احتجاج کو موثر کیوں نہ بنایا جا سکا؟


وزیراعظم عمران خان کی طرف سے کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے لئے آج جمعہ کے روز 12 سے ساڑھے 12 تک پورے پاکستان میں احتجاج ریکارڈ کرانے کے لئے اپیل کی گئی تھی۔ وزیراعظم عمران خان کی آواز پر بلاشبہ بڑی تعداد میں لوگ باہر نکلے اور کشمیر کی آزادی کے لئے آواز بلند کی، جسے ملکی وغیر ملکی میڈیا نے خوب کوریج دی۔ یوں پوری دنیا کو یہ پیغام گیا کہ پاکستانی عوام مشکل کی اس گھڑی میں اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کشمیریوں کے حق میں اس احتجاج کو موثر بنانے کے لئے حکومتی سطح پر کوئی لائحہ عمل نہیں بنایا گیا۔ احتجاج کے لئے بنیادی اور اہم چیز ٹائمنگ ہوتی ہے۔ اول تو ٹائمنگ کا ہی خیال نہیں رکھا گیا کیونکہ جمعہ کے دن عام طور پر لوگ اس وقت جمعہ کی تیاری میں مصروف ہوتے ہیں۔ جمعہ کے روز احتجاج کے لئے بہترین ٹائمنگ جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے بعد کی ہے۔

وزیراعظم عمران خان کی طرف سے یہ کہا گیا کہ قوم جمعہ کے روز باہر نکلے۔ سو لوگوں نے وزیراعظم کے اعلان پر لبیک کہا اور گھروں و دفتروں سے باہر نکلے لیکن یہ نکلنا ایسا تھا کہ جونہی 12 بجے، لوگ آفس سے باہر آ کر چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگے۔ کچھ منچلے تو ہلڑ بازی کرتے دکھائی دیئے۔ اکثر لوگ ایک دوسرے سے یہ پوچھ رہے تھے کہ کس جگہ جمع ہونا ہے جبکہ کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ وزیراعظم نے صرف یہ کہا ہے کہ باہر نکلنا ہے سو ہم باہر نکل آئے ہیں۔

میں نے کئی بزرگ شہریوں کو دیکھا جن کا کہنا تھا کہ وہ عام طور پر کسی بھی احتجاج میں شریک نہیں ہوتے لیکن چونکہ یہ کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے احتجاج ہے اور قوموں کی تاریخ میں ایسے دن بہت کم آتے ہیں کہ وہ اپنی تقدیر بدل سکیں اس لئے ہم باہر نکلے ہیں۔ ایک ادھیڑ عمر کے شخص ملے جو آزاد کشمیر چکوٹھی سے صرف اس لئے آئے تھے کہ پاکستانیوں کے ساتھ مل کر کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کر سکیں۔ حکومت نے جس طرح لوگوں کو باہر نکلنے کا کہا تھا اگر بڑے شہروں میں جگہ کا تعین بھی کر دیا جاتا جیسا کہ اسلام آباد میں ڈی چوک، لاہور میں مینار پاکستان اور کراچی میں مزار قائد وغیرہ تو اس احتجاج کو مزید موثر بنایا جا سکتا تھا۔ اسلام آباد کی بات کی جائے تو ڈی چوک میں زیادہ سے زیادہ دو ہزار کے قریب لوگ جمع ہو سکے جبکہ یہ تعداد کم از کم بھی ایک لاکھ ہونی چاہئے تھی کیونکہ اسلام آباد ڈی چوک میں کوریج کے لئے عالمی میڈیا بھی موجود تھا۔

سب سے اہم مسئلہ قیادت اور سرپرستی کا فقدان تھا کیونکہ وزیراعظم کی کال پر لوگ تو جمع ہو گئے تھے لیکن کرنا کیا ہے، یہ کسی کو بھی معلوم نہیں تھا یہ بالکل ایسے ہی ہوا جیسے 2014 کے پی ٹی آئی کے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور لاک ڈاون میں ہوا تھا کہ عمران خان نے نوجوانوں کو باہر نکلنے کے لئے کہا اور جب ان کی آواز پر نوجوان باہر نکل آئے تو قیادت بنی گالہ میں جا کر سو گئی۔ قیادت کے بنی گالہ میں جانے پر کئی نوجوان دل برداشتہ ہوئے تو بعد ازاں لائحہ عمل بنایا گیا۔

کشمیریوں کے حق میں کیا گیا احتجاج پی ٹی آئی کے سیاسی شو کا تاثر دے رہا تھا۔ وزیراعظم عمران خان کی تقریر میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے لئے اگرچہ پوری قوم کو مخاطب کیا گیا تھا لیکن وزیراعظم اگر بڑے پن کا مظاہرہ کرتے اور آپسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو بھی اس احتجاج میں شامل ہونے کا کہتے تو اس احتجاج کو مزید موثر بنایا جا سکتا تھا۔

اپنے ہی ملک کی ٹریفک کو آدھے گھنٹہ کے لئے بند کرنا، سگنل کو سرخ رکھنا اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر باہر نکلنے کے فوائد کم اور ملکی معیشت کو نقصان پہنچنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اگر پاکستان احتجاج کے ذریعے ہی کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا چاہتا ہے تو عالمی میڈیا کی توجہ اس جانب مبذول کرانا ہو گی اورعالمی میڈیا پورے پاکستان کے گلی محلے میں جاکر منظر کشی نہیں کر سکتا اس کے لئے ضروری ہے کہ چند مقامات کا تعین کیا جائے اور عوام کو وہاں پہنچ کر احتجاج ریکارڈ کرانے کے لئے بھرپور شرکت کے لئے کہا جائے۔ یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب حکومت پلاننگ کے بعد احتجاج کی کال دے اور اپوزیشن سمیت تمام مکتب فکر کے لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرے بصورت دیگر اسے پی ٹی آئی کا ایک سیاسی شو ہی تصور کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).