نیشنل ایکشن پلان: ’وزیر اعظم سے سفارشات کی منظوری کے بعد عملدرآمد شروع کر دیا جائے گا‘


نیشنل ایکشن پلان

وفاقی وزیرِ داخلہ اعجاز شاہ کے مطابق وزیر اعظم سے منظوری کے بعد نیشنل ایکشن پلان کی سفارشات پر عملدرآمد شروع کر دیا جائے گا (فائل فوٹو)

وفاقی وزیرِ داخلہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ نے کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد سے متعلق کاغذی کارروائی مکمل ہو چکی ہے اور وزیرِ اعظم کی طرف سے سفارشات کی منظوری کے بعد ان کو نافذ کرنا شروع کر دیا جائے گا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کو مزید موثر بنانے کے لیے 14 گروپ بنائے گئے تھے جس میں چھ گروپس میں ملک بھر سے ایسے 150 افراد کو شامل کیا گیا ہے جو شدت پسندی کے خاتمے میں مہارت رکھتے ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ ان گروپس میں پولیس اور خفیہ اداروں کے حکام کے علاوہ دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بھی شامل ہیں۔ وزیر داخلہ نے بتایا کہ دیگر آٹھ گروپس میں بھی ماہرین کو شامل کیا گیا ہے جس میں مذہبی سکالرز کے علاوہ ماہرِ تعلیم بھی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’قومی ایکشن پلان سست روی کا شکار ہے‘

حکومت کا قومی ایکشن پلان کی ازسرِنو تشکیل کا فیصلہ

نیشنل ایکشن پلان: ’شدت پسندی کے واقعات میں 75 فیصد کمی ہوئی ہے‘

اعجاز شاہ کے مطابق اس سے پہلے نیشنل ایکشن پلان کے نکات پر غور کرنے کے لیے یہ معاملات کبھی وزیر اعظم اور کبھی انسداد دہشت گردی کے محکمے یعنی نیکٹا کے پاس بھجوائے جاتے تھے لیکن اس پر کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی تھی۔

اُنھوں نے کہا کہ عمران خان نے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے معاملات کی نگرانی اُنھیں (اعجاز شاہ) سونپی ہے جبکہ اس سے پہلے اس کی نگرانی وزیر اعظم خود کرتے تھے۔

واضح رہے کہ وزیر داخلہ نے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ نینشل ایکشن پلان پر عمل درآمد سے متعلق تیار کی جانے والی سفارشات 30 اگست کو وزیر اعظم کو پیش کریں گے۔

وزارت داخلہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتنایا کہ موجودہ حکومت نے سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے دور میں بنائے گئے نیشنل ایکشن پلان میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کیا۔

اُنھوں نے کہا کہ ان نکات میں اضافہ یا کمی کرنے کی بہت سی وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چونکہ حکومت کے پاس پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت نہیں ہے اس لیے سابق حکومت کی طرف سے پارلیمنٹ سے متفقہ طور پر منظور کروائے گئے پلان پر ہی فوکس کیا گیا ہے تاہم اس میں موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترجیحات میں ردوبدل کیا گیا ہے۔

نیشنل ایکشن پلان

NATIONAL ASSEMBLY OF PAKISTAN
’نیشنل ایکشن پلان کو مزید موثر بنانے کے لیے ایسے 150 افراد کی خدمات لی گئیں ہیں جو شدت پسندی کے خاتمے میں مہارت رکھتے ہیں‘

وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق شدت پسند اور کالعدم تنظیموں کے خلاف سکیورٹی فورسز کا آپریشن جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ اہمیت جس نکتے کو دی گئی ہے وہ کریمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات لانا ہے۔

اس سے پہلے نینشل ایکشن پلان میں کریمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات کے نکتے کو سب سے آخر میں رکھا گیا تھا۔

اہلکار کے مطابق اس کے تحت ملک بھر میں انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ ان کو مذید متحرک کرنے کے بارے میں بھی فیصلہ کیا گیا ہے اور اس ضمن میں ان عدالتوں میں ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار سے متعلق عدالت عظمی سے بھی مشاورت کی جا رہی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ کریمنل جسٹس سسٹم کے تحت سرکاری گواہوں اور شدت پسندوں کے خلاف مقدنات کو سماعت کرنے والوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے موثر اقدامات اور ان پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق کریمنل جسٹس سسٹم کے تحت انسداد دہشت گردی کی عدالتیں اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ مقدمات کا فیصلہ 30 روز میں کیا جائے اور کسی صورت میں بھی مقدمات کو التوا میں نہ ڈالا جائے۔

اہلکار کے مطابق فوجی عدالتیں غیر فعال ہونے کی وجہ سے ان عدالتوں سے مجرموں کو ملنے والی سزاوں پر عمل درآمد اس طرح نہیں ہو پا رہا اس لیے انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کی تعداد بڑھانے اور ان کو مزید فعال بنانے کے لیے تجاویز دی گئی ہیں۔

فوجی عدالتوں کی مدت میں پارلیمنٹ سے توسیع نہ ملنے کی وجہ سے ان عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کو واپس وفاقی حکومت کو بھجوانے کے سوال پر وزارت داخلہ کے اہلکار نے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔

واضح رہے کہ چند ماہ قبل لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران فوج کی جیک برانچ کی طرف سے ایک خط پیش کیا گیا تھا کہ فوجی عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کو واپس وفاقی حکومت کو بھجوایا جائے گا جہاں سے وہ متعلقہ صوبوں کو واپس کر دیے جائیں گے۔

نیشنل ایکشن پلان

NAWA I WAQT
وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق نیشنل ایکشن پلان کے ان نکات کو مزید موثر بنانے کے لیے وزارت قانون، وزارت خزانہ اور وزارت تعلیم کی تجاویز کو بھی شامل کیا گیا ہے

مختلف صوبوں کی طرف سے شدت پسندی کے مقدمات وزارت داخلہ کے توسط سے ہی فوجی عدالتوں کو بھیجے جاتے تھے۔

وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق شدت پسندوں کی مالی معاونت کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کرنے پر بھی زور دیا گیا ہے جس میں ایف آئی اے کے علاوہ سٹیٹ بینک اور خفیہ ایجنسیاں بھی اس سلسلے میں معاونت کریں گی۔

واضح رہے کہ سٹیٹ بینک نے مختلف نجی بینکوں کو مختلف امور کی مد میں جرمانے بھی کیے ہیں جس میں یہ معاملہ بھی شامل ہے کہ متعقلہ حکام نے ان کے بینکوں سے ان افراد کے اکاونٹس میں ٹرازیکشنز جاری رہی جو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے فورتھ شیڈول میں ہیں اور جن کے بارے میں یہ واضح ہدایات تھیں کہ اگر ان افراد کے اکاؤنٹس میں کوئی ٹرازیکشن ہوں گی تو وہ سٹیٹ بینک، متعقلہ پولیس یا ایف آئی اے کو اس بارے میں آگاہ کریں گے۔

سٹیٹ بینک کے ترجمان عابد قمر نے بی بی سی کو بتایا کہ بینکوں کو جرمانے مختلف مد میں کیے گئے ہیں جس میں اُنھوں نے شیڈول فور میں شامل افراد کے اکاؤنٹس میں ٹرازیکشن کے معاملے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا۔

وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق نیشنل ایکشن پلان کے ان نکات کو مزید موثر بنانے کے لیے وزارت قانون، وزارت خزانہ اور وزارت تعلیم کی تجاویز کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق مدارس کی رجسٹریشن اور اس میں کی جانے والی اصلاحات پر عمل درآمد اور ان کی نگرانی کے بارے میں بھی ایک طریقہ کار بنایا گیا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ صوبوں کی سطح پر نینشل ایکشن پلان پر عمل درآمد سے متعلق مہینے میں کم از کم دو بار اعلی حکام کا اجلاس بلائے جانے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ ضلعی سطح پر بھی ہفتے میں ایک بار متعلقہ حکام کا اجلاس بلانے کے بارے میں کہا گیا ہے۔

وزارت داخلہ کے اہلکار نے توقع ظاہر کی ہے کہ رواں ماہ میں ہی وزیر اعظم کی منظوری کے بعد نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد شروع کر دیا جائے گا۔

اہلکار کے مطابق اکتوبر میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا اجلاس ہو رہا ہے اور اس سے پہلے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کرکے ایک مثبت رپورٹ پیش کی جائے گی۔

فناشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھا ہوا ہے اور حکومت اس لسٹ سے نکلنے کے لیے کالعدم اور شدت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے تاہم ایف اے ٹی ایف کے حکام ان کاوشوں سے مکمل طور پر مطمئن نظر نہیں آتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp