مقبولیت پسندی کی سیاست


سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ ہر عہد کے چند بڑے سیاسی رجحانات ہوتے ہیں اور یہ سیاسی رجحانات کسی ایک ملک کو ہی نہیں بلکہ خطے اور بعض صورتوں میں پوری دنیا کو متاثر کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر سیاسیات کا کوئی طا لب علم آج کی دنیا کے سب سے بڑے سیاسی رجحان کو سمجھنا چاہے تو تھوڑی سی تحقیق کر کے وہ اس نتیجے تک پہنچ جائے گا کہ آج کی دنیا، خاص طور پر جمہوری ممالک میں پاپولسٹ یا اردو میں مقبولیت پسند سیاست کا رجحان ہی چھایا ہوا ہے۔ مقبولیت پسندی کی سیاست بنیادی یا اصولی سیاسی نظریات کی بجائے ایسی سیاست کو فروغ دیتی ہے جس میں عوام کے انتہائی پیچیدہ مسائل کا حل انتہائی آسان اور پُرکشش نعروں کی صورت میں پیش کیاجا تا ہے اور عوام کے سہارے ایسے پُر کشش نعروں کے دم پر انتخابا ت جیتنے کے بعد اس خیال کو تقو یت دی جا تی ہے کہ حکومت کے پاس جتنی زیا دہ اتھا رٹی ہو گی،مسائل بھی اسی قدر تیزی کے ساتھ حل ہو ں گے۔ آج کے دور میں امریکہ، یورپ، لاطینی امریکہ اور جنوبی ایشیا سمیت کوئی ایسا خطہ نہیں جو اس پاپولسٹ سیاست سے محفوظ ہو۔

امریکہ میں 2016ء کی انتخابی مہم کے دوران جب ٹرمپ امریکہ میں بے روزگا ری ختم کرنے کا آسان نسخہ پیش کرتا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنا دے گا اور ایشیا اور افریقہ کے غریب ممالک کے شہریوں کو امریکہ میں آنے سے روک دے گا تو یہ سب با تیں ایسے امریکیوں کے لئے بڑی دلکش ہوتی تھیں جن کو بے روز گا ری اور غربت کا سامنا تو تھا،مگر یہ علم نہیں تھا کہ یہ مسائل اتنے آسان نسخوں سے حل نہیں ہوتے۔ اسی طرح آج یو رپ کے ملکوں اٹلی، یو نان، فرانس، جرمنی اور بر طا نیہ سمیت ایسی ہی پاپولسٹ سیا سی جماعتوں اور ایسے سیا سی رجحانات کو کا میا بی مل رہی ہے جو اکثر مسائل کا ذمہ دار ایشیا اور افر یقہ سے آئے ہوئے امیگرنٹس کوقرار دیتی ہیں۔ جرمنی جیسے یو رپ کے انتہائی اہم ملک میں ”آلٹر نیٹز فار جرمن پا رٹی“ جیسی فاشسٹ جماعت کی مقبو لیت اس حقیقت کا ایک اہم ثبوت ہے۔ جنوبی امریکہ کے اہم ملک برازیل میں جیر بولسنارو جیسے مقبولیت پسند سیاست دان کی کامیابی یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ جنوبی امریکہ کا خطہ بھی مقبولیت پسندی کی اس لہر سے محفوظ نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ جہاں دنیا بھر کے خطے پاپولسٹ سیاست کی اس لہر سے متاثر ہو رہے ہیں تو ایسے میں جنوبی ایشیا کا خطہ کس طرح اس لہر سے محفوظ رہ سکتا ہے۔

جنوبی ایشیا میں پا کستان سے پہلے بھارت کی ہی مثال لیجیے۔ مودی نے2014ء اور پھر2019ء کے انتخابات جیتنے کے لئے بھارت کے انتہائی پیچیدہ مسائل کے کیسے کیسے آسان حل پیش کیے تھے۔ مودی کا دعویٰ تھا کہ وہ بھارت میں کرپشن کا مکمل طور پر خاتمہ اور بھارت سے لوٹی گئی دولت کو واپس بھارت لا ئیں گے جس سے ہر بھارتی کے بینک اکاونٹ میں لا کھوں روپے آ جائیں گے، یوں کرپشن کے ساتھ ساتھ بھارت سے غربت کا بھی خاتمہ ہو جا ئے گا۔ جب مودی پیچیدہ مسائل کو اتنے آسان طر یقوں سے حل کرنے میں ناکام رہا تو اس نے اپنے ”ہندوتوا“ کے ایجنڈے، تین طلاق کے ایشو اور اب جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 ختم کرنے اور انسانی حقوق کو پا مال کر کے اپنے عوام کی توجہ دوسری طرف کرنے کی کوشش کی۔

پا کستان کی سیاست بھی پاپولسٹ سیاست کے اس رجحان سے کیسے محفوظ رہ سکتی تھی۔ اگرصرف ایک ہفتہ کے اندر ہم معیشت کے حوالے سے تین خبروں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ مقبولیت پسندی کی سیاست کا کیا حتمی نتیجہ نکلتا ہے۔ ایک تازہ خبر کے مطابق پاکستان میں بجٹ کا خسارہ 34 کھرب 44 ارب91کروڑ روپے تک پہنچ گیا ہے اور یہ خسارہ پا کستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 3 ہزار ارب کی حد عبور کر گیا ہے۔ دوسری خبر کے مطابق پا کستان کے کل قرضے اور واجبات 40.2 ٹریلین تک پہنچ گئے ہیں جو پا کستان کے معاشی حجم سے بھی زیادہ ہیں۔ تیسری خبر کے مطابق چیئرمین ایف بی آر نے کہا ہے: ”پاکستانیوں کے 190 کھرب روپے غیر قانونی طور پر بیرونی بینکوں میں موجو د ہیں جن کو واپس لانا آسان نہیں“…… پی ٹی آئی کی حکومت کا ایک سال پورا ہونے پر یہ تینوں بڑی خبریں پا کستانی معیشت کی بدحالی کی گواہی دے رہی ہیں۔ اب ذرا یاد کیجیے کہ ایک سال پہلے تک پا کستان کے انتہائی پیچیدہ معاشی مسائل حل کرنے کے لئے پاپولسٹ سیاست کے تحت کیسے کیسے آسان حل پیش کئے جاتے تھے۔

اب ایک سال میں واضح ہو چکا ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی نے اپنے انتخابی جلسوں، پرو گراموں اور منشور میں معا شی مسائل کے حل کے لئے جو اقدامات تجویز کئے تھے، وہ سر اسر خود فریبی پر مبنی تھے۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کے راہنما جب انتخابی جلسوں میں یہ اعلان کرتے کہ پی ٹی آئی اقتدار میں آئے گی تو اربوں ڈالرز کی لوٹی ہو ئی دولت واپس آئے گی، بیرون ممالک میں مقیم پا کستانی عمران خان کی حکومت کو اربوں ڈالر بھیجیں گے، عمران خان چونکہ ایک ایماندار وزیر اعظم ہو ں گے، اس لئے پاکستان کے لوگ ٹیکس دینا شروع کر دیں گے اور ایماندار قیادت ہونے کے با عث کرپشن کا بھی خاتمہ ہو جا ئے گا۔ تحریک انصاف کے یہ سب دعوے سن کر سوچ سمجھ رکھنے والا کوئی بھی شخص یہ سوچنے پر مجبور ہو جا تا کہ تحریک انصاف معاشی اور دوسرے مسائل کے حل کے لئے جو نسخے تجویز کر رہی ہے،ان سب پر کیسے عمل ہو گا؟

یہ خبریں ثابت کر رہی ہیں کہ معاشی صورت حال پی ٹی آئی کی حکومت کے لئے بہت بڑا چیلنج بن کر سامنے آرہی ہے۔ عمران خان کو خود بھی اس چیلنج کا احساس ہے اور اس کا سب سے بڑا ثبوت چند ماہ قبل وزارت خزانہ، اسٹیٹ بینک اور ایف بی آر میں کی جانے والی تبدیلیاں ہیں۔ کیا معاشی ٹیم کی تبدیلی سے عمران خان مثبت نتا ئج حاصل کر پائیں گے؟ 1996ء سے2018ء تک یعنی اپنی سیاست کے22سال تک عمران خان آئی ایم ایف سے قرض لینے کی سخت مخالفت کرتے رہے، جب بھی کوئی حکومت آئی ایم ایف سے رجوع کرتی تو عمران خان اپنے جلسوں میں دعوی ٰ کرتے کہ حکومت اصلاحات نہیں کرنا چاہتی، کرپشن ختم نہیں کرتی، ٹیکس کا نظام بہتر نہیں کرتی، اس لئے آئی ایم ایف کے پاس جا نا پڑتا ہے، ورنہ اس کے پاس جانے کی ضرورت ہی نہیں۔ اب وزیر اعظم عمران خان نے اپنی پوری معاشی ٹیم ہی اس لئے بدلی ہے، تاکہ آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے میں آسانی رہے۔

آج پا کستان کی جو معاشی صورت حال ہے، اس کے لئے صرف عمران خان اور پی ٹی آئی کی حکومت کو ہی مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں۔ یہ تو ہمارے حکمران طبقات کی عشروں کی پا لیسیاں ہیں، جن کا نتیجہ ہم آج بھگت رہے ہیں۔ عمران خان کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ22سالہ سیاست کے دوران مقبولیت پسندی پر مبنی نعرے تو لگاتے رہے اور انتہائی پیچیدہ مسائل کے حل کے لئے آسان سے آسان ٹوٹکے بھی تجویز کرتے رہے، مگر وہ یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ کسی نظام کو مکمل طور پر تبدیل کیے بغیر جوہری اصلا حات نہیں لا ئی جا سکتیں۔ عمران خان کا ہمیشہ سے یہ دعویٰ رہا ہے کہ اگر حکمران خود ذاتی طور پر ایماندار ہو تو ادارے اور سماج میں بھی سدھار آجا تا ہے۔ آج پاپولسٹ سیاست کے اس دورمیں تاریخ اور سیاسیات کے طالب علموں کو اس بات کا عملی ثبوت مل رہا ہے کہ کسی سماج کو تبدیل کرنے کے لئے صرف دلکش نعرے اور آسان حل کا فی نہیں ہوتے۔ اگر ایسا ہو تا تو آج دنیا میں پاپولسٹ سیاست کے با عث مسائل کم ہو رہے ہوتے نا کہ بڑھ رہے ہوتے، یہی آج کے عہد کی پاپولسٹ سیاست کا سب سے اہم سبق ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).