مودی پر سوار عقل ِکُل کا بھوت


قدرت کا یہ انتہائی انوکھا عجوبہ ہے کہ ایک حکمران کو لامحدود طاقتیں حاصل ہو جائیں تووہ خود کو عقلِ کل سمجھنے لگتا ہے۔ یہی وہ ”آسمانی“ کیفیت ہے جب حکمرانوں سے ایسی فاش غلطیاں سرزد ہوتی ہیں جن کا خمیازہ عموماًپوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اس عجوبے کی ایک مثال بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ہیں۔

جب 2014 ءمیں ڈویلپمنٹ مین ”کا تمغہ سینے پہ سجائے مودی مہان منتری بنے تو تیل کی قیمتیں کم ہو رہی تھیں۔ یہ رجحان 2017 ءتک جاری رہا۔ بھارتی حکومت کا سب سے بڑا خرچہ تیل ہے۔ جب یہ کم ہوا تو لامحالہ قومی معیشت پر خوشگوار اثرات پڑے اور وہ ترقی کرنے لگی۔ مودی جی نے اس ترقی کو خوش قسمتی سے تعبیر کرنے کے بجائے اپنے ذہنِ رسا اور انتظامی صلاحیتیوں کا چمتکار قرار دیا۔ لہذا ان کا غرور واعتماد انتہا پر جا پہنچا۔

اسی عالم ِسرمستی میں انھوں نے کالا دھن ختم کرنے کی خاطر 2016 ءمیں بڑی مالیت کے کرنسی نوٹ ختم کر دیے۔ اس اچانک اقدام نے مگر قومی معیشت سے کثیر سرمایہ نکال دیا۔ سرمائے کی کمی سے کئی چھوٹے بڑے کارخانے اور کاروبار بند ہو گئے اور لاکھوں بھارتی بیروزگار ہوئے۔

بھارتی معیشت نوٹ بندی کے منفی اثرات تلے سسک رہی تھی کہ 2017 ءمیں متکبر مودی نے اس پہ جی ایس ٹی (گڈز اینڈ سروس ٹیکس) بم پھینک دیا۔ یہ نظام بھی جلد بازی میں عوام و خواص پر تھوپا گیا اور لوگوں کی اکثریت اسے سمجھ نہ سکی۔ اس حکومتی حملے نے بھی مذید کارخانے اور کاروبار بند کرا دیے۔ لاکھوں بھارتی بیروزگار ہو گئے۔

اس دوران طاقت کے نشے میں مخمور مودی حکومت مملکت میں قرضے لینے دینے کا نظام درست نہ کر سکی۔ بھارت میں کاروباری اور صنعتکار سرکاری وغیر سرکاری بینکوں سے سالانہ کھربوں روپے قرض لیتے ہیں۔ جب مودی سرکار کے اقدامات سے معیشت زوال پذیر ہوئی تو یہ طبقہ قرض واپس کرنے میں مشکلات محسوس کرنے لگا۔ بہت سے کاروباری اور صنعتکار مثلاً وجے ملایہ، نرو مودی وغیرہ فراڈ نکلے اور وہ بینکوں کے اربوں روپے ڈکار گئے۔

آج بھارت میں بینکاری نظام کافی کمزور ہو چکا کیونکہ کاروباری طبقے نے اس کے ”ڈیڑھ سو ارب ڈالر“ واپس کرنے ہیں۔ مگر واپسی کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ مودی حکومت مجبور ہے کہ بینکوں کو مال کھلاتی رہے تاکہ بینکاری نظام ٹھپ نہ ہو۔ حتی کہ بڑھتی مہنگائی کے باوجود بھارتی سٹیٹ بینک شرح سود گھٹا رہا ہے۔ اگر بڑھائی تو قرضوں کی مالیت میں کئی ارب ڈالر کا اضافہ ہو جائے گا۔

اسی دوران 2017 ءسے تیل کی قیمتیں بڑھنے لگیں۔ 2015 ءمیں بھارت چونسٹھ ارب ڈالر کا تیل خریدتا تھا۔ آج وہ 112 ارب ڈالر کا تیل منگواتا ہے۔ 48 ارب ڈالر کے اضافے نے سرکاری بجٹ پہ منفی اثر مرتب کیا اور وہ خسارے میں چلا گیا۔

غیر دستاویزی معیشت کو دستاویزی بنانے کی کوششیں اورنئے ٹیکس نظام نے معاشی سرگرمیاں سست کر دیں اور بھارتی عوام کی قوت خرید کو ضعف پہنچا۔ بڑھتی آبادی نے بھی رنگ دکھایا کہ بھارت میں ہر چوبیس گھنٹے ایک سیکنڈ فی پیدائش کے حساب سے 86000 نئے جی آ پہنچتے ہیں۔ اِدھر بڑھتی بیروگاری آفت بن گئی اور تنخواہیں بڑھنے کا نام نہیں لیتیں۔

معیشت کی گراوٹ سے یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ شاید مودی حالیہ الیکشن ہار جائیں۔ مگر پلوامہ حملے نے پانسہ پلٹ دیا۔ انھوں نے پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف بے وقوف بھارتی عوام کو پھر اپنے پلیٹ فارم پر جمع کیا اور الیکشن جیتنے میں کامیاب رہے۔ اب بھارتی کاروباری طبقے کو امید تھی کہ مودی نئے بجٹ میں ان کو مراعات دیں گے۔ خاص طور پہ بھارتی آٹو سیکٹر شدید بحران میں مبتلا ہو چکا۔ مگر حکومت نے نئے ٹیکس لگا دیے۔ وجہ یہ بنی کہ ٹیکسوں سے حاصل شدہ سرکاری آمدن گھٹ گئی تھی۔ اس وار نے معیشت کو ایک اور دھچکا پہنچا دیا۔

یہ ممکن ہے کہ عوام کی توجہ معاشی زوال سے ہٹانے کے لیے مسئلہ کشمیر پیدا کر دیا گیا۔ اس سے مودی سرکار کے خلاف اٹھتی آوازیں خاموش ہو گئیں اور مودی کو فائدہ پہنچا۔ اسی اثنا میں سٹیٹ بینک نے سرکار کو اپنی زنبیل سے 24 ارب ڈالر فراہم کر دیے۔ یہ رقم حاصل کرنا مودی حکومت کے لیے وبال جان بن گیا تھا۔ اسے دو مخالف گورنر گھر بھجوانے پڑے۔ آخر تیسرے کٹھ پتلی گورنر نے یہ رقم فراہم کر دی۔ رقم ملنے پر مودی سرکار کو اچھی خاصی آکسیجن مل گئی اور سرکاری لاشے میں کچھ جان پڑی۔

ماضی میں تیل کی کم قیمت اور کاروباری و سرمایہ دار طبقے کی حمایت کے باعث مودی قومی معشیت کو ترقی دینے میں کامیاب رہے۔ اب تیل کی قیمت بڑھ چکی اور درج بالا طبقے بھی زیادہ حمایتی نہیں رہے۔ لہذا مودی جی کی انتظامی صلاحیتیوں کا اصل امتحان اب شروع ہوا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اگلے پانچ برس میں وہ بھارتی معیشت کو ترقی دیں گے یا اس کا زوال نہیں روک پاتے۔ مستقبل ہی یہ دلچسپ بات بھی افشا کرے گا کہ کیا معاشی بحران نے مودی کے سر پہ سوار عقل ِکل کا بھوت اتار دیا؟

(سید عاصم محمود ادیب، مدیر اور قاموس نگارسید قاسم محمود کے فرزند ہیں۔ تیس سال سے سائنسی، معلوماتی، معاشرتی اور سیاسی موضوعات پہ لکھ رہے ہیں۔ اردو ڈائجسٹ کے مدیر رہے۔ آج کل روزنامہ ایکسپریس کے شعبہ میگزین سے وابستہ ہیں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).