بھارتی انتہا پسندوں کے ہاتھوں کردار کشی پر اروندھتی رائے کا وضاحتی بیان


مترجم: ڈاکٹر ارجمند آرا، یونیورسٹی آف دہلی۔

2011 کی ایک وِڈیو کلپ سوشل میڈیا پر ابھرنے کے بعد، جس میں معروف بھارتی مصنف ارندھتی رائے نے ہندوستان کے ذریعے اپنے ہی لوگوں کے خلاف فوجوں کے استعمال پر نکتہ چینی کی تھی، ان کے خلاف ایک ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اس پر ارندھتی رائے نے درج ذیل وضاحتی بیان جاری کیا ہے (ڈھاکہ ٹریبیون میں 29 اگست کو شائع ہونے والے متن پر مبنی) :

ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تناؤ، اب جب کہ خطرناک صورتِ حال اختیار کرتا جا رہا ہے، ایک نو سال پرانی وِڈیو کلپ سوشل میڈیا پر اچانک ابھر آئی ہے جس میں اپنے ہی لوگوں کے خلاف ہندوستان کی ختم نہ ہونے والی جنگوں کے موضوع پر بات کرتے ہوئے میں یہ کہتی ہوئی نظر آ رہی ہوں کہ پاکستان نے ’اپنے‘ لوگوں کے خلاف فوج کا ویسا استعمال نہیں کیا ہے جیسا کہ ہندوستان کر رہا ہے۔

ہم میں سے ہر کوئی، اپنی زندگی کے کسی موڑ پر، انجانے میں کوئی ایسی بات کہہ سکتا ہے جس پر غوروفکر نہ کیا گیا ہو، یا جو احمقانہ ہو۔ یہ چھوٹی سی وِڈیو کلپ نہ تو میرے خیالات کی ترجمانی کرتی ہے، اور نہ ان تحریروں کی جو گذشتہ برسوں میں میرے قلم سے نکلی ہیں۔ میں ایک مصنف ہوں، اور لکھ کر جو کچھ کہتی ہوں وہ آزادانہ گفتگو میں نکلے کسی بے ساختہ جملے سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے باوجود یہ معاملہ سنگین نتائج کا حامل ہوا ہے اور میں اس کلپ کی وجہ سے پھیلنے والے وقتی ابہام کے لیے معذرت خواہ ہوں۔

بلوچستان میں پاکستانی حکومت جو کچھ کر رہی ہے، اور بنگلہ دیش میں پاکستانی افواج نے جو کیا، ان کے تعلق سے میرے نظریات کبھی ابہام کا شکار نہیں رہے، اورمیں نے انھیں ہمیشہ اپنی تحریروں کا حصہ بنایا ہے۔ بات کو مختصر کرتے ہوئے، میں یہاں دو چھوٹی مثالیں پیش کر رہی ہوں :

میرے ناول ”دی منسٹری آف اٹموسٹ ہیپی نیس“ (بے پناہ شادمانی کی مملکت) میں، جو 2017 میں شائع ہوا، ایک مرکزی کردار بپلب داس گپتا عرف گارسن ہوبارٹ جو ایک بھارتی انٹیلیجنس افسر ہے اور کشمیر میں تعینات رہا ہے، ایک جگہ کہتا ہے : ”یہ سچ ہے کہ ہم نے کشمیر میں بعض خوفناک اقدام کیے — کررہے ہیں — لیکن میرا مطلب ہے کہ پاکستانی آرمی نے مشرقی پاکستان میں جو کچھ کیا— وہ نسل کشی کا بالکل واضح معاملہ تھا۔ اوپن اینڈ شٹ۔ جب انڈین آرمی نے بنگلہ دیش کو آزاد کرایا تو ہمارے پیارے کشمیریوں نے اسے ’سقوطِ ڈھاکہ‘ کہا —آج بھی کہتے ہیں۔ دوسرے لوگوں کے درد کے معاملے یہ لوگ حسّاس نہیں۔ لیکن، پھر کون ہے جو حساس ہے؟ بلوچ، جنھیں پاکستان پیل رہا ہے، کشمیریوں کی بالکل پروا نہیں کرتے۔ بنگلہ دیشی، جنھیں ہم نے آزاد کرایا، اب ہندوؤں کو شکار کر رہے ہیں۔ ہمارے پیارے کمیونسٹ اسٹالن کے گولاگ کو ’انقلاب کا ناگزیر حصہ‘ قرار دیتے ہیں۔ امریکی آج کل ویتنام کو حقوقِ انسانی پر لکچر دے رہے ہیں۔ ہمارے سامنے جو کچھ ہے وہ نسلوں کا مسئلہ ہے۔ ہم میں کوئی بھی مستثنیٰ نہیں۔“

اپنے مضمون ”واکنگ وِد دی کامریڈس“ میں جو پہلی بار 2010 میں اور دوبارہ جون 2019 میں شائع ہوا، میں نے لکھا تھا: ”جب چارو مزومدار نے یہ مشہورِ زمانہ بات کہی تھی کہ ’چین کا چیئرمین ہمارا چئیرمین ہے، اور چین کا راستہ ہمارا راستہ ہے‘ تو وہ اس کو بڑھا کر ایسے نکتے پر لانے کو تیار تھے جس پر نکسل وادی بھی خاموش رہے، جب کہ جنرل یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں نسل کشی کا ارتکاب کیا، کیوں کہ اس وقت چین پاکستان کا اتّحادی تھا۔ کمبوڈیا میں کمیر روج اور اس کی قتل گاہوں کے تعلق سے خاموشی چھائی رہی۔ چین اور روس کے انقلابات کے دوران ہونے والی فحش زیادتیوں پر بھی سناٹا تھا۔ تبت پر بھی سناٹا۔ “

کشمیر میں اب جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر میرے خیالات کے سبب یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ ہندو قوم پرست اس ہیجان خیز نئے / پرانے دروغ کو ہوا دے کر لوگوں کو مشتعل کرنے کے لیے دوڑ پڑے ہیں اور اپنے خیال میں انھوں نے بنگلہ دیش میں نسل کشی اور پاکستان میں پاکستانی افواج کے کارناموں سے میرے مبینہ انکار کو کھود کر ڈھونڈ نکالا ہے۔ کوئی شخص اگر میری تحریروں سے معمولی سا بھی واقف ہے، وہ ان کے خیال کی تائید ایک لمحے کے لیے بھی نہیں کرے گا۔

میں یہ نہیں مانتی کہ ہندوستان، پاکستان یا بنگلہ دیش کی حکومتوں میں سے کوئی بھی، اخلاقی اعتبار سے ایک دوسرے پر سبقت رکھتی ہے۔ ہندوستان میں اس وقت خالص فاشزم کی عمارت کھڑی کی جا رہی ہے۔ اس کے خلاف جو بھی مزاحمت کرے گا اس کے لیے پورا امکان ہے کہ اس کی کردار کشی کی جائے گی، ٹرول کیا جائے گا، جیل بھیجا جائے گا، یا اسے پیٹا جائے گا۔ لیکن اس کے خلاف مزاحمت تو ہوگی ہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).