کیا کلبھوشن یادیو کی رہائی سے پاکستان و بھارت میں مصالحت ممکن ہے؟


وزیراعظم عمران خان نے آج گورنر ہاؤس پنجاب میں سکھ وفود سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ جنگ کو احمقانہ قرارر دیا اور کہا ہے کہ جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان ، بھارت کے ساتھ کسی تنازعہ کی صورت میں پہلے جوہری ہتھیار استعمال نہیں کرے گا۔ آج ہی اسلام آباد میں جاسوسی کے الزام میں موت کی سزا پانے والے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر سے ملاقات ہوئی ہے۔ کیا یہ دو واقعات دونوں ملکوں کے درمیان برف پگھلانے کا سبب بن سکتے ہیں؟

جوہری ہتھیاروں کے پہلے استعمال سے گریز کے بارے عمران خان کے بیان سے دو ہفتے پہلے بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے بیان سے پیدا ہونے والی غیر یقینی میں کسی حد تک کمی آئی ہے۔ اس بیان میں بھارتی وزیر دفاع نے کہا تھا کہ ’بھارت صورت حال کے مطابق ایٹم بم استعمال کرنے کا فیصلہ کرے گا‘ ۔ اس بیان کو بھارت کی پہلے جوہری ہتھیار استعمال نہ کرنے کی ڈاکٹرائن کو تبدیل کرنے کا اشارہ سمجھا جارہا تھا۔ گزشتہ چند مواقع پر عمران خان نے برصغیر میں جوہری جنگ اور اس کے دنیا پر مرتب ہونے والے اثرات کا ذکر اس شدت سے کیا تھا کہ اس سے اہل پاکستان میں ہیجان پیدا ہونا فطری تھا۔ یہ محسوس کیا جانے لگا تھا جیسے بھارت کسی بھی لمحے حملہ کرنے والا ہے اور قوم کو اس مصیبت سے نمٹنے اور اس کے اثرات برداشت کرنے کے لئے تیار ہوجانا چاہئے۔

آج لاہور میں وزیراعظم نے جنگ کو مسترد کرنے کے لئے مضبوط اور دو ٹوک مؤقف اختیار کرکے پاکستان کی پوزیشن واضح کردی ہے۔ اس کے ساتھ ہی پہلے جوہری ہتھیار استعمال نہ کرنے کا اعلان کرکے بھی پاکستانی حکومت نے کسی حد تک بھارت کے اس بیانیہ کے مقابلے میں مفاہمانہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ بھارت اب پہلے ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کے وعدے پر قائم نہیں ہے۔ یہ ایک ہوشمندانہ اور مثبت پیش رفت ہے جو گزشتہ ماہ کے دوران کشمیر کی صورت حال کے تناظر میں پیدا ہونے والے تناؤ میں امید کی ایک کرن کی حیثیت رکھتی ہے۔

تصادم اور سیاسی اختلاف کے ماحول میں جنگ کو مسترد کرنے کی بات کرنا کسی کمزوری کا اظہار نہیں ہے بلکہ یہ کسی بھی قوم کی حوصلہ مندی، ہوشمندی اور تدبر کی علامت ہوتا ہے۔ بھارتی زیر اعظم نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں نے اس سال کے شروع میں پلوامہ سانحہ کو آڑ بنا کر انتہائی سنگین ماحول پیدا کیا تھا۔ حالانکہ بھارتی فضائیہ کی طرف سے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی اور سرجیکل اسٹرائیک کے مضحکہ خیز دعوؤں سے ماحول میں کشیدگی پیدا ہوئی اور پاکستان کو مسلسل اشتعال دلوانے کی کوشش کی گئی۔ تاہم وزیر اعظم عمران خان اسے بھارت کی انتخابی مہم کا حصہ قرار دیتے ہوئے نظر انداز کرتے رہے تھے۔ البتہ 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بارے میں بھارتی حکومت کے اقدام اور کشمیر میں انسانیت سوز پابندیوں کی وجہ سے عمران خان کو سخت مؤقف اختیار کرنا پڑا۔

