اُمّہ کا مغالطہ یا ملکی مفاد؟


بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کو پچھلے پانچ سال میں مسلم ممالک کی جانب سے چھ اعلیٰ سول ایوارڈز مل چکے۔ ان میں اگست 2019 میں بحرین سے ”King Hammad order of Renaissance“ اور متحدہ عرب امارات سے ”Order of Zayed“، جون 2019 میں مالدیپ سے ”Rule of Nishan Izzuddeen“، فروری 2018 میں فلسطین سے ”Grand Collar of the State of Palestine“، جون 2016 میں افغانستان سے ”Amir Amanullah Khan Award“ اور اپریل 2016 میں سعودی عرب سے ”King Abdulaziz Sash Award“ شامل ہیں۔

بھارتی میڈیا کے مطابق پاکستان بھارت کو عالمی سطح پر تنہا کرنا چاہتا تھا مگر یہ ایوارڈز اس کے منہ پر ایک ”زوردار طمانچہ“ ہیں۔

پاکستانی کیا سوچتے ہیں؟

اکثر پاکستانی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے دشمن، اسرائیل کے قریبی دوست اور گجرات میں مسلمانوں کے قاتل کو نوازنا ویسے بھی نامناسب ہے تاہم پانچ اگست کو بھارت کی جانب سے کشمیر کو اپنا یونین علاقہ قرار دینے، وہاں عملاً مارشل لا نافذ کرنے اور مسلم اکثریت کے خلاف تشدد کے ایک بھیانک منصوبے کے پیش نظر یہ ایوارڈز حددرجہ بے حسی، لاپرواہی اور زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں۔

وہ سمجھتے ہیں عرب ممالک کے مسائل کو پاکستان نے اپنے مسائل اور ان کے دشمن کو اپنا دشمن سمجھا ہے لیکن اس سے پہلے پاکستان کے احتجاج اور بائیکاٹ کے باوجود انڈیا کو او آئی سی اجلاس میں بٹھایا گیا اور اب کشمیر پر پاکستان کا ساتھ دینے کے بجائے مودی کو انعام سے نوازا گیا۔ امت کا حصہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کا تھوڑا خیال تو رکھا جاتا۔

خارجہ تعلقات کی اصل بنیاد کیا ہے؟

ہماری اکثریت ابھی تک نہیں مان رہی کہ خارجہ تعلقات مذہب، اخلاقیات اور اصولوں پر نہیں بلکہ تجارتی اور سیاسی مفادات کی اساس پہ استوار کیے جاتے ہیں۔ ہر ملک کو جس ملک اور قوم سے بھی مفاد ہو اس ملک سے راہ و رسم بڑھانا، تجارت کرنا اور اس کے جرائم سے اغماض برتنا بلکہ ہر فورم پر اس کا ساتھ دینا اس کے حکمران اپنا فرض سمجھتے ہیں۔

دنیا میں اس قوم و ملک کی قدر ہوتی ہے اور سب اس کے ساتھ تعلق رکھنا اور مضبوط کرنا چاہتے ہیں جو سیاسی، مالی، علمی، ٹیکنالوجی اور کچھ حد تک اخلاقی سطح پر برتر اور ترقی یافتہ ہو، جس سے قوموں کے مفاد پورے ہوتے ہوں اور جس سے تعلق نہ رکھنا نقصان دہ ہو۔

مسلم امہ کا مغالطہ

مسلم ممالک نے اپنے ہم مذہب پاکستان کی حمایت کے بجائے بھارت کا ساتھ دیا تو پاکستان اور مذہبی جماعتیں بھی چینی مسلمانوں پر چین کی ”دہری“ حکومت کے مبینہ مظالم پر خاموش رہے ہیں اور اس کی مذمت نہیں کرسکے۔ بظاہر وجہ یہ ہے کہ چین پر تنقید سے اُس سے تعلق اور جڑے مفاد کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا۔

امہ اگر ایک حقیقت ہوتی تو پاکستان کی مذہبی جماعتیں، جو فلسطین و کشمیر میں یہود و ہنود کے مظالم پر ہر وقت سخت تنقید کرتی رہتی ہیں، یمن میں سعودی عرب اور یو اے ای کی بمباری پر خاموش کیوں رہتیں۔

اوراگر مذہب کی بنیاد پر ہی خارجہ پالیسیاں بنائی جارہی ہوتیں اور اپنے ہم مذہب کی حمایت لازمی ہوتی تو پھر امریکہ کی سرکردگی میں اتحادی ممالک ایک مسلم ملک بوسنیا کی حفاظت کے لیے اپنے ہم مذہب سربیا پر بمباری نہ کرتے اور نہ ہی عرب ممالک مسلم عراق پر بمباری میں مغربی ممالک کا ساتھ دیتے۔

اخلاقیات اور اصول بھی تب بروئے کار آتے ہیں جب مفاد اس کے متقاضی ہوں۔

سب جانتے ہیں انسانی حقوق اور جمہوریت کے علم بردار مغربی ممالک فلسطین میں اسرائیل کے ظلم اور عرب ریاستوں میں غیر جمہوری نظام اور اقدامات کو نظرانداز کرتے ہیں۔

مفاد کا تقاضا نہ ہوتا تو چین میں تیانمن سکوائر میں قتل عام کی مخالفت اور مصر میں سیاسی مخالفیں کے خلاف فوجی حکومت کے ظلم پر خاموشی کیوں ہوتی۔ یا پاکستان میں جنرل ضیاء اور مشرف کی فوجی حکومت کا پہلے بائیکاٹ لیکن پھر ضرورت پڑنے پر انہیں اتحادی کیوں بنایا جاتا۔ یا پہلے ”مجاہدین“ کی پشت پناہی اور پھر انہیں دہشتگرد اور انتہاپسند قرار دے کر ان کے خلاف جنگ کیوں شروع کی جاتی؟

حقیقت یہ ہے قومی ریاستوں کے نظام میں مسلم امہ کا تصور محض ایک سراب ہے۔ فی زمانہ خارجہ پالیسی تشکیل دیتے وقت بنیادی عامل مفاد ہوتا ہے نہ کہ مذہب، اخلاقیات اور اصول۔

بھارت کی حمایت کیوں کی گئ؟

کشمیر میں بھارت کے حالیہ اقدامات کے بعد پاکستان نے مسلم دنیا سمیت کئی ممالک میں اپنے ایلچی بھیجے تاکہ انہیں اپنا ہمنوا بناسکے۔ مسلم دنیا میں صرف ترکی اور ایران نے کچھ حد تک پاکستان کی طرفداری کی باقی ممالک غیر جانبدار رہے یا انہوں نے کشمیر کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیا۔ ایسا کیوں ہوا؟

پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر اپنے مفادات کے مطابق اندرونی اور خارجہ پالیسیاں ترتیب دینا ہر ملک کا حق ہے تو اس بنیاد پہ عرب ممالک کی جانب سے انڈیا کے ساتھ تجارت اور دوستی کرنا ان کا بھی حق ہے۔

کہاجاتا ہے یمن کے مسئلے پر پاکستان کی طرف سے عرب ممالک کی مدد کے لیے فوج نہ بھیجے جانے پر وہ ناراض ہیں اس لیے انہوں نے بھارت کا ساتھ دیا۔ یہ بات صحیح نہیں اس لیے کہ بھارت نے بھی تو ان کی مدد کے لیے فوج نہیں بھیجی۔

بات سیدھی ہے۔ بھارت ایک بڑا ملک اور تجارتی منڈی ہے۔ اس سے سستی لیبر مہیا ہوسکتی ہے اور یہ دوسرے ملکوں سے امداد اور قرضوں کے بجائے تجارت چاہتا ہے تو پھر عرب ممالک اپنے تجارتی مفاد میں اس کا خیال تو رکھیں گے۔

ہندوستان سعودی عرب کا چوتھا بڑا تجارتی پارٹنر ہے اور ان کے باہمی تجارت کا حجم تقریباً 28 ارب ڈالر ہے۔ اس کے برعکس پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی تجارت کا حجم اس دوران محض 3 سے 4 ارب ڈالر ہے۔

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد نے پچھلے سال اپنے دورۂ بھارت میں ایسے ہی تو نہیں کہا تھا کہ اگلے دوسالوں میں انہیں سعودی عرب کی طرف سے ہندوستان میں 100 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کے امکانات نظر آرہے ہیں۔

پاکستان کیا کرے؟

ایسے مطالبے بھی ہو رہے ہیں کہ عربوں نے پاکستان پر بھارت کو ترجیح دے کر ہماری طرف سے کسی مناسب جوابی اقدام کو ضروری کردیا ہے مثلاً پاکستانی حکومت ایمیرٹس ایئرلاین کا بائیکاٹ کرے، حج کوٹہ کم کرے، ایران کے روحانی پیشوا کو اعلی سول ایوارڈ دے یا اسرائیل کو تسلیم کرے۔

پہلے دو راستے تو شاید غیر حکیمانہ اور پاکستان کے لیے نقصان دہ ہوں گے تاہم اخری دو پر عمل ہوسکتا ہے۔

پاکستان نے ہمیشہ فلسطین کے مسئلے پر عربوں کا ساتھ دیا ہے، اسرائیل کے ساتھ اب تک سفارتی تعلقات قائم نہیں کیے اور ایسا کرکے اسرائیل کو خواہ مخواہ انڈیا کا اتحادی بن جانے کی طرف دھکیلا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ فلسطین پر ہماری کشیدگی اور عربوں کے ساتھ اتحاد کی بنیادی وجہ اسلام کا رشتہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ اس رشتے کا عرب کشمیر میں اگر خیال نہیں رکھتے تو ہم کیوں رکھیں؟ کیوں نہ اسرائیل سے تعلقات قائم کریں؟

بات صرف ردعمل کی نہیں۔ ہمیں اب سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کرلینا چاہیے کہ جب ساری دنیا کے ممالک اپنے مفادات کی بنیاد پر دوسرے ملکوں کے ساتھ تعلقات رکھتے ہیں تو ہم اسرائیل کے ساتھ سفارتی روابط کیوں نہ رکھیں جس کے بعد وہ انڈیا کا اُس طرح پھر ساتھ بھی نہیں دے گا جیسا اب دیتا ہے۔

ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بہت زیادہ فریاد کرنے والے، ہر وقت امداد و خیرات کے منتظر، متلاشی الجیوب اور ہمیشہ قرضے مانگنے والے بندے کی معاشرے میں قدر ہوتی ہے نہ ایسے ملک کی دنیا میں۔

وقت آگیا ہے کہ ہم خود کو عالم اسلام کا ٹھیکیدار سمجھنا چھوڑ دیں اور اپنے بیرونی تعلقات میں خیالی امت کو نہیں بلکہ ملکی مفاد کو مقدم رکھیں۔

کیا پاکستان امہ کے تخیل سے نکل کر امداد اور قرضوں کے بجائے تجارت، سرمایہ کاری، باہمی مفاد اور قومی غیرت پر مشتمل خارجہ تعلقات کے لیے تیار ہے؟ کیا موقع نہیں آیا کہ پاکستان ہر ملک کے ساتھ اپنے درآمدی اور برآمدی تجارت کے نقصانات، فوائد اور امکانات کا فوری اور مکمل جائزہ لے اور ہر ملک کے ساتھ تعلق و تجارت کے لیے لائحۂ عمل بنالے اور اندرونی استحکام، امن وامان، سرمایہ کار دوست ماحول اور پالیسیوں کو اب ترجیحاتِ اولین بنایا جائے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).