اقبال، احتجاجی اور مزاحمتی جمالیات کے موجد


افکارِ اقبالؒ کا نو آبادیات اور اس کے مابعد اثرات پہ ایک وقیع مطالعہ ڈاکٹر آصف بی زیڈ یو ملتان نے، اقبال اور نیا نو آبادیاتی نظام، کے نام سے کتابی صورت میں پیش کیا ہے۔ کتاب اقبالیات کے ذخیرہ میں فقط اضافہ نہیں اقبال کے کلام اور پیام کی ایک نئی جہت مزاحمتی جمالیات کی بازیافت میں اھم پیش رفت ہے۔

تین ابواب پر مشتمل اس کتاب کا پہلا باب، امپیریلزم، نو آبادیاتی نظام، نیا نو آبادیاتی نظام، کے نظریاتی مباحث پہ ہے۔

اس ضمن میں انھوں نے ابتدائی سطور میں اقبال کے حوالے سے لکھا ہے،

تمام ترقی کے باوجود اس زمانے میں ملوکیت کے جبر و استبداد نے، جمہوریت، قومیت، اشتراکیت فسطائیت اور نجانے کیا کیا نقاب اوڑھ رکھے ہیں۔ اور ان نقابوں کی آڑ میں دنیا بھر میں حریت اور شرف انسانیت کی ایسی مٹی پلید ہو رہی ہے کہ تاریخ عالم کا کوئی تاریک سے تاریک صفحہ بھی اس کی مثال پیش نہیں کر سکتا۔

اقبال کے بعد فیض نے اس مزاحمتی اور احتجاجی جمالیات کو فروغ دیتے ہوئے کہا،

امپیریلزم یہ نہیں ہوتا کہ محض کسی ملک کو فتح کیا جائے اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی ک کے ذرائع کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔

اس نظریاتی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے ڈاکٹر آصف لکھتے ہیں عام گفتگو میں نو آبادیاتی نظام سے مراد کسی ایک ملک کا دوسرے ملک پر قبضہ ہے مگر علمی و سیاسی اصطلاح میں امپیریلزم باقاعدہ ایک آئیڈیالوجی کے تحت ہے

جس کی بنیاد تہذیبی مشن پر رکھی گئی ہے۔ اس مشن کا مقصد ہے کہ ترقی یافتہ اقوام پسماندہ اقوام کو مہذب اور ترقی یافتہ بنائیں۔

مغرب چونکہ خود کو ترقی یافتہ سمجھتا ہے اس لیے دوسرے ملکوں پہ قبضہ کے ذریعے اسس نظریہ کی آڑ میں یہ تسلط جاری رکھا اور اب تک ہے۔

باب دوم میں عالمی نو آبادیاتی منظر نامہ اور برصغیر کی صورتحال پر بحث ہے

ان صفحات میں مسلمانوں کے عروج و زوال، مشرق و مغرب کی صلیبی نفسیات اور نیے نو آبادیاتی نظام کا بالواسطہ طریقہ واردات ذکر ہوا ہے۔

افغان سوویت یونین War امریکہ کا جہاد کو پروموٹ کرنے کا فیصلہ 9 / 11 اور اس کی بعد کی صورت حال میں کروٹ لیتا نیا نو آبادیاتی نظام۔

اس ضمن میں بہت سے نظریات اور مفکرین مثلاً کپلنگ اور ہنٹگٹن کے نظریات کا بالخصوص تذکرہ ہے۔

ہر موضوع کے اختتام پر حواشی و حوالہ جات کی فہرست کتاب کی اہمیت اور افادیت کو موثر بنا دیتی ہے۔ تیسرا چیپٹر، اقبال اور ما بعد نو آبادیاتی نظام، پہ ہے۔

اس کے ابتدا میں ڈاکٹر آصف لکھتے ہیں،

سامراجیت و ملوکیت کی بنیاد چونکہ خود غرضی، ذاتی مفاد، ہوس اقتدار، استحصال، استبداد، عیاری و مکاری جھوٹ اور نافقت پر ہے جو حریت و مساوات اور حفظ و اتحاد انسانی کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیتی ہے، اسی لیے یہ سامراجیت کسی بھی روپ میں ہو اسلام اس کے خلاف اعلان جنگ کرنا ہے کیونکہ سامراجیت کی شکست وریخت کے بغیر انسانی وحدت اور حقیقی انسانیت کی تخلیق ممکن نہیں۔

فینن نے بھی تو یہی کہا تھا کہ ”

استعمار کی شکست نئے انسانوں کی حقیقی تخلیق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مہذب بنانے کے مشن میں ملوکیت اور نو آبادیاتی نظام کے جو بھیانل عزائم کار فرما ہیں ان کی روح تک اقبال اپنے گہرے تجزیے مشاھدے اور تجربے کی بنا پر پہنچ چکے تھے

انھوں نے اسلام کو عالمی ثقافتی انسانی تحریک کے طور پر پیش کیا اور معزرتی لب و لہجہ اختیار کیے بغیر اسلام کو مغربی استعمار کے مقابلے ایسے انداز میں پیش کیا جس میں اسلام پورے عالم بشریت کا ضامن بنتا ہے۔

اقبال اپنے خطبات، تشکیل جدید الہیات اسلامیہ ”میں لکھتے ہیں، پچھلے پانچ سو برس سے الہیات اسلامیہ پر جمود کی کیفیت طاری ہے، وہ دن گے جب یورپ کے افکار دنیائے اسلام سے متاثر ہوا کرتے تھے۔ تاریخ حاضرہ کا سب سے زیادہ توجہ طلب مظہر یہ ہے کہ عالم اسلام نہایت تیزی سے مغرب کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس تحریک میں بجائے خود کوئی خرابی نہیں ہے کیونکہ جہاں تک علم وحکمت کا تعلق ہے۔ مغربی تہذیب اسلامی تہزیب ہی کے بعض پہلوؤں کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ لیکن اندیشہ یہ ہے کہ اس تہزیب کی ظاہری تب و تاب کہیں اس تحریک میں حارج نہ ہو جائے اور ہم اس کے حقیقی جوھر، ضمیر اور باطن تک پہنچنے سے قاصر رہیں۔

اقبال کے افکار کی روشنی میں ڈاکٹر آصف اس حوالے سے کہتے ہیں کہ تین روپے ہمارے سامنے موجود ہیں۔

پہلا رویہ، مغربی تہزیب کے مکمل استرداد کا رویہ ہے۔ یہ منفی اور قدامت پرستی پر مبنی ہے۔

دوسرا مغربی تہذیب کی اندھی نقالی، یہ بھی مطلوب نہیں ہو سکتا بل کہ زہر قاتل ہے

تیسرے رویے کو وہ اصلاح پسندی اور آفاقیت کا رویہ کہتے ہیں۔

ان رویوں کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے اقبال کے اقوال، خطبات اور شاعری سے کئی حوالے کتاب کا حصہ ہیں۔

جلوتیان مدرسہ، کور نگاہ، و مردہ ذوق

خلوتیان مے کدہ کم طلب و تہی کدو

بال جبریل

نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں ہے نمود اس کی

کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی

ضرب کلیم

نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہزیب، رنگ

خواجگی نے خوب چن چن کر بنائے مسکرات

بانگِ درا

اقبال نے سامراجیت و ملوکیت اور استعمار کو ”ابلیسی نظام“ قرار دیا ہے۔ اقبال لے مزدیک یہ حکمت فرعونی ہے جس میں مکر وفن کے سوا کچھ نہیں۔ اقبال کی وفات کے بعد سے اب تک دنیائے اسلام کے بیش تر ممالک کی بین الاقوامی سطح پر جو صورت حال رہی ہے

اس تناظر میں دیکھیے تو اقبالؒ کا تجزیہ سو فیصد درست ہے کہ مغربی جمہوریت کی یہ، نیلم پری، کے نغمہ ہائے آزادی، نوائے قیصری، ہے۔

یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت

پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیمِ مساوات

یہ علم یہ حکومت یہ سیاست یہ تجارت

جو کچھ ہے وہ ہے فکر ملوکانہ کی ایجاد

یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے

حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات۔

بالِ جبریل

آخری صفحات میں اس اھم بحث کو سمیٹتے ہوئے افکارِ اقبال کی روشنی میں ڈاکٹر آصف لکھتے ہیں اقبال اسلامی اصولوں کی روشنی میں تہذیبی تکثیریت اور اس تکثیریت میں اتحاد و اتفاق کے ذریعہ تہذیبی آفاقیت کے قائل ہیں۔

آفاقیت کا یہ تصور مغربی سامراج کے تصورِ آفاقیت سے یکسر مختلف ہے۔ جو تمام دنیا کو اپنا یرغمال بنانا چاہتا ہے۔ اس کے بر عکس اقبال اس تہزیبی آفاقیت کے ذریعے تمام اقوام کے درمیان مکالمہ کرنا چاہتے ہیں۔ نئے نو آبادیاتی جبر کو سمجھنے کے لیے ڈاکٹر آصف کی یہ بہترین کاوش ہے

خاص طور پہ اقبال شناسوں اور اقبالیات کے طلبہ کے لیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).