 اس حوالے سے اپنی رنجش اور تکلیف کا اظہار کرتے ہوئے متعدد مواقع پر انہوں نے ایسے الفاظ استعمال کئے جسے جنگ جوئی کی دعوت کے مترادف قرار دیاسکتا ہے۔ اس لحاظ سے پاکستانی وزیر اعظم کے تازہ بیان سے برصغیر میں پیدا ہونے والی کشیدگی کم کرنے میں مدد ملے گی۔ امید کی جانی چاہئے کہ بھارت کی طرف سے بھی خیر سگالی کے اس جذبہ کا مثبت جواب دیتے ہوئے کشمیر میں جاری غیر انسانی پابندیوں اور مواصلت کے تمام ذرائع بند کرنے کے رویہ میں نرمی کی جائے گی اور کشمیری عوام کو اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ پاکستان بھی باقی ماندہ دنیا کی طرح دراصل یہی مطالبہ کررہا ہے کہ ایک خطے کے لوگوں کو گھروں میں بند کرکے اور ان کی قیادت کو پابند سلاسل کرکے کوئی حکومت یا ملک اپنی مرضی نہیں ٹھونس سکتا۔ بے پناہ سیاسی قوت کی وجہ سے بی جے پی اور نریندر مودی کو شاید ابھی یہ نوشتہ دیوار پڑھنے میں دشواری ہورہی ہو لیکن دراصل یہی سچ ہے جس کی طرف بھارت کے اندر سے بھی بعض ہوشمند آوازیں توجہ دلانے کی کوشش کررہی ہیں۔

بھارت میں بڑھتی ہوئی ہندو انتہاپسندی اور اس کے زیر اثر کشمیر میں غیر مقبول فیصلے مسلط کرنے اور ملک کی مذہبی اقلیتوں کا قافیہ تنگ کرنے کے طرز عمل پر عمران خان کی تلخ نوائی کے باوجود پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارت کو صرف اس شرط پر مذاکرات کی پیش کش کی تھی کہ وہ کشمیر میں کرفیو اٹھالے، وہاں کے لوگوں کو اپنی مرضی بیان کرنے کا موقع دے اور کشمیری قیادت کو رہا کیا جائے تاکہ دنیا جان سکے کہ کشمیر کے باشندے اپنے مستقبل کے بارے میں کیا فیصلہ کرنے کے خواہشمند ہیں۔ شاہ محمود قریشی کی یہ بات بھی وزنی اور جائز ہے کہ کشمیر کا تنازعہ دو ہمسایہ ملکوں کے درمیان زمین کا جھگڑا نہیں ہے بلکہ اس معاملہ کا تیسرا اور شاید سب سے اہم فریق کشمیری عوام ہیں۔ کسی بھی ممکنہ مذاکرات میں ان کی شرکت کے بغیر پاکستان اور بھارت کوئی مقصد حاصل نہیں کرسکتے۔

 بھارتی حکومت سے کشمیری لیڈروں کو رہا کرنے اور پاکستانی قیادت کو ان سے مواصلت کا موقع فراہم کرنے کا مطالبہ درست مؤقف ہے۔ اس طرح پاکستان کو بھی یہ احساس ہوسکے گا کہ اسے اپنی کشمیر پالیسی کو کن بنیادوں پر استوار کرنا چاہئے۔ اس اصول پر دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ کشمیر کے لوگ ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ خوشی کی بات ہے کہ پاکستانی لیڈر اس فہم کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران کشمیر کو سیکورٹی فورسز کے حوالے کرکے اور وہاں کے شہریوں کی نقل و حرکت اور رابطہ کی سہولت ختم کرنے کے باوجود نریندر مودی حکومت کو بھی یہ احساس ہوچکا ہوگا کہ کشمیر کوئی ایسا پکا ہؤا پھل نہیں ہے جو ایک قانون کے ذریعے بھارت کی جھولی میں آن گرے گا۔ یہ ڈیڑھ کروڑ انسانوں کا خطہ ہے۔ کوئی بھی طاقت ان کی رائے اور شرکت کے بغیر کوئی فیصلہ مسلط کرنے کا نہ تو حق رکھتی ہے اور نہ ہی اس میں کامیاب ہو سکتی ہے۔

نریندر مودی کی حکومت کو یہ بات بھی سمجھ لینی چاہئے کہ جنگ کی تیاری یا پاکستان کے خلاف عالمی سفارتی مہم جوئی اس مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ معاملہ پاکستان کا نہیں بلکہ اہل کشمیر کا ہے ۔ یہ پاکستان کے ساتھ لین دین کا معاملہ نہیں ہے کہ سرحدوں پر دباؤ بڑھا کر یا پاکستان کو دھمکا کر اسے حل کرلیا جائے گا۔ عمران خان کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ جنگ میں کوئی ملک فاتح ہو کر بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ جنگ کی تباہ کاریوں کی بھاری قیمت پورے ملک اور اس کے عوام کو ہی ادا کرنا پڑتی ہے۔ جنگ مسلط کرنے والا صرف فریق مخالف کا نقصان نہیں کرتا، اسے خود بھی اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ اس لئے نریندر مودی بھارتی عوام کو یہ دھوکہ دینا بند کردیں کہ وہ اپنی کثیر فوج اور زیادہ وسائل کی وجہ سے پاکستان کو ’سبق سکھانے‘ کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

