پولیو کے خلاف مہم اور کیڑے مکوڑے گلفام


حکومت کی طرف سے جب بھی پولیو کے قطرے پلانے کی بات شروع ہو تی ہے، ملک کے طول و عرض میں ایسے دانشور فوراً جاگ جاتے ہیں جن کی زندگی کا صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح پولیو کے خلاف ہوا بنائی جائے اور لوگوں کو بتایا جائے کہ یہ قطرے ہمارے خلاف انتہائی خطرناک سازش کی ایک کڑی ہیں۔ یہودی اپنے کثیر سرمائے سے ہماری نسلوں کے خلاف مہم چلا رہا ہے اور اگر پولیو ورکرز کو نہ روکا گیا تو ایک دن ایسا آئے گا جس کے بارے ابھی آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج تک ہم ان پڑھ لوگوں کو ہی جہالت کا الزام دیتے رہے ہیں لیکن پولیو کے خلاف تو پڑھے لکھے لوگوں میں بھی جہالت انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ آئیے پولیو کے خلاف مہم چلانے والوں کے الزامات کے جواب تلاش کرتے ہیں۔

مخالفین سب سے پہلی بات جو بڑے جذبے سے کرتے ہیں وہ پولیو ویکسین کے لیبارٹری ٹیسٹ کے بارے ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ پورے پاکستان میں ایک بھی لیبارٹری میں پولیو ویکسین ٹیسٹ کرنے کی نہ تو سہولت دستیاب ہے اور نہ ہی اس کی اجازت ہے، آخر کیوں؟ بجائے پولیو ویکسین کی رپورٹیں دکھانے کے ایسے لوگوں سے سوال ہے کہ آپ کے گلی محلے میں جو ملاوٹ والا دودھ برسوں سے بیچا جا رہا ہے اور جس کے بارے آپ ایمان کی حد تک قائل بھی ہیں کہ لوگ خالص دودھ نہیں بیچتے، آپ کو اپنی اولاد کی اتنی فکر ہے تو کبھی اس دودھ کا لیبارٹری تجزیہ کروانے کی زحمت گوارا کی ہے؟

پانی جو پیتے ہیں وہ بعض علاقوں میں کس قدرمضر صحت اور آلودہ ہوتا ہے، کبھی کسی شہری نے پانی ٹیسٹ کروانے کا بھی سوچا ہے؟ ننھے بچوں کے لیے بازار میں مختلف کمپنیوں کی طرف سے دودھ سے لے کر ٹھوس غذا کے نام پر ہزاروں چیزیں دستیاب ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک کو بھی آج تک کسی لیبارٹری میں کسی شخص نے ٹیسٹ نہیں کروایا اور نہ ہی ایک بڑی تعداد کو یہ پتہ ہو گا کہ یہ چیزیں کس ملک میں بنتی ہیں اور کیسے وہاں سے پاکستان لائی اور بیچی جاتی ہیں؟ بہت آسان سی بات ہے جب اپنے بچوں کے استعمال کی ہزاروں چیزوں کو آپ بے توجہی سے استعمال میں لاتے ہیں تو صرف پولیو ویکسین کے بارے سوال کرتے آپ نہ تو اچھے لگتے ہیں اور نہ ہی حقیقی فکر مند، بلکہ کسی دوسرے کے الفاظ اپنے منہ سے ادا کر رہے ہوتے ہیں۔

آپ یہ سوچتے ہیں کہ یہودی آپ کی نسلوں کو بانجھ کرنا چاہتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ صرف پولیو ویکسین ہی کیوں؟ کولڈ ڈرنک سے لے کر آئس کریم تک اور چاکلیٹ سے لے کر کھانے کی ہزاروں اشیاء کی کمپنیاں نہ صرف غیر ملکی بلکہ یہودیوں کی ملکیت ہیں۔ کیا ان کے لیے بہت آسان نہیں تھا کہ ان اشیاء کے ذریعے آپ کی نسلوں کو بانجھ کرنے کے بجائے بالکل ختم کرنے کا پروگرام شروع کر دیتے کہ آپ تو ویسے بھی غیر ملکی اشیاء کے رسیاء ہیں اور غیر ملکی اشیاء کے استعمال کو اپنی عزت اور وقار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

