کباڑ کی کتابیں اور پارک کا بوڑھا


شام کو پارک میں اکثر وہ بوڑھا لاٹھی پر ٹھوڑی ٹکائے ایک بینچ پر بیٹھا نظر آتا۔ کبھی کبھار اس کے پاس کوئی بیٹھ جاتا تو وہ سماج اور سیاست کی موضوع پر گفتگو شروع کر دیتا۔ ایک دن واک کرتے ہوئے میں بھی اتفاقا اسی بینچ پر بیٹھ گیا۔ سلام دعا کے بعد سامنے سے گزرنے والا ایک پندرہ سالہ موٹر سائیکل سوار جو بہت تیزی سے پاس سے گزر گیا۔ کو دیکھ کر کہنے لگے کہ یہ موٹر سائیکل ایک شیطان سواری ہے۔ اور اس پر سواری کرنے والے اس شیطان کے ڈرائیور ہیں۔

میں ہنس پڑا۔ بہرحال اس دن کے بعد اکثر ان سے ملاقات ہوتی۔ وہ ایک کتابیں پڑھنے والے ریٹارئرڈ فوجی تھے۔ سیاست، سماج، معاشیات اور معاشرتی ناہمواریوں پر گفتگو کرتے۔ اور اپنے تجربات بھی بتاتے۔ لیکن کبھی بھی ہم دونوں کے درمیان ذاتی امور جیسے گھر، خاندان اور بچوں کے متعلق بات نہیں ہوئی۔ نہ انہوں نے پوچھا نہ میں نے کبھی سوال کیا۔

ایک دن میں گھومتے پھرتے ان کے پاس پہنچا تو وہ ایک وزنی سی کتاب ہاتھ میں لئے بیٹھے تھے۔ میں اب انہیں انکل پکارنے لگا تھا۔ میں نے کہا انکل آج لگتا ہے آپ نے کسی کا شکار کرنا ہے۔ کہ اتنی وزنی اور پرانی کتاب لے کر بیٹھے ہیں۔ انہوں نے انجان سا قہقہ لگایا۔ اور کہنے لگے کہ یہ انگریزی زبان کی 90 سالہ پرانی ڈکشنری ہے۔ جو مجھے ایک کباڑ سے مل گئی۔ انہوں نے بتایا کہ آج قریب کے کباڑیے کی پاس پرانی کتابوں کا ایک ٹرک آیا ہے۔

آپ بھی جا کر دیکھو ہوسکتا ہے کوئی انمول کتاب ہاتھ لگ جائے۔ کسی انمول بوڑھے کی لائبریری ہو گی جو اب کباڑ کا حصہ بن گئی ہے۔ کل کو ان کتابوں کے صفحات ری سائیکل ہو کر کاغذی لفافے بن جائیں گے۔ اور پھر ان میں پکوڑے اور چپس بکیں گے۔ میں قہقہہ لگانے لگا۔ لیکن پھر ان کی آنکھوں کی اداسی دیکھ کر خود کو روک لیا۔

کہنے لگے کہ گھر کا بوڑھا بھی ایک کباڑ ہی ہوتا ہے۔ میں نے کہا کہ وہ کیسے۔ ہمارے معاشرے میں تو بوڑھے کی بہت عزت ہے۔ تو کہنے لگے کہ یہ جو نیوکلیس فیملیز سمجھی جاتی ہیں۔ یہ المیہ وہاں ہی پایا جاتا ہے۔ اور پھر ایک کہانی سنانے لگے کہ میرے ایک دوست تھے۔ ایک دن عصر کی نماز پڑھ کر گھر پہنچے تو ٹی وی لاؤنج میں چھوٹی بہو سے ملاقات ہوئی۔ جس کو وہ بڑی محبت سے اپنے سب سے لاڈلے بیٹے کے لئے بیاہ کر لائے تھے۔ بہو نے ان کو ہاتھ میں چائے پکڑائی اور کہا کہ انکل آج سے آپ کا بیڈ کچن میں لگا دیا کروں گی۔ آپ ادھر ہی سو جایا کریں۔ آپ تو ویسے بھی سارا دن ٹی وی دیکھتے ہیں یا وظائف کرتے ہیں۔ آپ کو تو ویسے بھی بیڈ روم کی ضرورت نہیں۔

انہوں نے بات سنی اور اچھا کہہ کر وہ رات کچن میں جاگتے ہوئے گزاری۔ صبح فجر پڑھی۔ واپس آ کر ایک چارٹ پیپر لیا اور اس پر گھر برائے فروخت ہے لکھ کر باہر لگا دیا۔ اہل محلہ حیران تھے کہ اس شخص نے تو ساری زندگی محنت کی اور ریٹائرمنٹ کی ساری کمائی ایک گھر بنانے پر لگا دی۔ چھ کمروں، ایک بڑے کچن اور لان کے ساتھ یہ ایک مکمل گھر تھا۔ گھر کی تعمیر انہوں نے خود کھڑے ہو کر کروائی۔ ایک ایک اینٹ اپنی نگرانی میں لگوائی۔

پھر گھر کے لان میں ایک ایک پودا اپنے ہاتھ سے لگا کر ان کی نشونما اسی طرح کی، جس طرح کوئی اپنے بچوں کی نشونما کرتا ہے۔ اب یہ گھر کیوں فروخت کر رہا ہے۔ سب نے منع کیا۔ اہل محلہ ہوں کہ رشتہ دار سب نے ہی سمجھایا بجھایا کہ گھر فروخت نہ کریں۔ لیکن انہوں نے کسی کی نہ سنی۔ گھر فروخت کیا۔ اور پیسے تینوں بیٹوں میں تقسیم کیے۔ اپنے لئے کرائے کا ایک کمرہ لیا اور اس میں منتقل ہو گئے۔ انہوں نے اپنے بچوں سے کہا کہ یہ گھر میں نے اپنے اور آپ سب کے لئے بنایا تھا۔ اگر آج گھر میں میری جگہ نہیں۔ تو کل کو آپ ایک دوسرے کے ساتھ بھی یہی سلوک کرو گے۔ یہ کہانی سنا کرانہوں نے ٹھنڈی آہ بھری اور بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔ کہ اب وہ بوڑھا روزانہ پارک میں آتا ہے۔ ایک بینچ پر بیٹھتا ہے اور گھنٹوں اس مکان کو دیکھتا رہتا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).