آج ہی اسلام آباد میں بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر گورو اہلووالیہ نے جاسوسی کے الزام میں سزائے موت پانے والے بھاری نیوی کے کمانڈر کلبھوشن یادیو دسے دو گھنٹے تک ملاقات کی۔ یہ ملاقات عالمی عدالت انصاف کے فیصلہ کی روشنی میں کروائی گئی تھی۔ عالمی عدالت نے کلبھوشن یادیو کی موت کی سزا منسوخ کرنے یا اسے بھارت کے حوالے کرنے کی درخواست مسترد کردی تھی البتہ پاکستان سے کہا تھا کہ وہ یادیو تک بھارتی سفارت خانہ کو قونصلر رسائی دینے کا پابند ہے۔

دیگر معاملات کی طرح کلبھوشن یادیو کا معاملہ بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اور تناؤ کا سبب بنا ہؤا ہے۔ حکومت پاکستان نے موجودہ کشیدگی کے باوجود کلبھوشن سے ملاقات کا اہتمام کرکے ایک مثبت اور قابل تقلید مثال قائم کی ہے۔ اس کی دوسری مثال کشیدگی کے باوجود کرتار پور راہداری کے حوالے سے کسی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالنے کا فیصلہ کر کے قائم کی گئی تھی۔ اگرچہ پاکستان نے بعض سخت فیصلے بھی کئے ہیں جن میں باہمی تجارت کا خاتمہ اور سفیروں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ شامل ہے۔ تاہم اب اشتعال انگیز بیان بازی اور الزام تراشی کے ماحول کو ترک کرکے مستقبل کی طرف دیکھنے اور کشیدگی سے مفاہمت کی طرف قدم بڑھانے کا موقع ہے۔ کلبھوشن یادیو کو قونصلر سہولت دینے کا اقدام اس راستے پر پہلا ٹھوس قدم ثابت ہو سکتا ہے۔

بھارت نے اس ملاقات کے بعد اسے داخلی سیاسی ضرورتوں کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے اور بیان دیا ہے کہ پاکستانی حکام کلبھوشن یادیو پر منفی بیان دہرانے کے لئے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے اس بیان کی کوئی عملی اہمیت نہیں ہو سکتی۔ کلبھوشن کا جاسوسی کرنے اور پاکستان کے خلاف تخریبی کارروائیوں کا اعتراف عدالتی کارروائی کا حصہ ہے۔ اسی کی بنیاد پر اسے فوجی عدالت سے سزائے موت بھی ملی ہے۔ پاکستان کو کلبھوشن یادیو سے کوئی نیا بیان لینے کی ضرورت نہیں۔

 کلبھوشن کو سزا دے کر اور پاکستان کے خلاف اس کے کردار کو فاش کرکے پاکستان نے اپنے ملک کے خلاف بھارتی تخریب کاری کا بھانڈا پھوڑا ہے۔ یعنی کلبھوشن کی گرفتاری سے ایک تو دہشت گردوں کے ایک نیٹ ورک کا خاتمہ ہؤا اور اس کے ساتھ ہی بھارت کے ان دعوؤں کا پول بھی کھل گیا کہ وہ اپنے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ امن سے رہنا چاہتا ہے۔ اب اس ایک شخص کو پھانسی دے کر پاکستان کے مفاد یا شہرت کو فائدہ نہیں ہوگا۔ حکومت کو سنجیدگی سے کلبھوشن یادیو کو رہا کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس کی رہائی کے بدلے بھارت سے مناسب مراعات لینے کے آپشن پر غور کرنا چاہئے۔

پاکستان یہ حوصلہ مندانہ فیصلہ کرسکے تو بھارت کو اپنے سابقہ جاسوس کی رہائی اور اس معاملہ پر مزید جگ ہنسائی سے بچنے کے لئے سفارتی پیش رفت پر آمادہ ہونا پڑے گا۔ تاہم اس مقصد کے لئے دونوں طرف سے نعروں پر مبنی بیانات کو ترک کرنے کی ضرورت ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali