مسیحی نکاح اور طلاق کے مسودہ قانون میں تبدیلی کیوں ضروری ہے؟


اس سال 20 اگست کو وفاقی کابینہ نے مسیحی نکاح اور طلاق کے ضمن میں ایک مسودۂ قانون کی اصولی منظوری دے دی۔ قریبا ڈیڑھ سو سال بعد قانون کی تبدیلی میں خوشگوار پہلووں کی توقع تھی مگر شوخیٔ تحریر اس بات کی چغلی کھاتی ہے کہ اس مسودے کی تدوین میں علم اور تجربے کو بالائے طاق رکھا گیا ہے۔

ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان میں بسنے والے لوگوں کے لیے ایسا قانون تجویز ہو کہ محض طلاق کے معاملے پر افغانستان، ایران یا ہندوستان کا قانون لاگو ہوجائے۔ مجوزہ مسودۂ قانون کی دفعہ 49 کے مطابق پاکستان کے مسیحیوں کے لیے انگلستان کا قانون لاگو ہوگا۔

ہمارے ملک میں مذہبی شناخت پرمروجہ کج خیالی کے باعث جو پیچیدگیاں پیدا ہوئیں ان کے پیش نظر کیا یہ ممکن ہے کہ ایک ایسے قانون کی حمایت کی جائے جس میں عقیدے کی شرائط بنانے یا بتانے کی حماقت کی گئی ہو۔ کیا اس (دفعہ 2 ایف) کا نتیجہ اس سوال سے مختلف ہو گا جو جسٹس منیر انکوائری میں ان لوگوں سے کیا گیا تھا جو کسی کو ”غیر مسلم۔ “۔ کہنے پر بضد تھے۔ ایسے کٹ اینڈ پیسٹ پر اعتراض کرنا تو ہر ذی شعور پر واجب ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ 2019 کے پاکستان میں کسی قیدی کو کالے پانی (سمندر پار) بھیجا جاسکے۔ ماسوائے کہ قانون کا مسودۂ آنکھیں بند کر کے تحریر و تسلیم کیاگیا ہو۔

اگر مسودۂ قانون میں بعض کلیسیاؤں (فرقوں ) کو سرکاری قبولیت دینے کی غلطی کی گئی ہو تو اس کا انجام کسے ِ معلوم نہیں۔ جو گروہ تسلیم نہیں کیے جائیں گے ان کے اور سرکاری طور پر تسلیم کردہ فرقوں کے درمیان ایک رسہ کشی شروع ہوجائے گی۔ یوں قانون بذات ِخود تقسیم اور آپسی کشاکش کا ذریعہ بن جائے گا۔ ایسے رجحان کا پیش خیمہ بننے والے مسودۂ قانون میں تبدیلی ضروری نہیں؟

عقیدے کی آزادی اجتماعی کم اور کئی لحاظ سے انفرادی حق ہے۔ عقیدے کی آزادی، نکاح وغیرہ جس کا محض جزو ہے، اسے کسی فرقے کی رکینت سے منسوب اور مشروط نہیں کیا جاسکتا یہ محض اس کی ادارہ جاتی ضرورت ہے۔

یہ بھی ہیں ایسے کئی اور بھی مضموں اس مسودہ قانون کا حصہ ہیں جنہیں پارلیمنٹ میں بھیجنے سے پہلے درست کر لینا حکومتی پارٹی بلکہ ملک اور ہر کسی کے مفاد میں ہے۔ لیکن جس حالت میں یہ مسودۂ قانون دو وفاقی وزارتوں اور کابینہ کی منظوری حاصل کر گیا۔ اگر پارلیمنٹ سے بھی منظور ہو گیا تو شادیانے بجانے والے کیا جواب دیں گے۔

کسی مسودۂ قانون کی حمایت تو وہ شخض کر سکتا ہے جس نے یقین کرلیا ہو کہ یہ ایک بہترین قانون ثابت ہوگا یا ان سے مسودۂ قانون بنانے میں مشاورت یا مدد لی گئی ہو ا اور وہ اخلاقاً اس بل کی حمایت کرنے پر مجبور ہو۔ اگر ایسا کچھ بھی نہیں تو کیا ڈیڑھ سو سال بعد آنے والے اس موقعہ کو کیاکسی نعرہ بازی یا غیر سنجیدہ بات نذر کیا جاسکتا ہے؟

اس لیے ضروری ہوگا کہ قانون کی تیاری میں قانون اور معاشرت کے گہرے فہم سے استفادہ کیا جائے اور پھر قانون سازی کا عمل عوام الناس کو قانون کی تفصیلات سے آگاہ کر تانظر آئے تاکہ قانون پرعمل درآمد آسان ہو۔ یہ بات تو طے شدہ ہے کہ سول لاء کو کسی مذہبی تاویل کے تابع نہیں ہونا چاہیے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ مذہبی قیادت میں جولوگ زمانہ حاضر کے تقاضوں کا ادراک رکھتے ہیں جدیدیت کی مخالفت نہیں کرتے۔

ادارہ برائے سماجی انصاف اور پیپلز کمیشن فار مائینارٹیز رائٹس نے ماہرین کی مدد سے مسودہ قانون میں نظری اور تیکنیکی مسائل کی نشاندہی کی ہے۔ اور پچاس کے لگ بھگ تجاویزوفاقی وزارتِ انسانی حقوق کو بجھوائی ہیں تاکہ مزید تاخیر سے بچا جا سکے امید کی جاتی ہے اس پر جلدکام کر کے ایک بہتر مسودۂ پارلیمنٹ میں بجھوایا جائے گا۔
اہل نظر کی دلچسپی اور حکومتی کار کردگی کی نگرانی ہمیں کسی ایسی غلطی سے بچا سکتی ہے جو کل شرمندگی کا باعث ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).