گوجرانوالہ اور پھر پونا والے: تم بالکل ہم جیسے نکلے


ان دنوں اسپین کے کناری جزائر میں گھوم رہے ہیں۔ جسے گرینڈ کناریا کہا جاتا ہے۔ یہ جزائر مراکش کے قریب افریقہ کے شمال مغرب میں ہیں اور اسپین کے زیر تسلط ہیں۔ ان ہی جزائر میں ایک تناریف بھی ہے جہاں آسٹرو فزکس ڈیپارٹمنٹ نے آبزرویٹری بنائی ہے یہاں سے آسمان کا بہتریں نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ آپ تاروں سے باتیں تو نہیں لیکن ان کا مشاہدہ اور ان کی حرکات ضرور دیکھ سکتے ہیں۔ دنیا جہاں سے لوگ اس نظارے کی خاطر یہاں آتے ہیں۔ میں آپ کو ان جزائر کی تاریخ جغرافیہ نہیں بتا رہی یہ سب آپ گوگل کر کے معلوم کر سکتے ہیں۔ میں کوئی سفرنامہ بھی نہیں لکھ رہی۔ میں اپ کو کچھ اور ہی بتانا چاہ رہی ہوں۔

ہم جس ہوٹل میں ہیں اس کا نام ہے ایل گریکو، یہ لاس پالمس پورٹو ریکو میں واقع ہے۔ ہوٹل سے نکل کر دایں ہاتھ پر کچھ دور چلنے کے بعد ایک بازار سا ہے۔ لاین سے دکانیں ہیں کوئی چھوٹی کوئی بڑی۔ یہاں سیاحوں کی دلچسپی کی اشیا دستیاب ہیں۔ تیرنے کا لباس، ٹوپیاں، دھوپ سے بچنے کے لوشنز، تولیے وغیرہ۔ بچوں کے لئے ریت پر کھیلنے کے کھلونے بھی۔

ہم اگلی شام ٹہلتے ہوئے وہاں جا نکلے۔ پہلی دکان پر ایک چمکتی آنکھوں اور سیاہ بالوں والی ایک پیاری سی لڑکی نے خوش آمدید کہا اور مجھے مختلف چیزیں دکھانے لگی۔ میں چیزیں دیکھنے میں محو ہو گئی اور پھر اچانک کانوں میں آشنا سی بولی سنائی دی۔

” اے رک ذرا، میں تیرے کو بولی تھی نا کہ اس کو ایسا نہیں رکھنے کا“

لڑکی اپنے ساتھ کام کرنے والے ایک نوجوان سے مخاطب تھی۔ میں نے ذرا حیران ہو کر اسے دیکھا تو مسکرا کربولی۔

” سوری مڈیم۔ میں اپنے کولیگ سے بات کر رہی تھی۔ “ اس کی مسکراہٹ بھی دلکش تھی۔

” آر یو فرام انڈیا؟ “ میں نے پوچھا۔

” نو میم آئی ایم فرام نیپال۔ لیکن مجھے ہندی آتی ہے“

اب میں اردو اور وہ اپنی ناپختہ سی ہندی میں بات کرنے لگے۔

خریدی ہوئی چیزوں کی ادایئگی کر کے میں اگلی دکان کی طرف بڑھی۔ میرے میاں پرویز ہر مرد کی طرح شوپنگ سے بیزار اکتائے ہوئے ایک کونے میں جا کھڑے ہوئے۔ میں آگے نکل گئی۔ اور گھومتی گھومتی جانے کہاں نکل گئی۔ سمت کا اندازہ نہ ہو سکا۔ دیکھا تو میاں نظر نہیں آئے۔ اگلی دکان پر ایک اور مسکراتی خاتوان نے استقبال کیا۔ ان کی انگلش اور پہلے تجربے سے میں نے بھانپ لیا کہ یہ بھارتی ہیں۔

” میڈم یور ہسبنڈ از لکنگ فور یو“ خاتون نے ہنستے ہوئے مجھے بتایا۔ اور میں نے جھینپ کر چاروں طرف دیکھنا شروع کردیا۔ پرویز دور سے آتے دکھائی دیے اور وہ خاتون بھی ہنستے ہوئے بولیں۔

” آپ پھر مل گئے۔ دیس ایز ڈیسٹینی۔ “

ہم تینوں ہی ہنس پڑے۔

ابھی ہم ہنس ہی رہے تھے کہ نظر ایک سفید بالوں والے سردار جی پر پڑی۔ جو دکان کی چیزوں کی جانچ پڑتال کر رہے رہے تھے اور واضح دکھائی دے رہا تھا کہ وہ مالک ہیں۔ {بعد میں پتا چلا کہ یہاں سے وہاں تک ساری دکانیں انڈین شہریوں کی ہیں۔ یہاں کام کرنے والے بھی نوجوان انڈین یا نیپالی ہیں۔ }

ہم اور آگے بڑھے۔ ایک دکان کے باہر ٹنگے ہوئے ملبوسات نے میری توجہ حاصل کی۔ کرتے نما لباس دیکھنے لگی۔ ان پر کی گئی کڑھائی دیکھ کر شک ہوا۔ اندر لگا ٹیگ دیکھ کر شک یقین میں بدل گیا۔ ہر کرتے پر میڈ ان انڈیا لکھا ہوا تھا۔ کرتے اچھے تھے۔ دل مچلا۔ لیکن کشمیر کی حالیہ صورت حال کے بعد سے بھارتی مصنوعات کا بایئکاٹ کا ارادہ کیا ہوا ہے۔ دل میں ہوک بھی اٹھی کہ ہم بھی تو ایسی کڑھائی اور ایسے ہی کرتے بناتے ہیں تو پھر ہم کیوں اپنی مارکیٹ نہیں بنا پائے۔

دکان پر موجود خاتون مجھے پر امید نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔ میں سوچوں گم تھی۔ برابر کی دکان پر کام کرنے والے ایک صاحب بھی پاہر کھڑے ہوئے تھے اور ان دونوں کی آپس میں گفتگو بھی جاری تھی۔ میں ابھی کیا کروں؟ لوں یا نہ لوں کی کیفیت میں تھی کہ دونوں کی باتوں پر دھیان چلا گیا۔ دوسروں کی باتیں سننا کوئی اچھی بات تو نہیں لیکن وہ سر عام باتیں کر رہے تھے اور میں وہیں قریب ہی کھڑی تھی۔ پہلا جملہ جو میرے کانوں میں پڑا وہ تھا۔

چرن جیت

” ابھی دیکھیے ہم جو پردیس میں کما کما کر بھیج رہے ہیں وہ کہاں جا رہا ہے؟ “ برابر والے صاحب بولے۔

” جی بالکل۔ پے یسے { پیسے }کو ٹھیک جگے پر کھرچ نہیں کرتے نا۔ “ خاتون نے کہا۔

” ای سا { ایسا} دکھائی دیتا ہے کی جنتا پر کچھ کھرچ نہیں ہوتا۔ ایک دم کھراب حالت ہی دیش کی۔ سڑکیں ٹوٹی ہیں۔ ہر چیج دو برابر مہنگا ہو گیا۔ اتنی گندگی ہے کہ کیا بولوں“

خاتوں نے بھی ہاں میں ہاں ملائی

” ہم جو پردیش میں ہیں ان سے جیادہ کماتے ہیں۔ اور یہ سارا پے یسا جانے کہاں کہاں لگا دے رہے ہیں۔ “

” ان کی اپنی جیبوں میں جاتا ہے“ خاتون نے انتہائی دکھ سے کہا۔

” یہ لوگ پنڈتوں اور پجاریوں کو بوہت پیسا دیتے ہیں۔ ان کے مندروں کو سنوارتے ہیں وہ پنڈت آگے اپنے سیواوں سے کہتے ہیں ان کا چناؤ کیجئے۔ مودی جی نے یہی کیا۔ دھرم کے نام پہ لوگوں کو بدھو بنایا۔ اب ان پڑھ جنتا انہیں بھگت رہی ہے۔ “ لفظ بدھو نے بڑا مزا دیا۔ ایک عرصہ بعد یہ لفظ سننے کو ملا۔ کبھی بچپن میں سنا تھا اب تو شاید متروک ہو گیا ہے۔

ان صاحب کی اتنی بات سن کر میں نے غور سے انہیں دیکھا۔ تیس سے چالیس سال کی عمر کے قدرے سمجھدار لگے۔ مجھ سے یہاں صبر نہ ہو سکا اور میں بول پڑی۔

”جناب میں آپ کی بات سے بالکل سہمت ہوں۔ “ مین نے متفق کا لفظ استعمال نہیں کیا یہ سوچ کر کہ شاید یہ لفظ ان کے لئے سمجھنا مشکل ہو۔ انہون نے چونک کر مجھے غور سے دیکھا اور دونوں ہاتھ جوڑ کر نمستے کیا۔

” دیدی آپ کہاں سے ہیں؟ “ وہ دلچسپی سے بولے۔

” آپ بتایئے میں کہاں کی لگتی ہوں؟ “

” آپ شاید انگلینڈ سے آئی ہیں۔ “

” نہیں میں ناروے سے آئی ہوں۔ “

”آپ ہندی ہیں؟ “ اس بار وہ کچھ شک سے بولے۔

” جی نہیں میں پاکستانی ہوں“

” اچھھھھھھا“ ان کا اچھا لمبا ہو گیا۔

میں نے ان کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات تلاشے لیکن وہاں ایسا کچھ نہیں تھا۔ بس وہ کچھ چپ سے ہو گئے۔

” یہ آپ کے مودی جی کیا کرنے جا رہے ہیں؟ “ میں نے ٹوہ لگائی۔

” دیدی کچھ نہیں۔ بس ڈرامہ باجی ہے۔ مفت کا دنگا ہے۔ “

” کیا لڑائی ہوگی“؟

” نہیں نہیں یہ کھالی باتیں ہیں۔ دیدی آپ پاکستان میں کہاں سے ہیں“؟

اب میں انہیں کیا بتاتی کہ میرے اجداد مشرقی پنجاب سے ہجرت کر کے آئے۔ بقول ایک سب پر بھاری سیاستدان کے بھاگے ہوئے لوگ ہیں۔ پنجابی ہوں لیکن کراچی میں پلنے بڑھنے کی وجہ سے خود کو کراچوی سمجھتی ہوں۔ وہ کراچی جو سب کا ہوتے ہوئے بھی کسی کا نہیں۔

” میں کراچی کی ہوں“ میں نے مختصر سا جواب دیا۔

وہ سر ہلا کر رہ گئے۔

میں ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ کشمیر پر ان کی رائے جانوں۔ کچھ گلے شکوے بھی کر لیں اتنی باتوں کے بعد کہ وہ کچھ کھوئے کھوئے سے بولے

” آپ کے دیس میں گجرانوالہ کر کے کوئی جگے ہے؟ “

” جی ہے“

میرے پرکھوں کا گھر گجرانوالہ میں تھا۔ ہم تو اب پونے میں رہتے ہیں ”وہ ایک دم دکھی ہو گئے۔ “ دادا بہت یاد کرتے تھے اپنا دیس۔ ”

اور میں بس سوچ کر رہ گئی ارے بھائی۔ تم بالکل ہم جیسے نکلے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).