نظریاتی نعرے میں سوال کی سرگوشی


ٹھیک 80 برس پہلے اواخر اگست کے یہی دن تھے۔ نازی جرمنی کا وزیر خارجہ ربن ٹراپ اشتراکی روس کے دارالحکومت ماسکو پہنچا۔ جہاں اس نے سوویت وزیر خارجہ مولوٹوف کے ساتھ اس معاہدے پر دستخط کیے کہ جرمنی اور سوویت یونین ایک دوسرے کے خلاف جنگ نہیں کریں گے۔ یہ معاہدہ نظریاتی سوچ رکھنے والوں کے لئے حیران کن تھا۔ ہٹلر نے اپنی سیاست کی بنیاد ہی اشتراکیت دشمنی پر رکھی تھی۔ دوسری طرف سوویت یونین فاشزم کا کٹر دشمن تھا۔

فریقین 1935 سے اسپین کی خانہ جنگی میں بالواسطہ طور ایک دوسرے سے نبرد آزما تھے۔ ربن ٹراپ اور مولوٹوف معاہدے سے چند روز قبل تک اسٹالن برطانیہ اور فرانس کے ساتھ اتحاد کے لئے مذاکرات کر رہا تھا۔ اور پھر چشم فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ جرمنی سمیت دنیا بھر میں فسطائیت کے پرجوش حامیوں نے اس اجتماع الضدین معاہدے کی حمایت میں راتوں رات دلائل گھڑ لئے۔ مثلاً سرمایہ دار جمہوریت سے فیصلہ کن جنگ کے لئے مشرقی سرحد پر روس کا غیر جانبدار ہونا ضروری ہے۔

جنگ کے دوران روس سے ضروری خام مال حاصل کیا جا سکے گا۔ یورپ کے ترقی یافتہ ملکوں پر قبضہ کرنے کے بعد سوویت یونین جیسے اشتراکی استبداد تلے سسکتے پسماندہ ملک کو آسانی سے روندا جا سکے گا۔ دوسری طرف اشتراکیت کے حامی اسٹالن کی فراست کے گن گا رہے تھے۔ نمونہ کلام یہ کہ جرمنی اور جمہوری یورپ کی لڑائی سرمایہ دار قوتوں کا تصادم ہے۔ سامراج کے یہ دو مراکز ایک دوسرے سے لڑ کر کمزور ہوں گے تو اشتراکی انقلاب کی منزل قریب آ جائے گی۔

نیز یہ کہ جنگ سرمایہ دار قوتوں کا ہتھیار ہے، اشتراکیت تو امن کی علمبردار ہے۔ نیز یہ کہ یورپ اور امریکہ کی خواہش تھی کہ جرمنی کا طوفان بلاخیز اشتراکیت کے قلعے سوویت یونین سے جا ٹکرائے مگر کامریڈ اسٹالن نے کمال حکمت سے امن کی ضمانت بھی لے لی ہے اور اشتراکی تجربے کو مضبوط کرنے لئے ضروری مہلت بھی حاصل کر لی۔ یورپ، چین، ہندوستان اور لاطینی امریکہ سمیت دنیا بھر میں پھیلے ہوئے سوشلسٹ کارکن اور فسطائیت کے حامی اپنی اپنی دف میں کھڑے جیت کا ڈھول بجاتے رہے۔ کسی کو خبر نہیں تھی کہ ربن ٹراپ۔ مولوٹوف معاہدے کے حقیقی مقاصد ایک خفیہ پروٹوکول میں درج تھے جس میں جرمنی اور روس نے طے کیا تھا کہ جنگ کے بعد کونسے ممالک پر سوویت یونین کا قبضہ ہو گا اور کن علاقوں پر نازی جرمنی کا پھریرا لہرائے گا۔

اس معاہدے کے ٹھیک ایک ہفتہ بعد یکم ستمبر 1939 کو جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کر دیا۔ 17 ستمبر کو روس نے بھی پولینڈ میں اپنی فوج داخل کر دی۔ ساڑھے تین کروڑ انسانوں کا یہ ملک کیک کے ٹکڑوں کی طرح باہم بانٹ لیا گیا۔ خفیہ معاہدے کے عین مطابق روس نے ایسٹونیا، لیٹویا اور فن لینڈ پر قبضہ کر لیا۔ نازی جرمنی اپنی دھن میں بیلجئم، فرانس، ناروے، آسٹریا اور ہالینڈ جیسے ملکوں کو روندتا ہوا مغربی یورپ کے ترقی یافتہ ممالک پر قابض ہو گیا۔

قیامت کی اس گھڑی میں کسے پروا تھی کہ پولینڈ کے 22000 نہتے قیدی بغیر آواز نکالے قتل ہو گئے ہیں۔ اپریل 1940 میں سٹالن کے حکم پر سوویت یونین کے خفیہ ادارے نے باقاعدہ فہرستیں تیار کر کے پولینڈ کے تمام فوجی افسروں، انتظامی اہلکاروں، دانشوروں اور اساتذہ کو گولی مار کے میلوں پر پھیلی ہوئی اجتماعی قبروں میں دبا دیا تھا۔ جنگ کے دوران روس اور جرمنی ایک دوسرے پر اس جرم کا الزام دھرتے رہے لیکن 1989 میں گورباچوف نے بالآخر اس قتل عام کا اعتراف کر لیا۔

( اس المیے کے بارے میں Katyn کے نام سے بنائی گئی فلم اگر مل سکے تو ضرور دیکھیے گا۔ ) اور پھر 1942 آ گیا۔ 22 مئی کو ہٹلر نے سوویت یونین پر اچانک حملہ کر دیا اور ان گنت شہروں، قصبوں اور بستیوں کو پامال کرتا اکتوبر 1942 میں ماسکو کے نواح تک جا پہنچا۔ اس افتاد کا مقابلہ کرنے کے لئے سوویت یونین جرمنی کی حریف اتحادی طاقتوں سے جا ملا۔ سوویت یونین پر حملہ ہونے تک عالمی جنگ شروع ہوئے تین برس گزر چکے تھے لیکن دنیا بھر میں اشتراکیت کے حامی اس جنگ کو سرمایہ دار دنیا کا سامراجی ہتھکنڈہ قرار دیتے تھے۔

روس پر حملہ ہوتے ہی ان انقلابیوں پر یہ حقیقت کھلی کہ ہٹلر انسانیت کا دشمن ہے اور فسطائیت سے لڑنا ہر صاحب شعور پر فرض ہے۔ حفیظ جالندھری، مجید ملک، چراغ حسن حسرت اور ن م راشد تو ایک طرف، ہمارے فیض صاحب بھی لاہور کے کامریڈوں کو اسی تازہ الہام کی امانت سونپ کر فوجی وردی زیب تن کرنے کی غرض سے عازم دہلی ہوئے۔

بے شک جنگ جنگل کی المیہ میراث ہے۔ انسانی تہذیب کا سفر جنگل سے شہر اور جنگ سے امن کی طرف پیش رفت کی حکایت ہے۔ سوال یہ ہے کہ باشعور اور عالی دماغ افراد کے کاسہ سر میں ایسا کونسا تاریک براعظم ہے جو دلیل کو خاطر میں نہیں لاتا، شواہد پر نظر نہیں کرتا، منطق سے کام نہیں لیتا، تاریخ کو مسخ کرتا ہے، جغرافیائی حقائق کو در خور اعتنا نہیں سمجھتا، حتیٰ کہ اعداد و شمار کی معمولی جمع تفریق کی بھی زحمت نہیں کرتا۔

یہ کیفیت دراصل وہ تعصب ہے جسے نظریاتی وابستگی کا خوشنما نام دیا جاتا ہے۔ کچھ تو اس نظریاتی شناخت کو فرد کی صوابدید سے بھی منقطع کر کے ریاست سے منسوب کر دیتے ہیں۔ اصول پسندی اور نظریاتی تقلیل پسندی میں فرق نہیں کرتے۔ ذرائع کو مقاصد کے تابع قرار دیتے ہیں۔ آج ہم اپنے ملک میں تاریخ کے جس موڑ پر کھڑے ہیں، وہاں ہمارا ماضی خجل ہے، حال دریدہ ہے اور مستقبل پر سوالیہ نشان ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ نظریات کی تنگنائے کو سوال سے عداوت ہے۔

یہ ایک پھیلی ہوئی بحث ہے۔ اگلی نشست میں دیکھیں گے کہ پاکستان کی معیشت، سیاسی بندوبست، خارجہ پالیسی اور معاشرت نے ہمارے لئے کیا سوال مرتبکیے ہیں۔ سوال سفیدے کا درخت نہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے فلک بوس ہو جائے اور معمولی آندھی میں زمیں بوس ہو جائے۔ سوال وہ گھاس ہے جو جنگ، قحط، زلزلہ، سیلاب، خشک سالی غرضیکہ ہر آزمائش کے بعد زمیں سے سر نکالتی ہے۔ تاریخ کے اٹھائے ہوئے سوال جواب لئے بغیر نہیں ٹلتے۔ استاذی قیوم نظر یاد آ گئے

مجھ پہ آئی کہاں ٹلی ہے ابھی

ذکر میرا گلی گلی ہے ابھی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).