جذباتی تعلق کی ضرورت


ہم خود کو معاشرتی حیوان کہتے ہیں۔ ساتھ ہی ہمارا خیال ہے کہ انسان وہ واحد جاندار ہے جو کمیونٹی یا برادری بنا کے رہتا ہے اور اس نظریے کی بنیاد پہ ہم خود کو بحیثیت اشرف المخلوقات ایک اور مثبت پوائنٹ دے دیتے ہیں۔ جبکہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ انسان وہ واحد جانور نہیں ہے جو برادری بنا کے رہتا ہے بلکہ کم و بیش ہر جاندار میں یہ خصوصیت موجود ہے۔ ہاں یہ بات ہے کہ انسان کا برادری نظام باقی جانداروں سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ یعنی بات گھوم پھر کے وہیں آگئی کہ انسان بہتر ہے۔ مگر بات اتنی سادہ نہیں۔ انسان اور بقیہ جانداروں کی اس خصوصیت اور مماثلت کو سمجھنا بہت اہم ہے تاکہ ہم برادری نظام اور ایک جاندار کی دوسرے جاندار جو یا تو اسی نوع سے تعلق رکھتا ہو یا پھر کسی اور قسم کا جاندار ہو دونوں صورتوں میں ان کا ایک دوسرے پہ انحصار اور اس کی اہمیت سمجھنا بہت ضروری ہے۔

سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ ارتقائی بنیادوں پہ ایک ہی نوع سے تعلق رکھنے والے جاندار ایک ہی قسم کے مسکن میں رہتے ہیں۔ جہاں انہیں ایک مخصوص ماحول، موسم، درجہء حرارت اور غذا با آسانی میسر ہوتی ہے۔ یعنی کسی بھی جگہ کا موسم اور جغرافیائی حالات ایک مخصوص برادری کو تشکیل دیتے ہیں۔ لیکن اس مکمل ماحول میں صرف ایک قسم کے جاندار کی برادری نہیں ہوتی بلکہ مختلف انواع ایک دوسرے کے سہارے زندگی بسر کرتی ہیں۔ ان کا ایک دوسرے پہ انحصار ان کی بقاء کے لیے ضروری ہے۔ اور یہیں سے تعلق رشتے اور جذبات کی ابتداء ہوتی ہے۔

جس فرد یا مخلوق سے ہمارا کوئی جذباتی تعلق نہیں اس کے جینے یا مرنے سے ہمیں کیا فرق پڑے گا؟

جانوروں میں اُن تمام جانداروں اور ماحولیاتی عناصر جو اُن کی بقاء کے لیے ضروری ہیں کے لیے مثبت جذبات ان کی فطرت کا حصہ ہیں۔ انہیں اس کے اظہار کے لیے ایک دوسرے کو کارڈز دینے، سالگرہ کی مبارکباد دینے یا جھوٹی تعریفیں کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ان کے لگے بندھے فطری نظام میں اپنی بقاء کے ساتھ ساتھ ان تمام ماحولیاتی عناصر جو ان کی بقاء کے لیے ضروری ہیں کی بقاء کا خیال رکھنا ان کی جبلّت کا حصہ ہے۔ اگر شہد کی مکھی کو شہد بنانے کے لیے رنگ برنگے پھولوں پہ انحصار کی ضرورت ہے تو یہی شہد کی مکھی اپنی ٹانگوں اور پروں پہ پولنز (زر دانے) ایک پودے سے دوسرے پودے تک لے جا کر پودوں کی افزائش کا سب سے بڑا ذریعہ بھی بنتی ہے۔

کیا آپ کو اندازہ ہے کہ میں بہت بڑے اور اہم جانداروں کی متاثر کن مثالوں کو چھوڑ کر شہد کی مکھی کی مثال کیوں دے رہی ہوں؟ تو جان لیجیے کہ شہد کی مکھی ویسے تو اپنی بقاء کے لیے پودوں میں کراس پولینیشن کرتی ہے لیکن در اصل یہ دنیا میں پودوں کی افزائش کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اگر دنیا سے شہد کی مکھیاں ختم ہو گئیں تو کراس پولینیشن کا ایک بہت بڑا ذریعہ ختم ہوجائے گا جس سے پودوں اور درختوں کی افزائش کا قدرتی سلسلہ رک جائے گا۔ اور جب پودے ختم ہونے لگیں گے تو ان پہ غذا اور آکسیجن کے لیے انحصار کرنے والا ہر جاندار ختم ہوجائے گا۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ گزشتہ سالوں سے بڑھتی آلودگی کی وجہ سےشہد کی مکھیاں تیزی سے ختم ہو رہی ہیں اور ان کی تعداد خطرے کی حد سے کم ہوگئی

انسان کا برادری نظام سمجھنے کے لیے یہ قدرتی انحصاری نظام سمجھنا بہت ضروری ہے کیوں کہ ہم نے بھی اسی بنیادی برادری نظام سے اپنا سفر شروع کیا تھا۔

ہمارا معاشرتی نظام اب اس قدر پیچیدہ ہوچکا ہے کہ یہ ماننا بہت مشکل ہے کہ یہ نظام بھی کبھی جانوروں کے سادہ انحصاری نظام جیسا ہی تھا۔ ہمارا ہر رشتہ ہر جذبہ بنیادی طور پہ ہماری بقاء سے جڑا ہے۔

ہم اپنے ہر اس رشتے کے لیے مثبت جذبات رکھتے ہیں جو یا تو کسی نہ کسی اعتبار سے ہماری بقاء کے لیے ضروری رہ چکا ہے یا اب ہے یا مستقبل میں رہے گا۔ والدین، جیون ساتھی، اولاد، افسر، ریاست کا حکمران اور سب سے آخر مگر سب سے اہم ہمارا خدا۔

(چونکہ خدا سے تعلق عقیدت کی بنیادوں پہ بالکل الگ پیمانوں کا متقاضی ہے اس لیے بقیہ تمام بحث میں اس تعلق کو شامل نہیں کریں گے۔ کوشش کروں گی کہ اسی سلسلے میں ہم اس تعلق پہ بھی کبھی بات کر سکیں کیوں کہ اس کے لیے ہمیں باقی جذبات اور تعلقات سے الگ پیمانوں اور پس منظر کی مدد سے بات کی ضرورت ہے۔ لہذا فی الحال ہم اس کے علاوہ بیان کیے گئے رشتوں اور ان سے منسلک جذبات پہ بات کریں گے۔)

یہ وہ تعلق ہیں جن کے لیے ہم سمجھتے ہیں کہ ان سے محبت کا تعلق روحانی یا الوہی ہے۔ یا صرف اتنی اہمیت دیتے ہیں جتنی مذہب نے ہم پہ فرض کی جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان سے محبت ہماری بقاء کی بنیادی ضرورت ہے۔ ہم جب تک اس بنیادی حقیقت کا اعتراف نہیں کریں گے نہ اپنے جذبات کو سمجھ سکیں گے نہ ہی اپنے اوپر جوابی بقاء کی ذمہ داری کو سمجھیں گے۔ ساتھ ہی کب کون ہماری بقاء کے لیے ضروری نہیں بلکہ خطرہ ہے یہ جاننا بھی اسی لیے اہمیت کا حامل ہے۔ ساتھ ہی یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اس بقاء اور انحصار کا دائرہ بتدریج بڑا ہوتا جاتا ہے اور ہر دائرے میں موجود افراد اور انواع کی الگ ضروریات ہیں۔ ہم والدین سے محبت کرتے ہیں کیونکہ ہمیں لگتا ہے یہ فطرت ہے۔ ہم ان سے جوابی محبت کی توقع کرتے ہیں کیوں کہ یہ بھی ہمیں فطری لگتا ہے۔ اسی طرح اوپر بیان کی گئی لسٹ کے ہر رشتے میں ہوتا ہے۔ لیکن ہم پڑوسیوں، ہم مذہب، ہم جماعت، ہم نسل، اردگرد موجود مختلف پیشوں سے منسلک افراد، اردگرد موجود پودوں اور جانوروں سے کسی قسم کی محبت رکھنے کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ جبکہ ان سب کے لیے مثبت جذبات رکھنا، اپنی بقاء کے لیے ان کی بقاء کی اہمیت سمجھنا اور اپنی ذمہ داری نبھانا اتنا ہی ضروری ہےجتنا شہد کی مکھی کے لیے کراس پولینیشن کرنا۔

انسانی معاشرے میں بقاء کی ضرورت صرف اپنی نسل بچانے اور بڑھانے تک محدود نہیں اس میں ایک اور اہم بقاء بھی شامل ہے اور وہ ہے معاشرتی بقاء۔ یہ ہی وہ منفرد ضرورت ہے جو انسانی برادری کو باقی جانداروں سے ممتاز نہیں تو منفرد ضرور کر دیتی ہے۔ یقیناََ کچھ پیمانوں کی بنیاد پہ ہم ممتاز بھی ٹہریں مگر ہر بحث کا مقصد دوسرے شخص، قوم، یا نوع سے مقابلہ بازی نہ ہو تو بہتر ہے۔ لہذا خود کو ممتاز یا حقیر سمجھے بغیر صرف منفرد سمجھتے ہوئے بات کو آگے لے چلتے ہیں۔

معاشرتی بقاء ہمارے بنیادی سادہ فطری جذبات کو پیچیدہ بنا دیتی ہے۔ وہ رویہ جسے ہم خود غرضی کہتے ہیں وہ معاشرتی بقاء کی جبلت کا ہی نتیجہ ہے۔ معاشرے میں ایک معزز شہری سمجھا جانا ہر انسان کی ضرورت اور حق ہے۔ بد قسمتی سے یہ حق بہت محدود انسانوں کو حاصل ہے۔ اور اس حق کے لیے جدوجہد مختلف قسم کے منفی جذبات کو جنم دیتی ہے۔

قدرتی بقاء اور ماحولیاتی بقاء کا ایک بہت اہم پہلو ماحول سے مطابقت رکھنا ہے۔ گرمی میں دھوپ سے بچنا جتنا اہم ہے یا جانوروں کا شکاری سے بچنے کے لیے ماحول کے ہم رنگ ہوجانا جتنا ضروری ہے معاشرے کے رائج اصولوں کے مطابق خود کو ڈھالنا اتنا ہی ضروری ہے۔ یہی جبلت مختلف ٹرینڈز، فیشنز، اور بھیڑ چال کی وجہ ہے۔ مگر ساتھ ہی جیسے کاربن ملی ہوا ہمارے پھیپھڑے خراب کر سکتی ہے جبکہ سانس لینا ہماری بقا کے لیے ضروری بھی ہے اسی طرح معاشرے کے ساتھ ودم ملا کے چلنا جہاں ضروری ہے ہیں اس میں رائج غلط رواجوں کی پیروی ہماری شخصی اور معاشرتی بقاء کے لیے نقصان دہ ہے۔ ممکن ہے غلط رواج کی پیروی کر کے آپ بحیثیت فرد اس معاشرے میں باعزت ٹہریں مگر یہ رواج مجموعی طور پہ معاشرے کو بتدریج تباہی تک لے جائیں گے۔

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima