امریکہ پاکستانی جمہوریت کو کس نظر سے دیکھ رہا ہے؟


ڈان اخبار نے گزشتہ روز ایک خبر شائع کی کہ امریکا نے اپنی سرکاری رپورٹ میں کہا ہے کہ ”آرمی چیف غیر سیاسی اور پروفیشنل ہیں،“ میرے لیے اس خبر سے زیادہ رپورٹ کو پڑھنا ضروری تھا کیونکہ خبر بسا اوقات ایڈیٹوریل پالیسی کا شکار ہو جاتی ہے۔ رپورٹ پڑھنے کے بعد انکشاف ہوا کہ امریکا پاکستان میں پاکستان تحریک انصاف کو اقتدار ملنے اور جمہوری طاقت پر بالکل واضح پوزیشن رکھتا ہے اور وہ موجودہ جمہوری حکومت کو محض علامتی تصور کرتا ہے۔ رپورٹ کے مندرجات میں بار بار اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

پاکستان کے جمہوری اداروں بالخصوص پارلیمنٹ، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے امریکا کی یہ رپورٹ تشویش ناک ہے۔

امریکا میں 23 اگست کو شائع ہونے والی اس رپورٹ کو کانگریشنل ریسرچ سروس نے مرتب کیا ہے۔ امریکا نے 1914ء میں کانگریشنل ریسرچ سروس نامی ادارہ قائم کیا یہ ادارہ دراصل کانگرس میں قانون ساز مباحثوں سے متعلق معاونت کرتا ہے یا یوں سمجھ لیجیے کہ ادارے کے تحت شائع ہونے والے رپورٹس سرکاری سطح پر امریکا کے سیاسی نقطہ نظر کی وضاحت ہوتی ہیں۔ حالیہ رپورٹ ”پاکستان ڈومیسٹیک پولیٹیکل سیٹنگ“ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔ یہ رپورٹ بہت جامع اور بالکل واضح ہے جو پاکستان کے موجودہ جمہوری نظام کا نقشہ بتا رہی ہے۔

امریکا کا ماننا ہے کہ پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت تکونی طاقتوں کے درمیان کشمکش سے دو چار رہی ہے جس میں صدر پاکستان، وزیر اعظم پاکستان اور آرمی چیفس کو شامل کیا گیا ہے۔ ماضی میں فوجی مداخلت کے باعث وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئی، بے نظیر بھٹو کو جلا وطن کیا گیا اور تین بار وزیر اعظم کا منصب رکھنے والے نواز شریف کو ایک بار بھی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ اکہتر سالوں میں تین جمہوری حکومتوں کا خاتمہ کیا گیا تاہم یہ خاتمہ ضمنی صدارتی احکامات پر ہوا۔ پاکستان کے ماضی کا نقشہ بیان کرنے کے فوراً بعد رپورٹ میں گزشتہ برس کے انتخابات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے سیکیورٹی اداروں نے الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے دوران نواز شریف کو منظر سے غائب کیا اور اقتدار سے نکال کر مسلم لیگ نواز کو کم زور کیا گیا اور 2018 کے انتخابات میں سیاست پر دو دہائیوں سے زائد دو خاندانی جماعتوں کے غلبے کو ڈرامائی انداز میں ختم کر دیا گیا اور عمران خان کو طاقت ور کرنے کے لیے فوج و عدلیہ کے درمیان گٹھ جوڑ ہوا جس کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف نے انتخابات میں زیادہ نشستیں حاصل کیں۔

اس رپورٹ میں عمران خان کی حکومت کو امریکا نے ”ڈرامائی طور پر بننے والی جمہوری حکومت“ گردانا ہے اور اس کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی کے دور اور نواز شریف کے حالیہ حکومتی دور کا بھی تجزیہ کیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے فوجی ادوار کے متعدد فیصلوں کو پارلیمنٹ کے ذریعے سے منسوخ کردیا جس میں ایگزیکٹو اختیارات کی وزیر اعظم کو منتقلی انتہائی اہمیت کی حامل تھی۔ جبکہ نواز شریف کو اقتدار سے نکالنے کے فیصلے کو ”نیم مارشل لاء“ سے تشبیہ دی گئی ہے اور عمران خان بغیر کسی تجربہ کے نیا پاکستان کے نعرے کے تحت وزیر اعظم پاکستان بن گئے۔

وزیر اعظم عمران خان نے کرپشن کے خاتمے اور ایسی فلاحی ریاست جو معیاری تعلیم، صحت کی سہولیات فراہم کرے گی کا نعرہ بلند کر کے بہت سے نوجوان، شہری اور مڈل کلاس ووٹرز کو متحرک کیا۔ پی ٹی آئی حکومت کے فوج کے ساتھ مراسم اچھے ہیں اور پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کا سیکیورٹی اور خارجہ پالیسیوں پر غالب اثر و رسوخ برقرار ہے۔

بطور وزیر اعظم جس عمران خان کے ساتھ صدر ٹرمپ نے گزشتہ مہینے وائیٹ ہاؤس میں ملاقات کی تھی اور پاکستان کے دفتر خارجہ نے اسے کامیاب ترین دورہ امریکا قرار دیا تھا اب اس رپورٹ میں عمران خان کو ”پلے بوائے“ کہا جا رہا ہے۔ امریکی رپورٹ میں واضح کر دیا گیا ہے کہ حکومت پاکستان کے اہم ترین عہدوں میں چیف آف آرمی سٹاف، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی اور چیف جسٹس پاکستان بھی شامل ہیں۔ حالانکہ ان تینوں عہدوں کا حکومتی معاملات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی حکومت کے جمہوری فیصلہ سازی کے عمل میں ان کی کوئی قانونی حیثیت ہے۔

یہ رپورٹ یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ ن لیگ کو دائیں بازو کی سیاسی جماعت کہا گیا ہے اور لیگ کو مذہبی بنیاد پرستوں کے مرکز سے تشبیہ دی ہے۔ حالیہ انتخابات کا تجزیہ کرتے ہوئے امریکا کہتا ہے کہ پانچ بنیاد پرست سیاسی جماعتوں کے اتحاد پر مبنی ایم ایم اے میں شامل جمعیت علماء اسلام کی آئیڈیالوجی افغان طالبان اور پاکستانی شدت پسند گروپس کے قریب ہے۔ کانگریشنل ریسرچ ادارے کی جانب سے شائع ہونے والی اس رپورٹ پر حکومت کی خاموشی یا پھر میڈیائی حلقوں میں اس کی گونج نہ ہونا حیرت ناک ہے۔ اب جب امریکی رپورٹ میں ہی واضح کر دیا گیا ہے کہ پاکستان کو جمہوری حکومت کے بجائے غیر منتخب شدہ افراد چلا رہے ہیں تو پھر ملک کے داخلی معاملات اور خارجہ معاملات کے سلجھانے کے لیے امریکا جمہوری حکومت کے ساتھ کیسے معاملات سر انجام دے سکتا ہے؟

اس رپورٹ کو دبانے سے یا چھپانے سے یا اس پر تبصرہ کرنے پر پاپندی عائد کرنے کی بجائے اس کا موثر جواب آنا چاہیے وگرنہ پاکستان کی جمہوریت کو مشکوک تصور کرانے کے لیے اس رپورٹ کی بنیاد پر بین الاقوامی سطح پر پراپیگنڈہ ہوسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).