کاغان کے مسافر


شاہ اسمٰعیل کی قبر سے واپس آیا تو بچّے پریشان تھے، کہ بغیر بتائے نکل آیا تھا اور موبائل بھی کمرے میں چھوڑ آیا تھا۔ ہوٹل کے لان میں ایک فیملی اپنا ناشتا بنا رہی تھی۔ ان کے بچے اوپن ائیر میں ناشتا بننے کے عمل سے اور خوشبودار دھویں سے محظوظ ہو رہے تھے۔ اس طرح کی ایڈونچر سے میری جان جاتی ہے ڈکّی میں کافی سامان رکھنا پڑتا ہے، بندہ سیر سے زیادہ کھانے پکانے کے چکر میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔ ویسے بھی جگہ جگہ ہوٹل کھل گئے ہوئے ہیں اور ہر طرح کا کھانا، ناشتہ اور کھانے پینے کا سامان مل جاتا ہے۔ ہم نے بھی اسی ہوٹل کی لابی میں بیٹھ کر ناشتہ کیا اور ایوب برج پر جا کر بریک لگائی۔ یہ پل ایوب خان نے دریائے کنہار پر بالا کوٹ شہر کے وسط میں تعمیر کرایا تھا۔ زلزلے نے اس پل کو بھی نقصان پہنچایا مگر یہ پھر سے اسی طرح فنکشنل ہو گیا ہے، جیسے پہلے تھا۔

دریائے کنہار پر واقع یہ پل وادی کاغان کو باقی پاکستان سے ملاتا ہے۔ پل کراس کرتے ہی دائیں جانب ایک جیپ ٹریک آپ کو کوپرڈنہ لے جاتا ہے۔ آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع کوپرڈنہ ایک خوبصورت جنگل سے بھرپور ٹھنڈا مقام ہے، مگر عمودی چڑھائی اور چھوٹو کی طبیعت خرابی، ہمیں واپس لے آئی۔

ہمارا اگلا پڑاؤ کیوائی تھا۔ ہمارا ارادہ کیوائی سے جیپ لے کر شوگران اور سری پائے جانے کا تھا۔ بد قسمتی سے کیوائی کے پل پر حادثے کی وجہ سے روڈ بلاک تھا۔ ہم کیوائی سے چار کلو میٹر پیچھے رکی گاڑیوں کی لمبی لائین میں سب سے آخر میں رک گئے۔ شکر ہے پارکنگ سڑک کے کنارے گھنے درختوں کے سائے میں نصیب ہوئی۔ کوئی تین گھنٹے سے ٹریفک بند تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے پیچھے بھی سینکڑوں گاڑیاں، کچھ قطار میں، اور کچھ بے ترتیبی سے سڑک روکنے میں مصروف ہو گئیں۔

تقریباً دو گھنٹے ٹریفک کھلنے کا انتظار کرتے رہے۔ ہم بالا کوٹ سے بیس کلو میٹر آگے تھے۔ ٹریفک کھلی، مگر کھلتے کھلتے مزید آدھا گھنٹہ ان لوگوں کی وجہ سے رواں نہ ہو سکی، جو دونوں سائیڈوں پر سڑک کی پوری چوڑائی روکے کھڑے تھے۔ ہم گاڑیاں خرید تو لیتے ہیں، مگر گاڑی پارک کرنے کی تمیز نہیں کیونکہ تمیز پیسوں سے نہیں ملتی، سیکھنی پڑتی ہے۔ ہمیں تمیز سیکھنے کے لئے شاید اور سو سال کا عرصہ درکار ہوگا۔ آخر کار پولیس آئی تو گاڑیاں قطار میں آئیں اور ٹریفک رواں ہو سکی۔

کیوائی بالا کوٹ سے تیئس کلومیٹر جانب ناران ایک خوشنما اور پرکیف مقام ہے۔ یہاں رکے بغیر شاید ہی کوئی سیاح آگے بڑھ سکتا ہو۔ دراصل پنجاب اور سندھ کے گرم میدانی علاقوں سے سیاح وادی کاغان آتے ہی ٹھنڈی ہواوں، آبشاروں، جھرنوں اور پرکیف مقامات کے لئے ہیں۔ کیوائی کو اصل میں کاغان کا نقطہ آغاز کہا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ٹھنڈی آبشار کا نام ہے جس کے یخ بستہ پانی میں سیاح اپنے پاوں لٹکا کر بیٹھتے ہیں۔ مئی اور اوائل جون میں یہ پانی اتنا یخ ہوتا ہے کہ ایک منٹ سے زیادہ آپ اس میں ہاتھ یا پاوں نہیں رکھ سکتے۔

یہاں کئی چھوٹے چھوٹے ہوٹل بن گئے ہیں۔ ان ہوٹل والوں نے پتھر ڈال کر آبشار کو اپنی مرضی سے ڈھال کر بیٹھنے کے لئے چارپائیاں بچھا دی ہیں۔ ان چارپائیوں پر بیٹھنے کے لئے لازم ہے کہ آپ کچھ نہ کچھ خریداری کریں۔ ان کے پاس چائے پکوڑے اور چکن مل جاتا ہے۔ ان کے پکوڑے کھانا جان جوکھوں کا کام ہے۔ اتنے بد مزہ پکوڑے آپ کو اسی خوبصورت مقام پر ملتے ہیں۔ سچی بات ہے میں نے آج تک اتنے برے پکوڑے پہلے کبھی نہیں کھائے تھے۔ سفر سے واپسی پر کاغان کی دو چیزیں جو مجھے یاد ہیں ان میں ایک سیف الملوک کی کہانی اور دوسرے یہ پکوڑے ہیں۔ کیوائی میں آپ اپنی گاڑی کھڑی کرکے شوگران اور سری پا ئے جا سکتے ہیں۔

کیوائی سے شوگران صرف چھ کلو میٹر دور پہاڑ پر واقع ایک خوبصورت سبز میدان ہے۔ اگرچہ بھور بن کی طرح جو کبھی اسی طرح خوبصورت میدان ہوا کرتا تھا، شوگران بھی انسان گردی کا شکار ہو گیا ہے۔ جہاں انسان نے میدانی علاقوں میں کارخانے لگا کر گندی گیسیں پیدا کی ہیں اور صاف ستھرے دریا اور نہریں صنعتی فضلے سے آلودہ کر دی ہیں، وہیں پہاڑوں کی خوبصورت ڈھلوانوں اور میدانوں کے جنگل کاٹ کر بڑے بڑے ہوٹل تعمیر کر دیے ہیں۔

ان ہوٹلوں کے کچن اور واش رومز کے پانی کا کوئی باقاعدہ نکاس نہیں۔ ان کا ویسٹ ہوٹلوں کے پچھواڑے خوبصورت وادیوں میں بدبو کا ذریعہ بن گیا ہے۔ شوگران بھی کبھی قدرتی حسن کا ایک مکمل نمونہ تھا۔ پھر ایک ہوٹل پائین پارک بنا، جس کی بعد میں اکسٹینشن کی گئی۔ اگرچہ شوگران میں یہی ایک قابل ذکر اچھا ہوٹل ہے مگر اس کے پچھواڑے بھی گندے پانی کے چھوٹے چھوٹے جوہڑ بنے رہتے ہیں۔ شوگران سے سری پائے جاتے ہوئے آپ کو زوردار بدبو کا بھبکا یہ احساس دلاتا ہے کہ انسان قدرتی حسن اور خوبصورتی کا سب سے بڑا قاتل ہے۔

آپ اس بدبو سے بچ نہیں سکتے، بشرطیکہ آپ کو نزلہ نہ لگا ہو۔ اس بار شوگران کی ہئیت کافی بدلی ہوئی تھی۔ کئی نئے ہوٹل شوگران کے قدرتی حسن کو مزید ماند کئیے کھڑے تھے۔ موسم بہت خوبصورت تھا جو اہستہ آہستہ خطرناک ہوتا جا رہا تھا۔ جلد ہی بارش شروع ہوگئی۔ مون سون پنجاب میں بھی کھل کر برستی ہے، یہاں مگر کالے بادلوں نے دن کو رات بنا دیا تھا۔ شوگران سے کیوائی روڈ کبھی بہت اچھی ہوتی تھی، اتنی کہ بس بھی آرام سے آجاتی تھی۔

اگرچہ یہ سنگل روڈ ہے اور یہاں کراسنگ کافی مشکل ہے، لیکن روڈ جس حالت میں پہلے پہل تھی، اس میں اپنی گاڑی پر آپ آسانی سے شوگران تک آ سکتے تھے۔ اب بھی آپ اپنی گاڑی پر شوگران آسکتے ہیں بشرطیکہ آپ کی گاڑی اور آپ کی اپنی انشورنس ہو تو؟ سڑک اتنی ٹوٹ چکی ہے اور کئی مقامات پر کچی مٹی کی وجہ سے اتنی دھول اڑتی ہے کہ سانس گھٹنے لگتا ہے اور بارش ہو رہی ہو تو گاڑی سلپ ہونے کا خطرہ لگا رہتا ہے۔

دیکھتے ہی دیکھتے بارش طوفان میں بدل گئی، شدید ژالہ باری نے ہمیں گھیر لیا۔ شام ڈھل چکی تھی اور ہم نے سری پائے جانا تھا۔ جیپ والوں نے بھی ہاتھ کھڑے کر لئے تھے لہٰذہ ہم نے شوگران میں ہی شب بسری کا فیصلہ کر لیا۔

پائن پارک ہوٹل کے دو حصّے ہیں۔ ایک پرانا جو جنگل کی طرف ہے، اس کی کھڑکیاں جنگل کی طرف کھلتی ہیں۔ دوسرا نیا حصہ جو جدید طرز تعمیر کا نمونہ ہے۔ دونوں کے بیچ ایک بڑا گرین پارک ہے، جو اس ہوٹل کے حسن کو دوبالا کرتا ہے۔ ہم پرانے حصے میں ٹھرے، تاکہ کھڑکی سے جنگل کا نظارہ کیا جا سکے۔

شوگران سطح سمندر سے کوئی آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور مئی تا ستمبر سیاحوں سے بھرا رہتا ہے۔ کھانے پینے کی اشیا آسانی سے دستیاب ہو جاتی ہیں۔ سستے یا مہنگے ہر طرح کے ہوٹل مل جاتے ہیں۔ ٹیلیفون البتہ صرف ٹیلینار اچھا چلتا ہے یا موبلنک جس کے سگنل مرضی سے آتے ہیں۔ ہم رات گئے ہوٹل کے لان میں خوشگوار یادیں تازہ کرتے رہے کہ یہاں جب بھی آئے ایک نیا تجربہ ہوا۔ ہر بار پہلے سے زیادہ خوشگوار احساس ہوا، ہر بار پہلے سے زیادہ اچھا موسم ملا۔

شوگران سے چھ کلو میٹر اوپر سری پائہ ایک پرفضا، انتہائی خوبصورت اور دلکش مقام ہے۔ پہاڑ کی چوٹی پر دور تک سر سبز میدان دعوت نظارہ دیتا ہے۔ جگہ جگہ درختوں کے جھنڈ، ڈھلوان اور چڑھائی کا خوشنما امتزاج آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے۔ یہ جگہ اکثر بادلوں سے ڈھکی رہتی ہے۔ یہاں سے آپ تیرہ ہزار فٹ بلند برف پوش مکڑا پیک کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ سارا سفر ایک جنگل سے ہو کر گزرتا ہے۔ راستہ ناہموار اورسڑک تنگ ہے۔ جیپ مسلسل جھٹکے لگاتی ہے۔

یہاں کسی جیپ میں سیٹ بیلٹ نہیں ہوتی۔ یہ جیپیں اتنی ہی پرانی اور مضبوط ہیں جتنے یہ پہاڑ۔ آپ نے جتنا بھی کھانا کھایا ہو، بھلے آپ نے کچا گوشت اور دال کیوں نہ کھائی ہو، شوگران سے پائے تک جاتے جاتے سب ہضم ہو جاتا ہے۔ راستے میں گندے پانی کا ایک تالاب آتا ہے جسے سری جھیل کہتے ہیں۔ پنجاب میں برسات کے دنوں میں اس طرح کی جھیلیں آپ کو ہر گاؤں اور شہر کے ہر محلے میں بنی نظر آجاتی ہیں۔ سری جھیل لیکن اتنی فوٹو جینک ہے کہ پوری دنیا میں اس کی تصویریں بکتی ہیں۔ دراصل آپ پائے پر کھڑے ہو کر ایک خاص زاویہ سے سری جھیل کی تصویر لیں یا اسے غور سے دیکھیں تو یہ اتنی خوبصورت نظر آتی ہے کہ کوئی بھی اور جھیل اس کی خوبصورتی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).