منیب الرحمٰن کی شاعری میں تنہائی اور دانائی کے راز


اس دنیا میں نجانے کتنے شاعر ہیں جو دانشور نہیں ہیں اور کتنے دانشور ہیں جو شاعر نہیں ہیں۔ منیب الرحمٰن ان خوش قسمت انسانوں میں سے ایک ہیں جو بیک وقت شاعر بھی ہیں اور دانشور بھی۔

منیب الرحمٰن کی شاعری اور شخصیت دو ایسے آئینے ہیں جن میں ایک دوسرے کا عکس دکھائی دیتا ہے ان دونوں کی آپس میں دوستی ہے دشمنی نہیں۔ ایک دوسرے پر اعتماد ہے تضاد نہیں۔ جن لوگوں نے منیب الرحمٰن کی قربت میں وقت گزارا ہے وہ جانتے ہیں کہ ان کی شخصیت میں عاجزی بھی ہے انکساری بھی ’تحمل بھی ہے بردباری بھی اور جنہوں نے ان کی شاعری کا مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ ان کی نظموں میں گہرائی بھی ہے دانائی بھی۔ ماہرینِ نفسیات و ادبیات بخوبی جانتے ہیں کہ یہ شخصیت اور شاعری کی وہ خصوصیات ہیں جو برسوں بلکہ دہائیوں کی محنت اور ریاضت سے حاصل ہوتی ہیں۔

منیب الرحمٰن کی شخصیت اور شاعری کا ایک خاصہ ان کے لہجے کا دھیماپن ہے۔ وہ نہ سخت لہجے میں بات کرتے ہیں ’نہ شاعری میں نعرے لگاتے ہیں اور نہ نظموں میں چیختے چلاتے ہیں بلکہ بڑے مہذب طریقے سے اور بڑے ادب سے اپنا نقطہِ نظر اور اپنا فلسفہ‘ اپنا مشاہدہ اور اپنا تجربہ اپنے قاری کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ بقول شمس الرحمٰن فاروقی وہ ’برہمی کی بات بھی آہستہ لہجے میں کرتے ہیں‘

میں نے جب ان کی کلیات۔ سرمایہ کلام۔ کا مطالعہ کیا تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے ان کی نظمیں زندگی کے بارے میں ان کی ادبی سرگوشیاں ہوں۔ انسانی نفسیات کے ماہرین جانتے ہیں کہ جب کوئی شخص چیختا چلاتا ہے تو لوگ اس سے دور ہو جاتے ہیں اور جو سرگوشیاں کرتا ہے لوگ اس کے قریب آ جاتے ہیں۔ منیب الرحمٰن کی نظموں کی سرگوشیوں میں وہ مقناطیسیت ہے کہ وہ آپ کو ان کے قریب آنے اور ان کی بات کو غور سے سننے کی دعوت دیتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے منیب الرحمٰن بڑی خاموشی سے دبے پاؤں اپنے قاری کے دل کے ایک کونے میں پہنچ جاتے ہیں اور پھر اس کی روح کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں۔ یہ عمل شعوری بھی ہے ’غیر شعوری بھی‘ ارادی بھی ہے ’غیر ارادی بھی اور یہی ان کی نظموں کی کرامت ہے کہ وہ غیر ارادی طور پر‘ غیر شعوری طور پر اور غیر محسوس طریقے سے خوشبو کی طرح آپ کے دل کے نہاں خانوں میں داخل ہو جاتی ہیں اور آپ کو مسحور کرنے لگتی ہیں۔ یہ اعجاز بہت کم شاعروں کو نصیب ہوتا ہے۔

منیب الرحمٰن کی نظمیں پڑھتے ہوئے مجھے کئی دفعہ یوں محسوس ہوا جیسے انہوں نے روایت سے بغاوت اور بغاوت سے دانائی کا سفر طے کیاہو اور اب زندگی کی شام میں وہ کسی سنت ’کسی سادھو‘ کسی صوفی یا کسی درویش کی طرح خاموشی ’تنہائی اور دانائی کے رازوں سے واقف ہو گئے ہوں۔

منیب الرحمٰن اپنی جوانی میں ہی اپنے مشاہدے ’تجربے‘ مطالعے اور تجزیے سے اس حقیقت سے باخبر ہو گئے تھے کہ انسان کی انفرادی زندگی اس کی اجتماعی زندگی سے جڑی ہوئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں

اب ترا غم نہ ترا ہے نہ مرا غم میرا

ایک غم ہے جو ہمارا غم ہے

غمِ انساں ہے جہاں کا غم ہے

منیب الرحمٰن نے اپنی جوانی میں جب اپنے ارد گرد رنگ نسل اور مذہب کے نام پر انسانوں کو دوسرے انسانوں کو قتل کرتے دیکھا تو لکھا

لوگ کہتے ہیں بھلا نام میں کیا رکھا ہے

نام اولاد کو ماں باپ دیا کرتے ہیں

میرے بھائی کو اسی طرح ملا تھا اک نام

جس سے مقصود تھی پہچان اس کی

یہی پہچان بنی اس کی تباہی کا سبب

وہ گیا اس کی یہ پہچان گئی

اب نہ ہندو ہے نہ مسلمان ہے وہ

صرف اک لاشہِ بے جان ہے وہ

اس نظم کا یہ بند ’جس میں وہ ہر انسان کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں‘ اس بات کی تصدیق کے لیے کافی ہے کہ منیب الرحمٰن کی شاعری انسان دوستی اور کرہِ ارض پر ایک پرامن معاشرہ قائم کرنے کے آدرش اور خواب کی شاعری ہے۔

منیب الرحمٰن کی شاعری میں ہجر کا کرب بھی ہے اور ہجرت کا دکھ بھی۔ وہ ہندوستان سے انگلستان اور پھر یورپ سے امریکہ آئے اور عمر کا ایک بڑا حصہ اپنی مادرِ وطن اور اپنے دوستوں رشتہ داروں سے دور رہے۔ ان کے ہجر کے تجربے اور ہجرت کی واردات کے تاثرات کا عکس ان کی نظم۔ اجنبی بن کے رہے۔ کے دو اشعار میں دکھائی دیتا ہے

اجنبی بن کے رہے بے سروسامان رہے

ہم ترے شہر میں جب تک رہے انجان رہے

ہجر کا داغ لیے پھرتے ہیں پیشانی پر

تا کہ اربابِ وفا کے لیے پہچان رہے

مہاجروں کے دکھ اور کرب کا ذکر اردو کی مہجری شاعری کا اٹوٹ حصہ ہے جس کا عکس بہت سے مہاجر شاعروں کی شاعری میں دکھائی دیتا ہے۔ اس موضوع پر منیب الرحمٰن کا انداز ان کی نظم۔ مہاجر۔ میں ملاحظہ ہو

دل کی تنہائیوں میں راتوں کو

یاد کرتا ہے پچھلی باتوں کو

کھو چکا ایک دن جہاں اپنا

ڈھونڈتا ہے کہیں مکاں اپنا

وہ فقط جسم ساتھ لایا ہے

روح پیچھے ہی چھوڑ آیا ہے

منیب الرحمٰن اگرچہ جدید شاعر ہیں لیکن وہ اپنی شاعری میں ابلاغ کو بہت اہمیت دیتے ہیں اسی لیے ان کا اندازِ اظہار صاف اور شفاف ہے گنجلک اور پیچیدہ نہیں۔

چونکہ منیب الرحمٰن زندگی کی شام میں ایک عرصے سے داخل ہو چکے ہیں اس لیے انہیں تنہائی اور خاموشی کے ایسے تجربات ہوئے ہیں جو جوانی میں نہیں ہوتے۔ اس پر مستزاد وقت کے ساتھ ساتھ ان کی بینائی میں بھی کمی آتی گئی۔ زندگی کی شام اور پھر بینائی کی کمی نے ان کے لیے ایک ایسا ماحول بنایا ہے کہ ان کا روشنی سے جسمانی اور ذہنی طور پر ایک نیا رشتہ قائم ہوا ہے اور اس رشتے نے ان کے انسانی رشتوں کو بھی متاثر کیا۔ وہ اپنی نظم۔ روشنی۔ میں رقم طراز ہیں

جب سے بینائی میں کمی آئی

یوں لگا شامِ زندگی آئی

کھڑکیاں ٹمٹمائیں آنکھوں کی

دل کے ہجرے میں تیرگی آئی

در پہ معذوریوں نے دستک دی

عاجزی سن کے ہانپتی آئی

اپنے اوپر دھوئیں کی صورت کو

آئنہ دیکھ کر ہنسی آئی

چلنا پھرنا وبالِ جان ہوا

لکھنے پڑھنے میں بے بسی آئی

گوشہ گیری شریکِ حال بنی

سازگار اس کی دوستی آئی

اس اندھیرے مکان میں لیکن

جب بھی تم آئے روشنی آئی

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail