کشمیر پر ہماری بات کیوں نہیں سنی جاتی؟


کشمیر کو بزور شمشیربذریعہ جہاد حاصل کرنے کی حکمت عملی کس حد تک کامیاب ہوئی اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے جو اب تاریخ کا حصہ ہے۔ 1947 ء میں قبائلیوں کے ذریعے سری نگر پر قبضے کی کوشش کے بعد 1965 ء کا اپریشن جبرالٹر اور 1999 ء میں کارگل پر قبضہ کرنے کی حکمت عملی سے کیا حاصل ہوسکا اس پر مزید تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں ما سوائے اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے کہ یہ تمام کاوشیں سیاسی حکمت عملی سے یکسر خالی نظر آتی ہیں۔ ان تمام واقعات میں ملک کے عوام تو دور کی بات خاص الخواص کو بھی شاید ہی اعتماد میں لیا گیا ہو۔ زیادہ دور کی بات نہیں 1999 ء کے کارگل میں فوجی اپریشن کو مجاہدین کی کارروائی قرار دے کراس وقت ملک کے وزیر اعظم کو اعتماد میں نہ لینے پر نواز شریف کو آج بھی گلہ ہے۔

1947 ء میں ہندوستان اور پاکستان کی علٰحیدگی کے وقت کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ کے تعلقات شیخ عبداللہ سے انتہائی کشیدہ تھے جو ان کو کسی صورت میں بھی بطور سربراہ ریاست قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔ دوسری طرف طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے بانیان پاکستان خاص طور پر قائد اعظم محمد علی جناح اور نواب زادہ لیاقت علی خان کی ہمدردیاں سابقہ ریاستوں کے نوابوں، راجاؤں اور والیان کے ساتھ تھیں جو بعد تک جاری رہیں۔ ہندوستان میں آزادی کے فوراً بعد ہی تمام ایسی ریاستوں اور جاگیروں کا خاتمہ ہوگیا تھا جن میں سے ایک کشمیر کی ریاست بھی تھی جس کے نتیجے میں مہاراجہ ہری سنگھ کے خاندان کو پہلے اپنی ریاست اور بعد میں آئینی عہدے سے بھی ہاتھ دھونا پڑے تھے۔

انگریز سرکار کا مطمع نظر سویت یونین تھا جہاں سے اٹھنے والی سرخ انقلاب کی تحریک سے ہندوستان کی زمین اور سمندری راستوں کو محفوظ رکھنا تھا جس کے لئے راستہ براہ گلگت کشمیر سے ہوکر گزرتا تھا۔ بادی النظر میں ایک خود مختار یا کم از کم پاکستان کے زیر اثر کشمیر ہی انگریز سرکار کے مفاد میں تھا۔ کشمیر کا ہندوستان کے قبضے میں چلے جانا انگریزوں کی ہندوستان کے لئے مستقبل کی حکمت عملی کے لئے بھی خطرے کا باعث تھا۔

ایسی کسی صورت حال سے نمٹنے کے لئے انگریزوں نے پلان بی بھی بنا رکھا تھا جس پر 26 اکتوبر 1947 ء کو مہاراجا کشمیر کے ہندوستان سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کرنے کے ساتھ ہی شروع ہوا اور یکم نومبر 1947 ء کو گلگت کی علیحیدگی پر منتج ہوا جہاں سے روس اور ہندوستان کے درمیان زمینی ملاپ کا امکان ختم ہوچکا تھا۔

دریائے امو اور دریائے سندھ کے درمیان واقع چلاس، بونجی۔ گلگت، نگر، ہنزہ، پونیال اشکومن، یاسین اور گوپس کے علاقے کو محفوظ کرنے کے بعد انگریزوں کی بقیہ کشمیر کی زمین میں دلچسپی نہیں رہی۔ مہاراجا کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کے بعد کوہ قراقرم، ہندوکش اور ہمالیہ میں پیدا ہونے والی صورت حال سے نہ صرف پاکستان کی قیادت بلکہ ہندوستان کے کرتے دھرتے بھی بے خبر رہے جس کو بعد میں صحافی سنجے ڈکشٹ نے ہندوستان کی ’اصل ہمالیائی غلطی‘ اس بنیاد پر قرار دیا کہ اس کا ہندوستان کو پہنچنے والا نقصان چین کے ساتھ ہونے والی جنگ سے کہیں زیادہ تھا۔

سرکاری طور پرحکومت پاکستان روز اول سے ہی کشمیر کے ایک علیحیدہ ریاست ہونے اور یہاں کے رہنے والے لوگوں کو اپنی الگ شناخت نہ رکھنے کی صورت میں ہندوستان اور پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ شامل ہونے کا اختیار بذریعہ استصواب رائے کا موقف رکھتاہے۔ ہندوستان نے اپنے زیر تسلط کشمیر کی علیحیدہ حیثیت کوختم کردیا جبکہ پاکستان نے اپنے حصے کے کشمیر کی الگ شناخت، اقتدار اعلیٰ اور حیثیت برقرار رکھی۔ پاکستان کے اپنے زیرکنٹرول کشمیر کی اس خصوصی شناخت کو برقرار رکھنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ کشمیر ایک خود مختار ریاست ہے جس کے عوام کا یہ پیدائشی حق ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ بغیر کسی دباؤ کے آزادانہ طور پر کریں۔ پاکستان کشمیر کے بارے میں اپنے اس موقف کو ًکشمیریوں کا حق خود ارادیتً کہتا ہے۔

انگریزوں کے جانے کے بعد کشمیریوں کی دوسری نسل کی ایک تحریک آزادی وجود میں آگئی جس کو حکومت پاکستان کی تائید حاصل رہی۔ اس تحریک میں شامل جماعتوں میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) قابل ذکر ہے جس کی قیادت امان اللہ خان اور مقبول بٹ نے کی۔ اس جماعت کے راہنما اور کارکن اس دور میں رونما ہونے والے پرتشدد عالمی انقلابات سے متاثر تھے اور مسلح جدوجہد پر یقین رکھتے تھے۔ اس جماعت نے بھی پاکستان کے زیر کنٹرول کشمیر کو اپنا کیمپ بنایا اور ہندوستان کے زیر تسلط کشمیر میں کارروائیاں جاری رکھیں۔ 1971 ء میں ایک جہاز کے اغوا کی سازش میں ملوث ہونے پر مقبول بٹ کی تہاڑ جیل میں پھانسی کے بعد جے کے ایل ایف میں پھوٹ پڑ گئی اور یہ جماعت مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوگئی۔ کشمیر کی آزادی کی اس تحریک کو اس کی پر تشدد کارروائیوں کی وجہ سے اقوام عالم کی حمایت حاصل نہ ہوسکی۔

حکومت پاکستان کے ریاستی موقف میں ایک تبدیلی 1990 ء کی دہائی کے آغاز میں ہندوستان کے زیر تسلط جموں و کشمیر میں ہونے والے 987 ء کے انتخابات میں دھاندلی پر تشدد احتجاج سے ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب افغانستان سے روسی افواج کا انخلاءکے بعد ًغزوہ ہندً کے نام پر ایک نیا جہادی سلسلہ شروع ہوا تھا۔ کشمیر کی آزادی کو مذہبی بیانیہ دیا گیا اور غیر ریاستی عناصر کو بھی پر تشدد کارروائیوں میں استعمال کیا گیا۔ اس بار جو سب سے بڑی تبدیلی رونما ہوئی وہ سری نگر سے غیر مسلموں کا انخلاء تھا جس کے بعد جموں سے مسلمانوں کو بھی بے دخل ہونا پڑا اور ریاست عملاً مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہو گئی۔ مذہب کے نام پر شروع کی جانے والی اس تحریک کو بھی اس کی پرتشدد کاروئیوں کی وجہ سے بین الاقوامی طور پر ہمدردی حاصل نہیں۔

جموں اور سری نگر کے علاوہ لداخ، کارگل اور دراس میں رہنے والے بودھ، بلتی اور شینا بولنے والے درد قبائل کی ایک بڑی تعداد جو وادی میں ہونے والے واقعات اور سیاسی ہلچل سے الگ تھلگ رہتی ہے اس کا کشمیر کی آزادی پر موقف کبھی سامنے نہیں آتا۔ پاکستان کے زیر اثر گلگت بلتستان کی طرح یہاں جب بھی انتخابات ہوتے ہیں مقامی آبادی مرکز میں بر سر اقتدار جماعتوں کی حمایت کرتی ہے اور ترقی و خوشحالی کے نعروں پر ووٹ دیتی ہے۔

یہاں سے اکا دکا کوئی اگر انفرادی طور پر کشمیر میں ہونے والے جہاد میں شامل ہوجاتا ہے تو الگ بات ہے مگر اجتماعی طور پر یہاں کشمیر کی آزادی کے لئے مسلح جدوجہد کی حمایت نہیں کی جاتی ہے۔ کشمیر کی لیڈر شپ بشمول فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی سے یہاں کے لوگوں کی بہت سی شکایات ہیں۔ ہمیشہ دہلی میں سرکار بنانے والی جماعت یہاں سے انتخابات جیت جایا کرتی ہے چاہے وہ بی جے پی جیسی انتہا پسند ہندو جماعت ہی کیوں نہ ہو۔ ریاست میں بسنے والی دیگر لسانی، نسلی، مذہبی وحدتیں عملی طور پر آزادی کشمیر کے لئے کی جانے والی جدوجہد سے بیگانگی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ کشمیری قیادت کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں عام لوگ خصوصاً نئی نسل سے تعلق رکھنے والے نوجوان اس بات پر تزبزب کا شکار ہیں کہ ان کا کشمیر کی آزادی پر کیا موقف ہے۔ کیا ہم ریاست کشمیر کے بسنے والوں کا بغیر کسی دباؤ کے اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کے پیدائشی حق کی حمایت کرتے ہیں یا ہم ایک مسلمانوں کی اکثریت پر مبنی ریاست کو بزور شمشیر آزادی دلانا چاہتے ہیں۔

جب تک ہم کشمیر پر ایک واضح اور اصولی موقف نہیں اپناتے اور اس پر گامزن رہتے ہیں اس وقت تک ہماری آوازیں ایک شور تو بن سکتی ہیں مگر ایک طاقت نہیں بن سکتیں اور نہ ہی ہم اجتماعی طور پر کشمیریوں کو ان کا پیدائشی حق خود ارادیت دلانے میں میں کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ ہم کشمیریوں کو ان کا پیدائشی حق خود ارادیت دلانے کے لئے اپنے بنیادی موقف کا ایک بار پھر سے اعادہ کریں اور اس پر کاربند رہیں تاکہ کشمیریوں کی حمایت میں ہمارے مطالبے کو بین الاقوامی اخلاقی اور سیاسی حمایت ہو سکے جس کا اس وقت فقدان ہے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan