحوں کو چاند کے گرد چکر لگوائے گی

جیک ما

جیک کا ماننا ہے کہ ہم (انسانوں) نے کمپیوٹر کو ایجاد کیا لیکن میں نے کبھی کسی کمپییوٹر کو انسان ایجاد کرتے نہیں دیکھا

جیک ما کے مطابق مصنوعی ذہانت نئی ملازمتیں تلاش کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں لوگوں کو ہفتے میں تین دن جبکہ ایک دن میں صرف چار گھنٹے کام کرنا چاہیے۔‘

’مصنوعی ذہانت کے دور میں لوگ 120 برس تک جی سکتے ہیں۔‘

تاہم ایلون مسک نے جیک ما کی اس بات سے بھی اختلاف کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت سے نوکریاں ’بے معنی‘ ہو جائیں گی۔

انھوں نے مزید کہا کہ انسانی ذہن کو کمپیوٹر سے جوڑنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم مصنوعی ذہانت کے ساتھ بہتر طریقے سے آگے بڑھ سکیں۔

انھوں نے کہا کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ممکن ہے کہ مصنوعی ذہانت انسانوں سے بات چیت کرنے کی صلاحیت حاصل کر لے اور ہم اس کے مقابلے میں سست روی سے سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

لیکن جیک ما کا ماننا ہے کہ مصنوعی ذہانت بلاشبہ شطرنج جیسی گیمز میں انسانوں کو شکست دے سکتی ہے لیکن پھر بھی کمپیوٹر ان ذہین مشینوں میں سے ایک ہے جن کو ہم وقت کے ساتھ ساتھ تیار کر رہے ہیں۔

انھوں نے کہا ’کمپیوٹر ایک کمپیوٹر ہے۔ کمپیوٹر صرف ایک کھلونا ہے۔ کمپیوٹرز میں صرف چپس ہیں جبکہ انسانوں کے پاس دل ہے۔ یہ دل ہی ہے جہاں سے دانشمندی آتی ہے۔‘

ایلون

ایلون مسک کا ماننا ہے کہ مصنوعی ذہانت سے نوکریاں ‘بے معنی’ ہو جائیں گی

اس پوری گفتگو میں جیک ما دنیا کی بقا اور انسانوں کی فلاح و بہبود کی بات کرتے نظر آئے۔

انھوں نے کہا ’خلا میں جانا زبردست ہے لیکن سمندر سے کوڑا نکالنے کے لیے وسائل کو بروئے کار لانا مریخ پر جانے سے زیادہ مشکل ہے۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اس زمین پر رہنا چاہتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ: ’میں اس زمین پر کام کرنا چاہتا ہوں، میں اس دنیا کو بہتر بنانے میں مدد کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں۔‘

ٹیکنالوجی سے وابستہ ان دونوں شخصیات کا یہ ٹاکرا سوشل میڈیا پر بھی زیرِ بحث رہا۔

ایک صارف نے مصنوعی ذہانت پر جیک ما اور ایلون مسک کی مختلف آرا پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ’ایلان مسک اور جیک ما کا کمپیوٹرز اور انسانی ذہانت پر متفق نہ ہونا ہی شاید وہ وجہ ہے جس کے لیے ٹوئٹر کو بنایا گیا تھا۔‘

https://twitter.com/APompliano/status/1166960426233384960

ایک اور صارف نے جیک ما اور ایلون مسک کی مخلتف رائے پر تبصرہ کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ایلون حقیقیت پسند جبکہ جیک سمارٹ ہیں۔

https://twitter.com/Letcheckthemap/status/1166921086170099714

ایک اور صارف نے جیک ما کی رائے کی تائید کرتے ہوئے لکھا کہ وہ ان سے اتفاق کرتے ہیں کیونکہ ’اگر انسان نہیں تو کمپیوٹر بھی نہیں۔‘

https://twitter.com/phubet_t/status/1167045231587389441

چین سے تعلق رکھنے والے 54 سالہ جیک ما کا شمار دنیا کی امیر ترین شخصیات میں ہوتا ہے۔ جیک ما نے سنہ 1999 میں اپنی کمپنی علی بابا کی بنیاد رکھی جس کا شمار آج دنیا کی اہم ترین کمپنیوں میں ہوتا ہے۔

دوسری جانب 48 سالہ ایلون مسک کا تعلق امریکہ سے ہے۔ وہ امریکی نجی راکٹ کمپنی سپیس ایکس اور بڑقی گاڑیاں بنانے والی کمپنی ٹیسلا کے مالک ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp