دادی بکھوڑی


رسی جل گئی بل نہ گیا۔ نہ وہ باغات رہے کہ آم اور شہتوت کے ذائقوں کے گن گاتے اور گاجروں کی رنگت، خوشبو اور صحت مندی کے مقابلے کرتے شامیں گزرتیں۔ نہ وہ زمینیں رہیں، جن پر گھوڑے دوڑ دوڑ کر تھک جاتے تھے اور رقبہ ختم ہونے کو نہ آتا تھا۔ نہ وہ گودام رہے جن میں رکھی گندم سالوں کے لیے کافی سمجھی جاتی تھی اور نہ اعلیٰ نسل کے وہ مویشی رہے، جن کی قیمتیں لگانا بھی خاندانی لوگ توہین سمجھا کرتے تھے۔ انگریز سرکار کا لگان کا نظام بڑا سخت تھا۔ جب تک سمجھ میں آتا، پانی سر سے گزر چکا تھا۔ اب پچھتاوے کیا ہوت؟ زمینداریاں خاک ہوئیں۔ کچھ زمینیں سرکار نے ضبط کر لیں، کچھ نازو ادا اور غمزؤں و عشوؤں کی نذر ہوئیں۔

ہر سال عرس شریف کی نذرو نیاز کے مواقع پر پہلے سے زیادہ اہتمام ہوتا تھا تا کہ سخاوت کے میدان میں خود کو اگلوں سے برتر ثابت کر کے دریا دلی کی مثالیں قائم کی جائیں۔ قوالوں کو توچھوڑیں، ان کے ہم نواؤں اور طبلہ نوازوں پر انعام و اکرام کی وہ برسات ہوتی کہ سالوں حوالہ جات کے لیے مثالیں نکل آتیں۔ کئی کئی دن کی محفل سماع کے بعد اذن عام ہوتا تھا کہ جاتے ہوئے من پسند جانور ساتھ لے جائیں۔ امی بتاتی ہیں کہ جب ریوڑ نکلتے تھے تو مائیں روتے ہوئے بچوں کو بہلانے کے لیے ان جانوروں کی گنتی شروع کرتی تھیں۔ بچے سو جاتے تھے، مگر بکریوں، بھیڑوں اور گائیوں کا ریوڑ اپنی راہ چلتا جاتا تھا۔ جب کہ مغنیاوٴں کے لیے سال کی ہر فصل سے غلہ مخصوص رکھا جاتا تھا جو وہ باقاعدگی سے اپنے میراثیوں کے ذریعے منگواتی تھیں۔

گانے والیوں کے انتخاب کے معاملے میں سنا ہے دادا جی کا ذوق بہت اعلیٰ تھا۔ تان لگاتے ہوئے اگر کسی مغنیہ کی آنکھ یا ہونٹ کا اشارہ اپنے ٹیڑھے پن کی وجہ سے دادا جی کے جمالیاتی ذوق کو ٹھیس پہنچاتا تھا تووہ محفل سے یہ سوچ کر اٹھ جایا کرتے تھے کہ دور دراز سے آئے ہوئے معزز مہمان کیا کہیں گے کہ زمیندار صاحب کے ذوق جمال کو یہ کجی کیونکر گوارا ہوئی۔ ایسے مواقع پر ساز سنگت کے سارے سازندے اور ادھیڑ عمر نائیکائیں اگلی بار تاریخ ساز مظاہرے کے اہتمام کے دبے دبے اعلانوں اور وعدوں کے ساتھ جلد از جلد وہاں سے نکلنے میں ہی عافیت سمجھتے تھے۔

کہتے ہیں۔ جنوبی علاقے کے ایک نامی گرامی وڈیرے نے موسیقی کا پروگرام رکھا۔ آس پاس کے دیگر معززین کے ہمراہ دادا جی مرحوم بھی مدعو تھے۔ دو عدد مغنیاؤں کی گائیکی تو بہت پسند کی گئی مگر تیسری نے جب تان لگانے کی کوشش کی تو داہنی آنکھ تو بند ہوئی سو ہوئی دہن بگڑ کر کچھ سے کچھ بن گیا۔ دادا جان کی طبع نازک بھلا کہاں اس قسم کی افتاد کی تاب لا سکتی تھی۔ نہ صرف اپنے ساتھیوں کے ہمراہ محفل سے اٹھ آئے بلکہ اگلی صبح اپنے منشی سے ایک طویل مراسلہ لکھوا کر میزبان کو بھیجا، جس میں میزبانوں کے ذوق سلیم پر اعتراضات کی بوچھاڑ کے علاوہ معزز مہمانوں کے جذبات، احساسات اور اعلیٰ درجے کی حس لطافت کو ٹھیس پہنچانے کا الزام عائد کرتے ہوئے معافی نامے کا مطالبہ شامل تھا۔ سنا ہے اگلا بھی اپنی طرز کا وکھرا ہی بندہ تھا۔ اس نے بھی جواب آں غزل میں دیر نہ لگائی۔ یہ مراسلاتی جنگ کوئی سات سالوں پر محیط رہی، تاآنکہ اگلی پارٹی کے مرد آہن پر لوک نہ سدھار گئے۔

مہمان داری کا یہ عالم تھا کہ روز ایک بکرا قربان ہوتا تو دستر خوان پورا ہوتا تھا۔ بس چولہا بجھنے نہ پائے، یہ شان سلامت رکھنی تھی۔ چولہے کا بجھ جانا، گویا، خاندان کے وقار پر دھبہ تھا۔ کہیں مہمان کے آنے سے بھی بھلا رزق میں کوئی کمی ہوتی ہے۔ مہمان تو میزبان کی شان ہوتے ہیں اور ہر مہمان اپنارزق ساتھ لاتا ہے، کا فلسفہ زندگی کے نہ مٹنے والے اصولوں میں سے ایک تھا۔ لہٰذا مہمان آتا تو اپنی مرضی سے تھا مگر جاتا میزبان کی مرضی سے تھا۔ باہر مہمان خانے میں دن رات چلمچی اور لوٹا یہاں سے وہاں سرکائے جاتے اور اندر سارا زنان خانہ ماسیوں اور بواؤں کی ہمراہی میں باورچی خانہ بنا ہوتا۔ حویلی کے دالان سے آسمان کی طرف بلند ہوتا دھواں جتنا گہرا ہوتا، اتناہی باعث توقیر سمجھا جاتا۔

رسی جل تو گئی تھی مگر بل نہ جانے کی وجہ یہ تھی کہ بل دینے والے بلکہ ہر روز ایک نئے بل کی کہانی سنانے اور دہرانے والے اور والیاں اب تک سلامت تھیں۔ اب بھی جب سفید بالوں والی، دوپٹوں کی بکل مارے بوائیں اورمزید بوڑھے ہوتے خانسامے یہاں سے وہاں پھرا کرتے تو تاسف بھرے انداز میں کچھ اس طرح کے جملے بولتے۔ ”ارے خدا کو خبر، کہاں چلی گئیں بادشاہیاں۔ خدا سر کے سائیں کی خیر رکھے۔ کیا شان تھی، کیا معراج تھی۔ مجال ہے کہ بڑے سائیں کے ہوتے کوئی آس پاس کا معمولی زمیندار، کبھی حویلی کی جانب نظر اٹھا کر بھی دیکھ سکتا۔ پورے گاؤں میں کسی طرح دار طرم خان کی مجال نہ تھی کہ حویلی کے آس پاس بغیر سر ڈھانپے گھوڑے پرسوار ہی گزر جائے“ ۔

کہتے ہیں دادا جی مرحوم کے برادر نسبتی نے ایک ننگے سر گھڑ سوار کا سرقلم کر کے، اس کے قبیلے والوں کو بھجوا دیا تھا کہ آئندہ اگر تمہارا کوئی جوان سرڈھکے بغیر ہمارے گاؤں سے گزرا تو واپسی میں صرف سر ہی مل سکے گا۔ پھر جب ان ملازماؤں کی نظریں ہماری طرف اٹھتیں تو صدقے واری ہوتے، کہہ اٹھتیں۔ چلو محل، ماڑیاں اور زمینیں گئیں، اللہ بخشے نسل تو سائیں کی سلامت ہے۔ اللہ سائیں کا کرم رہے۔ سب پڑھ لکھ کر بڑے افسر بنیں گے اور خاندان کا نام روشن کریں گے۔

ان بواؤں کے ذمے بہت کام تھے۔ آنگن میں بڑی بڑی چادریں بچھا کر ان پر دھوئی ہوئی گندم کو پھیلانا اوراسے سکھا کر بوریوں میں بھرنا۔ برآمدے میں لمبی چوڑی چٹائیوں پر، خوشنما رنگوں کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں کو آپس میں جوڑ کر رلیاں بنانا، جنہیں سیتے سیتے ان کی انگلیوں کے پوروں سے خون رسنے لگتا تھا۔ باورچی خانے کے دائیں کونے میں چکی کے پاٹ ہمیشہ مصروف نظر آتے جن پر ہر طرح کا مصالحہ پستا، اور پھراسی چکی کو دھوکر اس پر آٹا بھی پیسا جاتا۔

کبھی بالکل باریک، روٹی کے لیے تو کبھی موٹا، دلیا بنانے کے لیے۔ باقی کھانا پکانے، برتن اور کپڑے دھونے، گھر کی صفائی ستھرائی، دالان میں بندھے جانوروں کو چارہ دینے اور گوبر اٹھانے کا کام تو مستقل بنیادوں پر جاری رہتا تھا۔ سب عورتیں بڑی تندہی سے کاموں میں جتی ہوتی تھیں اور ان سب کی انچارج تھی، بکھوڑی۔ ہر ایک کے حسب نسب سے واقف، ہر ایک کو نگاہ کے اشارے سے بات سمجھانے، ہر ایک کو کام سونپنے اور اس کی نگرانی کرنے اور کروانے والی بکھوڑی۔ دادی بکھوڑی۔

میرے لیے، یہ یقین کرنا کہ میں بھی کبھی بوڑھی ہوں گی، اتنا ہی مشکل تھا، جتنا اس بات پر یقین کرنا کہ دادی بکھوڑی بھی کبھی جوان رہی ہوگی۔ ایک ہی انداز، ایک ہی طریقے سے بات کرنا۔ مخصوص چال۔ موٹی چھینٹ کے پھولدار کپڑے اور کاٹن کا بڑا سا دوپٹہ اوڑھے، جس کی بکل کبھی کھلتے نہ دیکھی۔

کسی ملازمہ عورت کو دادی کی موجودگی میں، میں نے کبھی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے نہ دیکھا۔ کسی کی جرآت نہ ہوتی تھی کہ دادی کے سامنے کوئی بے مقصد بات کرے یا فضول ہنستی دکھائی دے۔ گھر بھر میں دادی بکھوڑی کو خاص مقام حاصل تھا۔ سنا تھا وہ میری دادی اماں کی خاص ملازمہ تھی جس کا درجہ سہیلی تک پہنچا ہوا تھا اور اسی وجہ سے اسے دیگر ملازماؤں پر سبقت حاصل تھی۔ مگر میری دونوں پھوپھیاں اس کے لیے دل میں بڑی حقارت رکھتی تھیں، جب بھی انہوں نے دادی بکھوڑی کا ذکر کیا، اسے بڑی نخوت سے ”بکھو“ کہنے پر اکتفا کیا۔ ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا انہیں دادی کا یوں سب عورتوں پہ راج کرنا، مگر میری ماں کے گھر میں میری پھپھیوں کا بس نہیں چل سکتا تھا، ہاں جب بھی ان کو موقع ملتا، دادی کی کسی نہ کسی بات پر ناک بھوں چڑھا کر آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو اشارے کرتی رہتیں۔

اباجی جب بھی گھر میں کوئی دعوت رکھتے۔ برتنوں کا ڈھیر بڑھتا جاتا تھا، چونکہ دعوت کے لیے چینی کے خاص برتن نکالے جاتے تھے لہٰذا دادی خود ان برتنوں کو دھویا کرتی تھی۔ مجال ہے کسی برتن کے رکھنے کی آواز آتی۔ برتن خوب سلیقے اور قرینے سے دھوئے جاتے۔ جبکہ دیگچے اور دیگچیاں مانجھنے کے لیے دادی کی رشتے دار عورتیں کام آتی تھیں۔ دادی کا کام کرنے کا طریقہ بھی وکھرا تھا۔

دادی گلاس۔ اسماء نے فرمائش کی۔
دس گلاس، میری بیٹی، میری دلاری کے لیے۔ دادی نے دھلا دھلایا گلاس اپنے دوپٹے کے پلو سے پونچھ کر اسے پکڑوایا۔

دادی پلیٹ۔ ارجمند نے ہانک لگائی۔
صدقے واری دادی تیرے۔ یہ لے پلیٹ۔
زلیخا، ارجمند بیٹی کو پلیٹ پکڑاؤ۔ دادی نے زلیخا بوا کو آواز لگائی۔

دادی ایک پلیٹ میرے لیے بھی۔ ارشد نے بیٹھے بیٹھے پکارا۔
ابھی پلیٹ۔ ایک منٹ میں پلیٹ حاضر میرے بچے۔ دادی نے پچکارا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4