غلام اسحاق خان اور ان کے داماد


عظیم لیگ اسپنر عبدالقادرکا بیٹا ستمبر 2013 میں جوا کھیلنے کے الزام میں گرفتارہوا ۔ اس بارے میں ٹی وی چینلوں پرجب ان سے پوچھا گیا تو انھوں نے صاف طور سے مان لیا کہ ’ ہاں! میرا بیٹا جوا کھیلتا ہے، جس پر مجھے شرم آتی ہے، اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔‘ بیٹے کی غلط کاری بغیرحیل وحجت تسلیم کرلینا بڑے دل گردے کا کام ہے۔قران پاک میں مال ودولت کے ساتھ ساتھ اولاد کو بھی بڑی آزمایش کہا گیا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بڑے بڑے اصول پسند اولاد کے معاملے میں ڈھے جاتے ہیں اور ان کے کردہ گناہ کی تاویل ڈھونڈ لیتے ہیں۔ عبدالقادر نے چند ماہ پہلے ہمیں دوبارہ اس وقت حیران کیا جب انھوں نے اپنے داماد عمر اکمل کے پاکستان ٹیم سے ڈراپ ہونے کا باعث اس کی اپنی حرکتوں کو قرار دیا ۔

ہمارے معاشرے میں داماد کے غلط فعل کو غلط قرار دینا بیٹے کے برے عمل کے رد سے زیادہ مشکل ہے مگرعبدالقادر نے یہ کام بھی کیا۔ اپنے داماد کی طرف داری وہ یہ کہہ کر کرسکتے تھے کہ کون سا کھلاڑی ہے جوڈسپلن نہیں توڑتا؟ آخر اسی بنیاد پر وسیم اکرم نے ڈسپلن توڑنے پر کھلاڑیوں کے ٹیم سے اخراج کی مخالفت کی تھی۔

عبدالقادر نے داماد کے منفی عمل سے برات کا اعلان کیا تو مجھے سابق صدرغلام اسحاق خان یاد آگئے جنھیں ہمارے یہاں بہت اصول پسند اور دیانت دار آدمی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ جب وہ اٹھاون ٹو بی کا کوڑا ہاتھ میں لیے ایوان صدر میں براجمان تھے تو ان کے داماد عرفان اللہ مروت کا ایک معروف سیاسی خانوادے کی خاتون کے ساتھ ریپ میں ملزم کے طور پر نام آ گیا۔ خاتون نے داماد صاحب کو اس واقعہ کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ اس ’’ایماندار ‘‘ آدمی نے داماد کو بچانے کے واسطے وہ سب کچھ کیا جو بارسوخ لوگ کرتے ہیں۔ صحافیوں نے جب یہ پوچھا کہ ’’جناب آپ کے داماد پرجو الزام لگایا گیا ہے اس پرآپ کا کیا ردعمل ہے؟‘‘ اس سوال پر اسحاق خان برا مان گئے اورکہا ’’میرے داماد کو چھوڑئیے ، اوروں کے داماد کیا کر رہے ہیں؟‘‘ اس جواب سے ان کی نام نہاد اصول پسندی کا پول کھل گیا۔ اس واقعہ کے بعد الطاف گوہرکی غلام اسحاق خان سے ملاقات ہوئی تو انھیں مظلوم خاتون کے باپ کا خط پڑھ کرسنانے کے بعد سابق صدر نے فرمایا :

سارے خط میں کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ خاتون کے ساتھ ’’زنا بالجبر‘‘کیا گیا ہے۔ یہ شکایت کی گئی ہے کہ ان کی صاحب زادی کو ’’مولسٹ ‘‘کیا گیا ہے ۔ آپ مجھ سے زیادہ انگریزی جانتے ہیں ’’مولسٹ ‘‘ سے زنا بالجبرکے معنی لینا سراسرغلط ہے۔‘‘میں حیران رہ گیاکہ صدر مملکت سارے گھناؤنے معاملہ کو چھوڑ کر لفظوں کے چکر میں پڑے ہوئے تھے ، جب انھوں نے مجھے لغت سے ’’مولسٹ‘‘ کے معنی پڑھ کر سنائے تو مجھ سے نہ رہا گیا، میں نے عرض کیا’’جناب لغت سے ’’مولسٹ ‘‘کے معنی ایذا اور تعرض کے ہیں مگر جس واقعے کے حوالے سے یہ لفظ استعمال ہوا ہے اس کا مطلب سوائے درندہ پن کے اور کچھ نہیں ۔ ‘‘کہنے لگے کیسے؟ میں نے کہا ’’جناب صدر عام گفتگو میں جب یہ کہا جائے کہ فلاں خاتون سے ’’زیادتی ‘‘ ہوئی تو ہر شخص ’’زیادتی ‘‘کا مطلب سمجھ جائے گا۔‘‘(الطاف گوہر کے کالم’’عذرگناہ بدتراز گناہ‘‘ مشمولہ’لکھتے رہے جنوں کی حکایت‘صفحہ159)

سابق سنئیربیوروکریٹ روئیداد خان نے اپنی کتاب میں غلام اسحاق خان کا ذکر بہت اچھے لفظوں میں کیا ہے مگر دامادوں کی بیجا حمایت پر وہ بھی ان پر تنقید کرتے ہیں۔ ان کے بقول

:ایک روز غلام اسحاق خان، جی ایچ کیو کی کسی میٹنگ سے واپس آئے تومجھے بتلایا کہ میٹنگ میں انھوں نے اپنے داماد کا کیسا پرجوش دفاع کیا۔ مجھے یہ سن کر سخت وحشت ہوئی۔ ‘‘اس بیان سے یہ واضح نہیں ہو رہا کہ غلام اسحاق خان اپنے کس داماد کا دفاع کر کے آئے تھے کیونکہ بقول روئیداد خان ،’’ایک تاثر یہ بھی ہے کہ غلام اسحاق خان اپنے بعض دامادوں کی حمایت وکالت ضرورت سے زیادہ کرتے تھے، یہ ان کی دکھتی رگ تھی۔‘‘ان بعض دامادوں کا نام روئیداد نے نہیں لکھا ، لیکن ماضی میں عرفان اللہ مروت کی طرح ان کے ایک اورداماد انورسیف اللہ بھی کرپشن کے الزامات کی وجہ سے خبروں میں رہے۔اور اب پانامہ لیکس سے پتا چلا ہے کہ آف شور کمپنیوں کی ملکیت کے معاملے میں سیف اللہ خاندان سب سے آگے ہے، جس کے سات افراد کے نام 34 کمپنیاں ہیں،اور ان میں انور سیف اللہ کا نام بھی شامل ہے۔

غلام اسحاق خان نے اقتدار کی غلام گردشوں میں لمبا عرصہ گزارا لیکن اپنے مشاہدات قلمبند کرنے سے گریزاں رہے ،جس کی وجہ بھی داماد صاحبان ہی ٹھہرے۔ معروف صحافی حامد میرکے بقول ، ان کے کتاب نہ لکھنے کی وجہ بھی ان کے سیاسی داماد ہی بنے کیونکہ موصوف کا خیال تھا کہ یہ نہ ہو کہ ان کے لکھے سے دامادوں کا سیاسی نقصان ہوجائے ۔ غلام اسحاق خان کو جتنی فکراپنے دامادوں کی تھی اتنی جمہوریت کی ہوتی تو اس ملک کی تاریخ مختلف ہوتی۔

الطاف گوہر صدر ایوب خان کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے

غلام اسحاق خان نے اپنے منصب کا لحاظ کئے بغیرانتخابات میں دھاندلی کا کلچر پروان چڑھایا ۔آئی جے آئی بنانے کے منصوبے میں پوری طرح شریک رہے۔ دو منتخب حکومتیں کرپشن کے الزامات لگا کر ختم کیں اور یہ بات کوئی راز نہیں کہ پاکستان میں اٹھاون ٹو بی کا استعمال ہمیشہ فوج کے ایما پر ہوا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کرپشن کے الزامات پر فارغ کی، پر آگے چل کر آصف علی زرداری سے نگران وفاقی وزیر کا حلف لینے میں عار محسوس نہ ہوئی۔ پیپلز پارٹی سے نفرت میں جام صادق علی کو سندھ پر مسلط کیا اور بقول ارد شیر کاوس جی یہ بھی نہ سوچا کہ اس سے عوام کس قدر گھاٹے میں رہیں گے۔ اس سارے کے باوجود اسمبلی توڑ صدر کو داد وستد کا کھرا قرار دیا جاتا ہے۔

اب اگر کوئی قلم کار یہ بات لکھ دے کہ کرپشن صرف مالی نہیں ہوتی تو اسے عمران خان کی طرف اشارہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہ بات اصول کی ہے اور لکھنے والے اسے عمران خان کے سیاسی ابھار سے پہلے بھی بیان کرتے رہے ہیں۔ بارہ برس ہوئے، وجاہت مسعود نے اکتوبر 2006 میں غلام اسحاق خان کی موت کے موقع پر یہ نکتہ اٹھایا تھا:

’’ پاکستان میں ان خانہ ساز دانشوروں کی کمی نہیں رہی جو غلام اسحاق خان کی مفروضہ مالی دیانت داری کو ان کی قائد انہ صلاحیتوں کی دلیل بناکر پیش کرتے تھے۔ بدعنوانی کو مالی خورد برد یا رشوت ستانی تک محدود کرنا انسانی معاشرے کی پیچیدہ نوعیت اور جدید اداروں کے کردار سے لاعلمی کی نشانی ہے۔مالی بد عنوانی بے شک معاشی اور سماجی ترقی کے لیے زہر کا درجہ رکھتی ہے تاہم مہذب معاشرے میں سب سے خطرناک انفرادی بدعنوانی کسی حکمران کے اقتدار کا ناجائز ہونا ہے ۔ اجتماعی سطح پر بدعنوانی کی بدترین صورت اداروں کا اپنے آئینی دائرہ کار سے تجاوز کرنا ہے۔‘‘
Sep 24, 2018


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments