ویسے تو ہم سخت لونڈے ہیں لیکن!


مسز خان ہوں یا اکبری صغری۔ ان کی لفظی جنگوں کا دائرہ پھیل کر، ہم جیسے ناتواں ’سرتاجوں‘ کے لئے سوہان روح بنا ہوا ہے۔ ایسی شعوری و آگاہی مہم سے بلاوجہ ہم بھی شکار ہو رہے ہیں لیکن ایسا کون ہے جو ہماری داد و فریاد کو بھی سنے کہ مظلوم ترین اقلیت میں تو صرف شوہر حضرات آتے ہیں، اب یہ ان کی بدقسمتی ہے کہ وہ مرد کیمونٹی ہیں، لیکن اس میں مرد حضرات کا کیا قصور کہ کیا ہم نے اپنی کلوننگ خود کرائی تھی کہ مرد بن گئے۔ بس بن گئے یہ تو ایک ’حادثہ‘ تھا جس کا چھکا پہلے لگا وہی میاں داد بنا۔

ہنگامہ ہے کیوں برپا شادی ہی تو کی ہے
ڈاکہ، تو نہیں ڈالا، چوری، تو نہیں کی ہے

ابھی تک ہم عورت مارچ کے پلے کارڈوں کے جھٹکوں سے باہر نکل بھی نہیں پائے تھے کہ اب ایک نئی مہم جوئی شروع۔ لگتا ہے کہ کسی ملک دشمن کی سازش ہے جو سجیلے نوجوانوں کی توجہ ہٹانے کے لئے ہے۔ اگر چائے نازک مزاجوں کو نازک ہاتھوں نے پلا دی تو کون سا کروز میزائل چل گیا۔ کون سی قیامت آگئی۔

خواتین کے ہاتھوں میں گرم کھولتے پانی اور غصے میں کوئی فرق ہے کیا؟ ایک جسم پر گرتا ہے تو دوسرا دماغ پر۔ جسم کا گھاؤ تو پھر بھی بھر جاتا ہے لیکن دل کا زخم پر برنال بھی نہیں لگایا جاسکتا۔

’ ویسے تو ہم سخت لونڈے ہیں‘ لیکن ہماری قمیض پر جواپنے بال دیکھ کر الزام لگادیا جاتا ہے کہ کہاں سے آیا بال، کس کے ہیں یہ بال، کہاں سے لائے یہ بال، ۔ ہماری تو سننے کو بھی تیار نہیں کہ بیگم یہ تمھارے سر کے گرے ہوئے بال ہیں جو کھارے بورنگ پانی سے مسلسل نہانے کی وجہ سے گر رہے ہیں۔ اس ظلم پر کیا کہیں؟

کیا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ بیگم کو کہے کہ گھر سے نکالنے کا ڈر ہوگا، چپ چاپ رہو، یہی تمھارا سب کچھ ہے وغیرہ وغیرہ، گھر تو پرائے دیس جیسا ہوتا ہے جہاں امرد بھی مرضی سے دیر نہیں کرسکتے کہ ریمانڈ ہوجاتا ہے کہ اتنی دیر سے کیوں آئے ہو۔ارے اس پر خوشی نہیں کہ زندہ سلامت آئے تو سہی، دیر آید درست آید کو زیادہ سمجھیئے ناں۔

عورت مارچ کے پلے کارڈوں میں لکھے نعرے ابھی تک محو نہیں ہوئے کہ ’گھر کا کام سب کا کام، عورت بچہ پیدا کرنے کی مشین نہیں ہے، اگر دوپٹہ اتنا پسند ہے تو آنکھوں پر باندھ لو، تمھاری باپ کی سڑک نہیں، لو بیٹھ گئی صحیح سے۔ تم کتنی عورتیں مارو گے ہر گھر سے عورت نکلے گی’ وغیرہ وغیرہ

ہمیں بھی یہ بالکل پسند نہیں کہ عورت بچے پیدا کرنے کی مشین بنے، کیونکہ ان کی پروڈکشن سے ہماری ہی کمر ٹوٹتی ہے۔ اگر دو ٹانکے تم نے لگا لو تو کتنا خرچا بچے گا، دوپٹہ آنکھوں پر باندھنا ہی تو مشین کی وجہ بنتا ہے، ویسے بھی آنکھیں بند ہوتی ہیں، سڑک تو واقعی ہمارے باپ کی نہیں، لیکن جب سڑک قدرتی بن گئی ہو تو گھوڑے دوڑانے سے روکنا بھی تو نا انصافی ہے ناں، اب یہ بحر ظلم ات نہیں تو کیا ہے۔

واللہ، ہم عورتوں کے مارنے کے بالکل قائل نہیں ہیں، ابھی تو ہاتھ بھی نہیں اٹھاتے کہ اتنا زور سے چیختی ہیں کہ محلہ اکٹھا ہوجاتا ہے کہ خان صاحب کیا کردیا، ہم خوف زدہ ایک کونے میں جھاڑو باتھ روم میں دینے میں مشغول ہوجاتے ہیں کیونکہ وہاں بچارے ’لال بیگ‘ ہماری انتہا پسندی کا شکار ہوچکے ہوتے ہیں، بیگ صاحب کا تو کوئی قصور ہی نہیں تھا، اب اگر سیوریج کی لائنوں سے لال بیگ نہیں نکلیں تو کیا بٹیر نکلیں گے، اوپر سے یہ ظلم کہ ہمارے ہاتھوں سے مار دالے جاو، ویسے یقین کیجئے کہ بیگ صاحب یقینا بیگم کی چیخ سنتے ہی دل کے دورے سے راہی عدم ہوئے ہوں گے۔ بچارے کا دل گردہ آخر اتنا جبر کس طرح برداشت کرپاتا ہوگا۔ یہ تو ہم سے اور ہمارے دل سے پوچھیے کہ اے دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے۔

تو مسز خان ہو ں یا مسٹر خان، اکبر صغری ہوں یا اکبر اصغر، خدارا ہم جیسے پر ذرا رحم کیجئے۔ ہم جیسے تیسے زندگی بیتا رہے ہیں، گھر والوں کے لئے نہ جانے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں کہ آپ لوگ نئے نئے ایشو بنا کر جگ ہنسائی کرتے ہیں۔ لیں ہوگیا ناں مسئلہ، سمجھانے سمجھانے میں پھر عورت کی آزادی پر قلم اٹھا بیٹھے، چلیں گھر میں بیلن اٹھانے والی کا انتظار ختم کیے دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).