اگر صرف بانجھ کرنے کی بات ہوتی اور قطرے ہی پلاناضروری ہیں تو آپ کے علاقے کا ٹیوب ویل آپریٹر تو سو روپے میں بک جانے کو تیار رہتا ہے، اگر اسے پانچ سو روپے پکڑادیے جائیں تو کیا من پسند نتائج نہیں مل سکتے؟ پھر اتنی ویکسین اور ورکرز کا خرچہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ویسے یہ سوال تو بہر حال ہے کہ عیسائی اور یہودی آپ کی نسلوں کو بانجھ کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ قرون اولیٰ کے وہ مسلمان ہیں جو دریاؤں میں گھوڑے دوڑادیا کرتے تھے یا پیٹ پر پتھر باندھ کر میدان جنگ میں کود جایا کرتے تھے؟

جناب حقیقت کی دنیا میں آئیے کہ اب تو آپ وہ لوگ ہیں جو فیس بکی جہاد کے قائل ہیں (فیس بک کس کی بنائی ہوئی ہے کیا یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے؟ ) اور ہر تیسری پوسٹ میں ظلم کے خلاف لکھتے ہوئے بس یہی درخواست کر رہے ہوتے ہیں کہ اس پوسٹ کو اتنا شیئر کرو کہ انگریز ہندوستان چھوڑ جائے، اسرائیل بندے کا پتر بن جائے، امریکہ تائب ہو جائے یا انٹارکٹیکا میں ایمزون کا جنگل اگ آئے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آپ ترقی یافتہ ممالک کی لیبر فورس ہیں کہ آپ جیسے غریب، ان پڑھ، بے ہنر اور کم تنخواہوں والے دنیا میں اور کہاں میسر ہیں؟

آپ کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک کے اسلحہ سے لے کر سرخی پاوڈر کے کارخانے چلتے ہیں، آپ جیسے بیوقوف جو اپنوں کو مارنا کار ثواب سمجھتے ہیں اور عیسائی یہودی اسلحہ اور مصنوعات کے دنیا میں سب سے بڑے خریدار ہیں، بھلا آپ بیوقوفوں کو ختم کر کے ان لوگوں نے اپنے پیٹ پر لات مارنی ہیں کہ آپ جیسے نمونے دنیا میں اور کہاں دستیاب ہوں گے؟

موضوع کی طرف واپس آتے ہیں کہ پولیو کے مخالفین دنیا کے ایسے ایسے کونوں سے ڈاکٹرز تلاش کرتے ہیں کہ آ پ کو بھی حیرت ہو گی۔ ان ڈاکٹروں کی رپورٹس اور ہدایات کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ پولیو ویکسین میں فلاں فلاں چیزیں شامل ہوتی ہیں اور ان چیزوں کے ویسے تو یہ نقصانات ہیں یا پھر یہ چیزیں فلاں فلاں طریقے سے مضر صحت ہوتی ہیں۔ ہم آپ سے متفق ہیں کہ آپ نے اتنی کوشش سے یوگینڈا اور مالٹا سے ڈاکٹرز ڈھونڈے، امریکہ اور جرمنی کے ڈاکٹروں کی رپورٹس پڑھ کر ہمیں آگاہ کیا لیکن جو ہمارے اپنے ڈاکٹرز دن رات فریاد کرتے ہیں کہ جنک فوڈز کا استعمال بند کر دیں، کولڈ ڈرنکس صحت کے لیے کتنی مضر ہیں اور کس طرح سے انسانی صحت کو برباد کرتی ہیں، ان سب کا کیا؟

صبح کی سیر، تھوڑی سی ورزش، کھانے کے بعد تھوڑی سی چہل قدمی، ننھے بچوں کو ٹی وی، لیپ ٹاپ اور موبائل سے دور رکھیں، دو ڈھائی سال کے بچوں کو اسکولوں میں داخل کروا کر ان کا بچپن نہ قتل کریں، یہ سب بھی تو ڈاکٹرز کہتے ہیں، کیا کبھی کسی نے ان پر بھی دھیان دیا ہے؟ آپ کا پورا جنرل نالج تو ڈبے والے دود ھ میں ڈالے جانے والے بال صفا پاوڈر تک محدود ہے لیکن جب پوچھا جائے کہ ڈبے کے دودھ کو کیسے اور کن طریقوں سے مہینہ بھر کے لیے محفوظ رکھا جا سکتا ہے تو آپ کا کھلا ہو امنہ بتا دیتا ہے کہ ڈاکٹروں کی رپورٹیں آپ کتنی سمجھداری سے پڑھتے اور سمجھتے ہیں۔

ویسے کیا آپ کا خیال ہے کہ آپ اس دنیا کی کوئی بہت ہی قیمتی مخلوق ہیں؟ انسانوں میں کوئی بہت سی اعلیٰ اور نایاب لوگ ہیں جن کے خلاف دنیا بھر کے لوگ سازشیں کر رہے ہیں تو مجھے آپ کے خیالات سے متفق ہونے میں اس وقت دقت پیش آتی ہے جب میں آپ کے رشتہ داروں کو ملاوٹ میں ملوث پاتا ہوں، جب کم عمر بچوں کو موٹرسائیکل اور گاڑیاں لے کر نکلتے دیکھتا ہوں اور پھر ان گاڑیوں کے ساتھ ان کے تماشے بھی دیکھتا ہوں۔ جب ایک باپ اپنے تین چار بچوں کو موٹرسائیکل پر کہیں لے جا رہا ہوتا ہے لیکن ہیلمٹ نہیں پہنتا تو جان لیتا ہوں کہ اس کی اپنی زندگی کس قدر قیمتی ہے اور اسے اپنے بچوں کے مستقبل کی کس قدر فکر ہے۔

جب پڑھائی کا سارا مقصد صرف نوکری رہ جاتا ہے اور جب اپنی جگہ بیٹے کو سیٹ کر کے مر جانا ہی زندگی کا حاصل ہو تو پھر درمیان میں پولیو، عیسائی یہودی دشمنی اورنسلوں کی باتیں ایک اچھا مذاق تو ہو سکتا ہے لیکن اس کے سوا کچھ نہیں۔ جب اپنے رویے سے لوگ اپنے آپ کو اور اپنی آنے والی نسلوں کو کیڑے مکوڑے ثابت کریں تو پولیو کے نام پر کوئی آپ کے گلفام ہونے کا قائل نہیں ہو گا۔ آپ تو وہ لوگ ہیں جو کسی بچے کی بیماری کو بھی اس کے ماں باپ کے کردار سے ناپتے ہیں اور پورے یقین سے کہتے ہیں کہ اس کے ماں باپ نے ضرور کچھ غلط کیا ہو گا جس کی سزا اولاد کو مل رہی ہے۔

آپ آج بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کے قائل نہیں کہ آپ کے ڈاکٹروں کے مطابق اس ویکسین کی سو فیصد گارنٹی نہیں ہے، لیکن آنے والے کل میں ایک معذور کی ویل چیئر دھکیلتے ہوئے اپنے خدا سے شکوے کرنا اور یہ سوچنا کہ آپ کو جرم غریبی کی سزا مل رہی ہے، آپ کی زندگی گزارنے کا بہترین شغل ہو گاکہ ہمارے معاشرے میں احتیاط کے بجائے معذوری اور بیماری پر آہ و فغاں کرنا سب سے پسندیدہ کام ہوتا ہے۔ آپ کی زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد ایک معذور کو دوسروں کا محتاج بنا دینے سے بھلا آپ کا کیا نقصان ہے کہ پہلے کون سا اس بچے نے ڈاکٹر قدیر بننا تھا لیکن اہل مغرب نہ تو آپ کی طرح گری ہوئی سوچ کے قائل ہیں اور نہ ہی اپنے بچوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں۔

اہل مغرب کو یقیناً آپ کی کوئی فکر نہیں لیکن وہ اپنے بچوں کو ایک اچھا اور محفوظ مستقبل دینا چاہتے ہیں کہ ان کے بچے ان کے لیے بہت قیمتی ہیں۔ خود سے سوال کیجئے کہ کیا آپ اپنے کیڑے مکوڑوں کوایک دن کا گلفام سمجھتے ہیں یاں پھرواقعی اپنی اولاد کے لیے ایک اچھے اور محفوظ مستقبل کے خواہاں ہیں اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر آنے والی نسلوں کی بہتری کے لیے کوشاں رہیں گے۔ آپ کا فیصلہ آپ کے بچوں کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا، اس لیے سوچ سمجھ کر فیصلہ کیجئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).