کشمیریوں سے اظہار یکجہتی آور کتنا مفید؟


جمعے کو پاکستان میں کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ‘کشمیر آور’ منایا گیا ہے۔ کشمیر آور کے سلسلے میں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف شہروں میں دن بارہ بجے کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی کے لیے سرکاری و نجی ملازمین، سکول و کالج اور یونیورسٹی کے طلبا و طالبات مرکزی شاہراؤں پر جمع ہوئے۔

وزیراعظم ہاؤس میں منعقدہ تقریب میں عمران خان اور ان کی کابینہ کے اراکین بھی موجود تھے۔ وزیراعظم نے شرکا سے خطاب میں کہا کہ ‘آج تمام پاکستانی چاہے وہ طلبا ہیں یا ملازمین یا کاروباری حضرات وہ کشمیر کے ساتھ کھڑے ہیں۔’

ایسی سرکاری تقربیات کتنی مفید ہوتی ہیں اور ان سے خود کشمیریوں کو کتنا فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ ان سوالات پر جہاں سوشل میڈیا پر بحث ہو رہی ہے وہیں ماہرین بین الاقوامی تعلقات اور اپوزیشن جماعتیں منقسم نظر آتی ہیں۔

اظہار یکجہتی کتنی مفید؟

سرکاری سطح پر ہونے والی ان تقریبات پر سوشل میڈیا پر مخلتف آرا سامنے آرہی ہیں۔ وکیل ریما عمر نے لکھا ہے کہ میڈیا ریگولیٹر پیمرا ٹی وی چینلز کو ہدایات جاری کرتا ہے کہ کشمیر مسئلے پر کوریج کیسے کرنی ہے جبکہ وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری انسانی حقوق کی تنظیمیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لینے پر ڈکٹیٹ کررہی ہیں جبکہ حکومت اظہار یکجہتی جیسی ایک رضاکارانہ سرگرمی کا اہتمام خود کررہی ہے۔ اس طرح کی انجنئیرڈ اظہار یک جہتی کا کشیمریوں کا کیا فائدہ پہچ سکتا ہے؟

کشمیر آور

وفاقی وزیر شیریں مزاری نے اپنے جوابی ٹویٹ میں لکھا کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کی خلاف ورزیوں کی طرف توجہ دلانا کیسی ڈکٹیشن ہے؟

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انسٹیویٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کی سوشل سائنسز کی ڈاکٹر فائزہ مشتاق نے کہا کہ ریاست کی طرف سے ایسے مظاہرے تھوڑی عجیب چیز ہے۔ جمہوری حکومتیں عام طور پر یہ نہیں کرتیں، یہ شہری خود سے رضاکارانہ طور پر کریں تو پھر اس کا اثر ہوتا ہے۔

پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے ڈاکٹر رشید احمد خان کا کہنا ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان میں سب کا اتفاق رائے ہے (اس وجہ سے) سرکاری طور پر ایسی تقریبات سے بین الاقوامی سطح پر بہتر تشہیر ہو جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر سے یکجہتی کے لیے پاکستان میں ریلیاں

’اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے، ہماری فوج تیار ہے‘

کشمیر کے اجڑے آشیانے

ڈاکٹر فائزہ مشتاق کہتی ہیں کہ حکومت خود تو احتجاج کررہی ہے لیکن دوسری طرف آزادی اظہار اور دیگر آئینی حقوق کے حصول کے لیے یہ حق اپوزیشن اور عوام کو حاصل نہیں ہے۔

’میرے خیال میں اس احتجاج پر کچھ زیادہ سوچا نہیں گیا ہے کیونکہ ایسی سرکاری تقریبات کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔‘

وزیر اعظم ہاؤس

احتجاج یا سوشل انجنئیرنگ

ڈاکٹر فائزہ کا کہنا ہے کہ سرکاری سطح پر احتجاج کسی صورت ’جینون پروٹسٹ‘ نہیں کہلایا جا سکتا ہے۔ ایسی تقریبات کو سوشل انجنیئرنگ قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے احتجاج کے اثرات مختصر دورانیے کے لیے ہوتے ہیں، ان کا دیرپا فائدہ نہیں ہوتا۔

ڈاکٹر رشید کا کہنا ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر لوگوں کی رائے میں بڑا فرق آیا ہے۔ لوگ یہی چاہتے ہیں کہ اس مسئلے کو حل ہونا چایئے نہ کہ یہ سیاست کی نظرہو جائے۔ چونکہ ہر حکومت پر کشمیر کے مسئلے پر بہت دباؤ ہوتا ہے تو پھر یہ عوامی دباؤ کوئی حکومت اپوزیشن کو ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کرنے دیتی۔ ’ایسی تقریبات کا مقصد عوامی غضب سے بچنا ہوتا ہے۔‘

حکومت کیا کرسکتی ہے؟

ڈاکٹر فائزہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں عراق جنگ کے بعد سرکاری سطح پر یوم القدس اور 1989 میں کشمیر میں نئی تحریک شروع ہونے کے بعد کشمیر ڈے ہر سال منایا جاتا ہے لیکن اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے۔

’حکومت کو اپنی سفارتی کوششیں تیز کرنا ہونگی۔ احتجاج اور یکجہتی تو اپوزیشن اور عوام کا کام ہے حکومت دیگر عالمی سطح پر اس مسئلے کے لیے اقدامات اٹھائے۔‘

ڈاکٹر رشید کا کہنا ہے کہ اس وقت بظاہر حکومت کے پاس کوئی آپشن بھی نہیں ہے۔ کشمیر میں جاری تحریک کشمیریوں کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اس تحریک کی ہر سطح پر سفارتی اور اخلاقی حمایت کے راستے تلاش کرنے ہونگے۔

’اپوزیشن کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہوگا اور دیگر جماعتوں کو بھی احتجاج کا حق دینا چائیے۔‘

دفتر خارجہ

اپوزیشن اور مذہبی جماعتیں کہاں کھڑی ہے؟

گذشتہ ہفتے گلگلت بلتستان میں عوامی رابطہ مہم کے دوران بلاول بھٹو نے کہا کہ کشمیر کے مسئلے پر ابھی تک حکومتی اقدامات ناکافی ہیں۔ انھوں نے یہ تجویز دی کہ حکومت کو انڈیا کے خلاف سفارتی محاذ پر زیادہ تندہی دکھانا ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میرے نانا اور پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ وہ کشمیر پر نیند میں بھی غلطی نہیں کرسکتے اور کشمیر کے لیے ہزار سال بھی لڑنا پڑے تو لڑیں گے۔‘

ماضی میں جماعت اسلامی کشمیر مسئلے پر خاصی سرگرم دکھائی دیتی تھی لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ تمام صورتحال کو ایک فاصلے سے دیکھ رہی ہے۔ تاہم جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے ٹویٹر پر اپنی جماعت کی سرگرمیوں سے متعلق ہونے والے جلسوں اور ملاقاتوں کی تفصیلات شیئر کیں ہیں۔ انھوں نے موقف اختیار کیا کہ احتجاج اپوزیشن اور عوام کرتے ہیں، حکومت کا کام احتجاج نہیں عملی اقدامات کرنا ہوتے ہیں۔

جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے چند دن قبل پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں اس وقت انسانی حقوق بری طرح پامال ہو رہے ہیں، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاموشی سوالیہ نشان ہے، اور ان کو اس پر اپنی پوزیشن واضح کرنی ہوگی۔ انھوں نے یہ دعوی بھی کیا کہ حکمران کشمیرکوبیچ چکے ہیں ، عوام کوسچ بتائیں، کشمیریوں کے ساتھ نمائشی قسم کی خیرخواہی ظاہرکی جارہی ہے۔‘

بلاول بھٹو نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ایسا وقت ہے کہ جب کشمیر پر ہم آہنگی کی ضرورت ہے لیکن حکومت اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف مقدمات بنانے اور انھیں گرفتار کرنے کی فکر میں ہے۔ انھوں نے مریم نواز کی بغیر کسی سزا کے گرفتاری کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور یہ خدشہ ظاہر کیا کہ ان کے خلاف بھی کچھ نہ کچھ ہو سکتا ہے۔

سراج الحق کا مطالبہ ہے کہ ’حکومت شملہ معاہدے کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان کرے اور ایل او سی پر لگائی گئی ’غیرقانونی‘ باڑ کو ختم کیا جائے۔

بلاول بھٹو نے عمران خان کی حکومت کی طرف سے سفارتی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ انڈین وزیر اعظم کو کسی صورت ’لجیٹیمیسی‘ نہیں دینی چائیے۔ ان کے ظالمانہ اقدامات پر عالمی سطح پر مہم چلانے کی ضرورت ہے۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32500 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp