جی کا جانا ٹھہر گیا ہے: تبدیلی تبدیلی کی زد میں


شہر اقتدار کی غلام گردشوں میں تازہ خبروں کے خوشہ چینوں نے باخبر حلقوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ فیصلہ ساز اپنے فیصلے پر سخت نادم و پشیمان ہیں۔ مقتدر حلقوں کے علاوہ سیاسی راہداریوں اور بیورو کریسی کے یخ بستہ ایوانوں میں بھی تبدیلی کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اور تبدیلی خود تبدیلی کی زد میں آنے والی ہے۔ فیصلہ ساز نواز شریف کی گستاخیوں اور حکم عدولیوں کی کڑی سزا پاکستان کے نادار عوام کو دے کر بہت پچھتا رہے ہیں۔

انہوں نے جس گھوڑے کو ڈھیروں سرمایہ کاری کر کے میدان میں اتارا تھا وہ ریس کا گھوڑا تھا ہی نہیں۔ اس گھوڑے کو ریس میں فیصلہ کن برتری دلانے کے لیے فیصلہ سازوں نے نہ صرف سیاسی، اخلاقی اور آئینی و قانونی اصولوں کو تج دیا بلکہ اپنی ساکھ بھی بری طرح بگاڑ لی۔ اس ناکارہ اور نامراد گھوڑے نے ریس کے آغاز ہی میں شرطیں لگانے والوں کو مایوس کر دیا تھا مگر اس کے باوجود وہ ریس کے ضوابط پامال کر کے اسے پانچ سال دینے کے لیے تیار ہو گئے۔

لیکن اب شنید ہے کہ قوم کی طرح بازی گروں کو بھی یقین ہو گیا ہے کہ اگر گھوڑے کو مزید موقع دیا گیا تو قومی اور بین الاقوامی حوالے سے ملک کو اور کئی محاذوں پر پسپائی اور جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تبدیلی، نئے پاکستان اور ریاست مدینہ ثانی کے خوش کن اور جذباتی نعروں کی بنیاد پر لائے گئے سیاسی سیٹ اپ کا پہلا مقصد کرپشن اور چور بازاری کو ختم کر کے تباہ حال معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا تھا۔ مگر شومئی قسمت معیشت نے ٹھیک تو کیا ہونا تھا اوپر سے 5.70 فیصد شرح سے ترقی کرتی معیشت کو ایسے بریک لگائے کہ وہ 2.90 پر سسک رہی ہے۔

مہنگائی کی شرح 10.30 پر پہنچ چکی ہے اور پاکستان مہنگائی کے حوالے سے دنیا میں سولہویں اور جنوبی ایشیا میں دوسرے نمبر پر آ چکا ہے۔ خطے کے دیگر ملکوں مثلاً بھارت میں یہ شرح 3.8 فیصد، سری لنکا میں 2.7 فیصد، انڈونیشیا میں 3.3 فیصد اور بنگلہ دیش میں 5.5 فیصد ہے۔ سٹاک ایکسچینج 55 ہزار سے گر کر 29 ہزار، ڈالر 105 سے چھلانگ لگا کر 165 پر اور سونے کے فی تولہ نرخ 45 ہزار سے تجاوز کر کے ایک لاکھ روپے تک پہنچنے والے ہیں۔

”تباہ دیلی“ کے اس ایک سال میں سٹاک ایکسچینج بتیس فیصد کم ہوئی۔ روپے کی قدر میں تینتیس فیصد کمی، گیس کے نرخوں میں دو سو فیصد اضافہ، بجلی کی قیمت میں پینتیس فیصد اضافہ اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں پینتیس فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ تمام ملکی اور بین الاقوامی ادارے اور وزارت خزانہ کے بزرجمہروں سمیت باخبر عناصر معیشت کا اس سے بھی زیادہ خوف ناک نقشہ کھینچ رہے ہیں۔ اٹھارہ لاکھ افراد بے روزگار ہو چکے ہیں اور سویلین اداروں کے لاکھوں ملازمین کی تنخواہوں میں چالیس سے ساٹھ فیصد تک کمی کی جا چکی ہے۔

محاورتاً نہیں حقیقت میں مفلوک الحال عوام کے لیے جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔ افتادگانِ خاک جھولیاں پھیلا پھیلا کر اس ظالم حکومت کی رخصتی کی دعائیں مانگ رہے ہیں۔ یہ حکومت گیارہ ماہ میں تقریباً ستائیس ارب روپے یومیہ کے حساب سے قرض لے چکی ہے جو زرداری اور نواز حکومتوں میں لیے گئے قرضوں کے مقابلے میں اوسطاً کہیں زیادہ ہے۔ اب کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے ڈرامے کے ہنگام یہ حکومت تین سو ارب روپے اپنے من پسند صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں میں تقسیم کر چکی ہے۔ حکومتی آمدنی 225 ارب روپے کم ہو چکی ہے۔ غریب آدمی پر ہوش ربا ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا گیا ہے۔

معیشت کی تباہی کے علاوہ خارجہ محاذ پر کشمیر کے حوالے سے اس حکومت نے ملک کو کاری ضرب لگائی ہے۔ ٹرمپ سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی خوش گمانی میں کپتان نے عجلت میں ورلڈ کپ جیت کر آنے کا خوش کن بیان تو دے دیا مگر دس دن بعد ہی جب مودی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے کرفیو نافذ کیا تو ہمیں ہوش آیا کہ ہمارے ساتھ تو بہت خطرناک ہاتھ ہو چکا ہے۔ اب ہم اپنی ناکامی اور ندامت چھپانے کے لیے کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کے نام پر سرکاری خرچ سے ڈرامے کر رہے ہیں۔

اس میدان میں ہماری غیر سنجیدگی اور طفلانہ پن کا یہ عالم ہے کہ شیخ رشید جیسا غیر متعلقہ آدمی ہر روز انڈیا کو دعوت مبارزت دے رہا ہے اور ہمارے وزیر اعظم اور سپہ سالار مقبوضہ کشمیر کو بھول کر آزادکشمیر پر ممکنہ حملے کے جواب میں اسے ناکو ں چنے چبوانے کی شیخیاں بھگار رہے ہیں۔ کشمیر کے حوالے سے ہماری سفارتی بے بسی کی یہ حالت ہے کہ یو اے ای کے امیر ہمارے وزیر اعظم کا فون سننے کے لیے تیار نہیں اور ہمارے وزیر خارجہ نیپال، بھوٹان، سری لنکا اور مالدیپ کے وزرائے اعظم کو فون کر کے بھارت کے مقابلے میں ہمارا ساتھ دینے کی درخواست کر رہے ہیں۔

وزیرستان کے لیے آپریشن ضرب عضب، سوات کے لیے آپریشن راہِ نجات، کے پی کے لیے آپریشن راہ راست برپا کرنے والے بھارتی جارحیت کے خلاف اللہ تعالٰی کی بے آواز لاٹھی کی دہائی دے رہے ہیں۔ عدلیہ کی وقعت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ جج ارشد ملک کے فیصلوں کی وجہ سے اعلٰی عدلیہ کا سر شرم سے جھکا ہوا ہے۔ جج کو فارغ کردیا گیا ہے مگر نواز شریف کے خلاف اس جج کا متنازعہ فیصلہ اب بھی برقرار ہے۔

ادھر رانا ثنا اللہ کیس کی سماعت کرنے والے جج کو اس وقت دوران سماعت واٹس اپ کے ذریعے تبادلہ کر دیا جاتا ہے جب وہ رانا ثنا اللہ کی ضمانت منظور کرنے والا تھا۔ نواز شریف، آصف زرداری، فریال تالپور اور ن لیگ و پی پی کے بیسیوں قائدین کو جیل مینویل کے مطابق مراعات اور علاج معالجے کی سہولیات نہیں دی جا رہی ہیں۔

تعلیم، صحت اور امن و امان قائم رکھنے والے اداروں کی کارکردگی بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے۔ تعلیمی بجٹ میں کٹ لگانے کی وجہ سے فیسوں میں بھاری اضافہ ہو چکا ہے اور غریب و متوسط طلبہ کا تعلیمی کیرئر تباہ ہو رہا ہے۔ پنجاب میں سرکاری ہسپتالوں میں مختلف ٹیسٹوں کی فیسوں میں بے تحاشا اضافہ کردیا گیا ہے اور غریب مریض ایڑیاں رگڑ رگڑ کے مر رہے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاٶن، ساہیوال، بلدیہ فیکٹری اوربارہ مئی کے متاثرین کو تو کیا انصاف ملنا تھا الٹا اس ایک سال میں سٹریٹ کرائم، ڈاکوں، چوری کی وارداتوں اور دوسرے جرائم میں دس فیصد سے زائد اضافہ ہو چکا ہے۔

تبدیلی کی دعویدار یہ حکومت سویس بینکوں اور دوسرے ملکوں میں پڑے پاکستانیوں کے اربوں روپے کی واپسی کے وعدے سے لے کر سعودیہ میں قید پاکستانیوں کی رہائی، دس ارب درخت، بی آر ٹی کی کم لاگت اور مختصر مدت میں تکمیل، پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر، ٹورازم کی بحالی، اداروں کی اصلاحات، تھانہ کلچر میں تبدیلی، جاگیردارانہ نظام کے خاتمے اور قرض نہ لینے جیسے کپتان کے سیکڑوں سیاسی وعدوں کے بوجھ تلے بری طرح سسک رہی ہے۔ میڈیا کا گلہ اس بری طرح گھونٹا گیا ہے کہ کل رات ایک چینل پر مولانا فضل الرحمان کا انٹرویو بھی نہیں چلنے دیا گیا۔

سیاسی مخالفین کو احتساب کے نام پر انتقام کا نشانہ بنا کر سرِ عام سبق سکھانے اور توبہ کروانے کے دعوے کیے جارہے ہیں۔ میڈیا کی تابع فرمانی اور اطاعت گزاری کا یہ عالم ہے کہ ہر طرف مثبت خبروں کے ذریعے چین ہی چین دکھا رہا ہے۔ اب تک مقتدر حلقے اپنی ساکھ کی قیمت پر حکومتی پیج پر کھڑے اس کی پیٹھ تھپتھپا رہے تھے اور کپتان اور اس کی ٹیم امپائروں کو ساتھ ملا کر کھیل رہی تھی۔ مگر کچھ دنوں سے اس تال میل میں رخنے پیدا ہو رہے ہیں۔

بازی گروں کے مابین اختلافات کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ وکلا تحریک کے لیے پر تول رہے ہیں۔ مولانا اور نواز شریف کو رام کرنے کی تمام کاوشیں ناکام ہو گئی ہیں۔ ایوان وزیر اعظم اور دوسرے حکومتی مراکز میں پر اسرار کرداروں کی آمد و رفت جاری ہے۔ قرائن بتا رہے ہیں کہ تبدیلی کو تبدیل کرنے والی ہوائیں چل پڑی ہیں اور نومبر دسمبر کے مہینے اہم ہیں۔ کپتان کی رخصتی پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ بس تبدیلی کے طریق کار کو حتمی شکل دینا باقی ہے۔

میری ان باتوں کو اگر شیخ رشید کے اکتوبر، نومبر میں انڈیا کے ممکنہ حملے اور وفاق میں ن لیگ ٹو کے قیام کی پیش گوئی سے ملا کر دیکھیں تو مستقبل قریب کا منظر نامہ بڑا واضح ہو جاتا ہے۔ ووٹ کو عزت ملے نہ ملے، کپتان کا جانا ٹھہر گیا ہے۔ کپتان کی جگہ لینے والوں کی دوڑیں اپنی جگہ مگر اس کا بھی حتمی فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).