وزیر اعظم عمران خان: ’دنیا کشمیر کو نظرانداز نہیں کر سکتی، ہم سب خطرے میں ہیں‘


پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ دنیا کشمیر کو نظر انداز نہیں کر سکتی اور ایسا ہوا تو ہم سب ایٹمی جنگ کے خطرے کی لپیٹ میں ہوں گے۔

امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز میں وزیر اعظم کی جانب سے لکھے گئے ایک مضمون میں انھوں نے مسئلہ کشمیر پر عالمی برادری کی توجہ مرکوز کرواتے ہوئے کہا ’اگر دنیا کشمیر اور اس کے عوام پر انڈین حملہ روکنے کے لیے کچھ نہیں کرتی تو پھر دو جوہری ہتھیاروں سے لیس ریاستیں براہِ راست فوجی محاذ آرائی کے قریب آ جائیں گی۔‘

امریکی اخبار میں لکھے گئے اپنے مضمون میں انھوں نے انڈیا کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ’گذشتہ برس اگست میں پاکستان کا وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد میری اولین ترجیحات میں سے ایک یہ تھی کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے لیے کام کیا جائے۔‘

پاکستان اور انڈیا کے مسائل کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ’ہماری مشکل تاریخ کے باوجود دونوں ممالک غربت، بے روزگاری اور موسمیاتی تبدیلی جیسے چیلنجوں کا مقابلہ کرتے ہیں، خاص طور پر ہمارے لاکھوں شہریوں کو گلیشیئر پگھلنے اور پانی کی قلت کا خطرہ ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

عمران خان: برصغیر میں ’ایٹمی جنگ کوئی نہیں جیتے گا‘

’پاکستان اور انڈیا اپنے مسائل خود حل کر سکتے ہیں‘

’ہارن مت بجائیں، اسلامی ممالک کا اتحاد سو رہا ہے‘

تعلقات میں بحالی اور مذاکرات کی دعوت

انھوں نے لکھا ’میں تجارت کے ذریعے اور کشمیر کے تنازعے کو حل کر کے، جو ہمارے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے میں سب سے اہم رکاوٹ ہے، انڈیا سے تعلقات کو معمول پر لانا چاہتا تھا۔‘

’26 جولائی 2018 کو انتخابات میں کامیابی کے بعد پاکستان سے اپنے پہلے خطاب میں، میں نے کہا تھا کہ ہم انڈیا کے ساتھ امن چاہتے ہیں اور اگر اس نے ایک قدم آگے بڑھایا تو ہم دو قدم بڑھائیں گے۔‘

عمران خان

انڈیا کی جانب سے دوستی کی خواہش پر ردعمل پر بات کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ’ستمبر 2018 میں اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات کا اہتمام کیا گیا تھا لیکن انڈیا نے اس ملاقات کو منسوخ کر دیا۔

عمران خان لکھتے ہیں ’رواں ماہ ستمبر میں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنے تین خطوط میں سے پہلا خط بھی لکھا تھا جس میں بات چیت اور امن کا کہا گیا تھا۔‘

انڈیا کا ردعمل

وزیر اعظم عمران خان نے انڈیا کی جانب سے امن اور دوطرفہ تعلقات پر روا رکھے جانے والے رویے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ’بدقسمتی سے انڈیا نے امن کے لیے بات چیت شروع کرنے کی میری ساری کوششوں کو رد کر دیا۔‘

’شروع میں ہمارا خیال تھا کہ مودی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی سخت گیر پوزیشن اور پاکستان کے خلاف ان کی بیان بازی کا مقصد مئی میں ہونے والے انڈین انتخابات ہیں جن میں انڈین ووٹروں میں ایک قوم پرست جنون کو جنم دینا تھا۔‘

انڈیا کی جانب سے پلوامہ حملے کا الزام پاکستان پر لگانے کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اپنے مضمون میں لکھا ’14 فروری کو جب ایک نوجوان کشمیری نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انڈین فوجیوں کے خلاف خود کش حملہ کیا۔ انڈین حکومت نے فوری طور پر پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا۔‘

’ہم نے اس حملے کے ثبوت مانگے لیکن مودی نے سرحد پار سے انڈین فضائیہ کے لڑاکا طیارے پاکستان بھیجے۔ ہماری فضائیہ نے ایک انڈین طیارے کو مار گرایا اور پائلٹ کو پکڑ لیا۔

مزید پڑھیے

عمران خان: انڈیا سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں

کشمیر پر انڈیا کے فیصلے سے وفاقی توازن بگڑنے کا خدشہ

’پاکستان 370 کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا تھا‘

’ہم نے جوابی حملہ (صرف) یہ اشارہ دینے کے لیے کیا کہ ہم اپنا دفاع کرسکتے ہیں لیکن کسی ایسے ہدف پر حملہ نہ کرنے کا انتخاب کیا جس سے جانی نقصان ہو۔ میں نے شعوری طور پر یہ فیصلہ کیا تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ پاکستان کا دو ایٹمی ریاستوں کے مابین تنازعے کو بڑھاوا دینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ ہم نے بغیر کسی شرط کے قید انڈین پائلٹ کو واپس کر دیا۔‘

انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے دوبارہ انتخابات جیت کر اقتدار میں آنے اور اس سے جڑی توقعات پر بات کرتے ہوئے عمران خان نے لکھا ’23 مئی کو نریندی مودی کے دوبارہ انتخابات جیتنے پر میں نے انھیں مبارکباد دی اور امید کی کہ ہم جنوبی ایشیا میں امن، ترقی اور خوشحالی’ کے لیے کام کر سکتے ہیں۔

’جون میں، میں نے مودی کو ایک اور خط بھیجا جس میں امن کی جانب کام کرنے کے لیے مذاکرات کی پیش کش کی۔ ایک بار پھر، انڈیا نے جواب نہ دینے کا انتخاب کیا۔‘

عمران خان کے مطابق انھیں یہ پتہ چلا ’جب پاکستان امن کے لیے کوشش کر رہا تھا، انڈیا اس وقت فنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کے لیے لابنگ کر رہا تھا، جس سے سخت معاشی پابندیاں عائد ہوسکتی ہیں اور ہمیں دیوالیہ پن کی طرف دھکیلا جا سکتا ہے۔‘

آر ایس ایس کے نظریات

کشمیر

انڈیا میں برسر اقتدار جماعت بی جے پی کے بارے میں عمران خان لکھتے ہیں ’ہم نہ صرف ایک دشمن مزاج حکومت کا سامنا کر رہے ہیں بلکہ ہمیں ایک نئے انڈیا کا سامنا ہے جس کے رہنما اور برسرِاقتدار جماعت ہندو قوم پرستی کے گڑھ آر ایس ایس کی پیداوار ہیں۔

عمران خان نے لکھا ’انھیں امید تھی کہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد نریندر مودی انڈین ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے اپنے پرانے طریقوں کو پس پشت ڈال دیں گے، جب ان کے وزارت اعلیٰ کے دور میں 2002 میں گجرات میں بسنے والے مسلمانوں کا منظم طور پر قتلِ عام کیا گیا تھا جس کے سبب مودی کو امریکہ سمیت عالمی سطح پر بدنامی کا سامنا کرنا پڑا۔

’خود امریکہ نے بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ کے تحت مودی کو امریکہ دورے کے لیے ویزا دینے سے انکار کردیا تھا۔‘

انڈیا کا کشمیر کی خصوصی و آئینی حیثیت ختم کرنا

عمران خان لکھتے ہیں ’اگست میں اپنے انتہائی سفاکانہ اور گھناؤنے اقدام میں نریندر مودی کی حکومت نے انڈین آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی کے ذریعے اپنے زیر انتظام کشمیر کی آئینی و قانونی حیثیت کو تبدیل کر ڈالا۔

’جہاں یہ اقدام خود انڈین آئین کے تحت غیر قانونی ہے وہیں اس سے بھی زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کشمیر سے متعلق قراردادوں اور انڈیا اور پاکستان کے درمیان شملہ معاہدے کےعلاوہ ان معاہدوں کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ نریندر مودی کے نئے انڈیا نے کشمیر میں فوجی کرفیو نافذ کر کے، اس کی آبادی کو گھروں میں قید کر کے اور ان کا فون، انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن کنکشن کاٹ کر، ان کے پیاروں سے رابطے منقطع کر دیے۔‘

عمران خان نے لکھا ہے کہ اس محاصرے کے بعد انڈین فوج نے چھاپوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس میں ہزاروں کشمیریوں کو گرفتار کر کے انڈیا بھر کی جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم کے خیال میں جب کرفیو اٹھایا جائے گا تو کشمیر میں خونریزی کا خدشہ ہے۔ انھوں نے یہ دعویٰ کیا کہ ’انڈین فورسز کرفیو توڑ کر باہر نکلنے والے کشمیریوں کو گولی مار کر ہلاک کرر ہی ہیں۔‘

عمران خان نے اپنے مضمون میں اس بات پر زور دیا ہے کہ اگر دنیا نے کشمیر اور اس کے عوام پر انڈین حملے روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا تو پوری دنیا پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ اس سے مسلح دو ایٹمی ریاستیں براہ راست فوجی محاذ آرائی کے قریب ہو جائیں گی۔

عمران خان نے کہا ’انڈیا کے وزیر دفاع نے پاکستان کو سرے عام جوہری حملہ کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ جوہری ہتھیاروں سے متعلق انڈیا کی ‘پہلے استعمال نہ کرنے’ کی پالیسی ‘حالات پر منحصر ہے۔’

پاکستانی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ پاکستان طویل عرصے سے انڈیا کی جوہری ہتھیاروں کے ‘پہلے استعمال نہ کرنے’ کے دعوؤں کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھتا ہے۔

عمران خان کے مطابق پاکستان اور انڈیا کو مسئلہ کشمیر، مختلف سٹریٹجک امور اور تجارت پر بات چیت شروع کرنے کے لیے دوسرے کے نقصان سے اپنے فائدے کی سوچ سے باہر نکلنا ہو گا۔

انھوں نے تجویز پیش کی کہ مسئلہ کشمیر پر بات چیت میں تمام ’سٹیک ہولڈرز‘ خصوصاً کشمیریوں کو شامل کرنا ہو گا۔

’ہم سلامتی کونسل کی قراردادوں اور انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی جانب سے کشمیریوں سے حق خود ارادیت کے احترام کے وعدے کی روشنی میں متعدد آپشنز تیار کر چکے ہیں جن پر اس ضمن میں کام ہو سکتا ہے۔‘

عمران خان نے امید ظاہر کی ہے کہ مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے سٹیک ہولڈرز کشمیری عوام کی دہائیوں کی تکالیف کے خاتمے اور خطے میں مستحکم اور انصاف پسند امن کی طرف بڑھنے کے ایک قابل عمل حل پر پہنچ سکتے ہیں۔

مذاکرات کے لیے شرط

عمران خان نے مذاکرات کے لیے یہ شرط رکھی کہ بات چیت تب ہی شروع ہوسکتی ہے جب انڈیا کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو بدلنے کے اپنے غیر قانونی اقدام پر نظر ثانی کرے، کشمیر میں کرفیو اور لاک ڈاؤن کو ختم کرے اور اپنی فوج کو کشمیر سے نکال کر بیرکوں میں واپس بھیج دے۔

ان کے مطابق یہ بہت ضروری ہے کہ عالمی برادری اس معاملے میں اپنے تجارتی اور کاروباری فوائد سے بالاتر ہو کر سوچے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp