کیا پولیس کے عقوبت خانے اب تھانوں سے باہر منتقل ہو رہے ہیں؟


پولیس تشدد

(فائل فوٹو)

ویرانے میں واقع وہ کسی سرکاری محکمے کا دفتر تھا جس کے اندر مختلف عمر کے مرد ایک کمرے میں قید تھے۔ ان تک جیسے ہی مدد پہنچی، وہ پھٹ پڑے ’ہمیں تین دن سے یہاں بند کر رکھا ہے۔۔۔ میں موٹر سائیکل پر گزر رہا تھا مجھے پکڑا ہے۔۔۔ سر میری ہنڈا سِوک گاڑی کی چابی، کیش، میرے گھر سے سب اٹھا لائے ہیں۔۔۔ سر آپ جب آئے ہیں یہاں سے ابھی وہ پستول لے کر نکلے ہیں۔۔۔‘

ان سب کے درمیان ایک نوجوان چارپائی پر بے حال لیٹا تھا۔ اس نے جینز کی پتلون کے ساتھ سفید بنیان پہن رکھی تھی۔ باہر سے آنے والا شخص اس سے پوچھتا ہے آپ کو کیا ہوا تو اس کے گلے سے بمشکل آواز نکل پاتی ہے۔

وہ روتے ہوئے بتاتا ہے ’سر انھوں نے مجھے اتنا مارا ہے، میری بیٹی اور بیٹے کے سامنے، مجھے اتنا مارا ہے مجھ سے کھڑا نہیں ہوا جا رہا۔‘

پھر باقی لوگ بتانا شروع کرتے ہیں کہ انھیں کیوں لایا گیا تھا۔

وہ نوجوان پھر سے بولتا ہے۔ ’انھوں نے میری بیوی کو گالیاں دیں۔ مجھے بے قصور اٹھا کر لائے ہیں، ایک چیز نہیں برآمد ہوئی میرے گھر سے۔۔۔ میری کمر ٹوٹ گئی ہے۔۔۔‘

اسی دوران پس منظر میں موجود ایک شخص کی آواز آتی ہے کہ ’سر میری ٹانگیں کھول کر چیرا دیا ہے انھوں نے۔۔۔‘

پولیس تشدد سے کون ہلاک ہوا؟

اس روداد کی ویڈیو حال ہی میں سامنے آئی تھی۔ پنجاب کے محکمہ انسدادِ کرپشن نے لاہور میں کرول جنگل کے علاقے سے گجر پورہ پولیس کا غیر قانونی عقوبت خانہ پکڑا جہاں ان تمام لوگوں کو غیر قانونی حراست میں رکھ کر ان پر ’تھرڈ ڈگری کا استعمال‘ یعنی تشدد کیا جاتا تھا۔

سفید بنیان میں ملبوس نوجوان کا نام بعد میں امجد ذوالفقار معلوم ہوا۔ ان کے خاندان کے مطابق انھیں تشدد سے ’گہری اور اندرونی چوٹیں آئیں‘ جن کی تاب نہ لاتے ہوئے اتوار کے روز وہ انتقال کر گئے۔

اسی روز صوبہ پنجاب کے شہر رحیم یار خان میں صلاح الدین نامی شخص کی پولیس کی حراست میں موت کی خبر سامنے آئی۔ حال ہی میں منظر عام پر آنے والی ایک وائرل ویڈیو میں انھیں فیصل آباد میں اے ٹی ایم مشین سے کارڈ چوری کرتے ہوئے کیمرے کو منہ چڑھاتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

دونوں واقعات میں متعلقہ پولیس اہلکاروں کے خلاف قتل کے مقدمات درج کر لیے گئے ہیں جبکہ لاہور پولیس نے ایک وضاحتی بیان میں کہا ہے ’امجد ذوالفقار کی موت ہسپتال میں عقوبت خانے سے رہائی کے چند روز بعد ہوئی اور موت کی وجہ حرکتِ قلب بند ہونا معلوم ہوا ہے۔‘

تاہم سوال یہ ہے کہ پولیس کا عقوبت خانہ کیوں اور کیسے وجود میں آیا؟ کیا اسے محض چند اہلکاروں کی انفرادی حرکت کہہ دینا درست تاثر ہے؟

دوسری جانب پنجاب پولیس نے صلاح الدین کی موت کے حوالے سے یہ کہا ہے کہ ’ان پر تشدد نہیں کیا گیا۔‘ پولیس اس قدر وثوق سے یہ دعوٰی کیسے کر سکتی ہے؟

’700 سے زائد تھانوں میں کیمرے نصب ہیں‘

صوبہ پنجاب کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آپریشنز انعام غنی نے بی بی سی کو بتایا: ’صوبہ پنجاب کے تمام 706 تھانوں کے 833 حوالات میں کیمرے نصب ہیں جنھیں متعلقہ ضلعی افسران کے ساتھ ساتھ لاہور کے مرکزی دفتر سے بھی مانیٹر کیا جاتا ہے۔‘

حوالات کے ساتھ ساتھ مہتمم کے کمروں اور استقبالیہ وغیرہ کی بھی نگرانی کی جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ رحیم یار خان کے اس تھانے میں بھی کیمرے تھے جہاں صلاح الدین کی دورانِ حراست موت ہوئی۔

’کیمروں کی مدد سے واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ اس ملزم کو جب تھانے لایا گیا تو اس کے بعد کیا ہوا اور یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ اس پر قطعاً کوئی تشدد وغیرہ نہیں ہوا۔‘

(فائل فوٹو)

(فائل فوٹو)

تاہم اے آئی جی آپریشنز پنجاب انعام غنی کے مطابق کسی بھی ملزم کی حفاظت کو یقینی بنانا پولیس کا فرض ہے۔ اسی وجہ سے متعلقہ پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔

تھانے سے باہر عقوبت خانے کیمروں کا توڑ؟

لاہور میں پولیس کا عقوبت خانہ سامنے آنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اے آئی جی آپریشنز پنجاب انعام غنی کا کہنا تھا کہ تھانوں میں کیمرے لگنے کے بعد اس طرح کا ردِ عمل سامنے آتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کیمروں کے آنے سے یہ تقریباً ناممکن ہو چکا ہے کہ پولیس کسی کو اٹھا کر لائے اور حوالات یا تھانے میں رکھ کر دورانِ تفتیش اس پر تشدد کرے۔

’اسی چیز کا توڑ نکالنے کے لیے ظاہری بات ہے کہ بندہ اگر پکڑ کر لائے، تو لاک اپ میں نہیں تو کہیں باہر اسے رکھ لیتے ہیں۔ یہ جو لاہور والا واقعہ تھا یہ اسی کی ایک کڑی تھی۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ جس جگہ امجد ذوالفقار اور دیگر افراد کو رکھا گیا تھا ’وہ جگہ نہ تو پولیس اور نہ ہی اس کے کسی اہلکار کی ملکیت تھی۔ وہ ایک اور محکمے کی جگہ تھی اور ایسا پہلی دفعہ ہوا تھا کہ اس جگہ کو ایسے مقصد کے لیے استعمال کیے جانے کی کوشش کی گئی۔‘

ان کے مطابق یہ کوشش ناکام ہوئی اور اس میں اعلٰی افسران سمیت تمام ملوث افراد کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جا رہی ہے۔

انعام غنی کا کہنا تھا کہ ’کوشش ہم پوری کرتے ہیں لیکن تقریباً سوا دو لاکھ کی نفری ہے (پنجاب پولیس کی) تو اس قسم کے اکا دکا واقعات، جو کہ ہونے نہیں چاہییں لیکن ان کا خطرہ تو یقیناً رہتا ہے۔‘

فائل فوٹو

(فائل فوٹو)

’باہر عقوبت خانے بنانے کا عمل نیا نہیں ہے‘

لیکن سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس اور سابق وزیرِ داخلہ پنجاب شوکت جاوید کا مؤقف ہے کہ پولیس تھانے سے باہر ایسے عقوبت خانے قائم کرنے کا عمل نیا نہیں ہے۔

’جب سے پولیس بنی ہے یہ تب سے چل رہا ہے۔ جس کو چھپا کر رکھنا ہوتا ہے اسے پھر باہر کوئی جگہ بنا کر وہاں رکھا جاتا ہے۔ یہ خطرہ ہوتا ہے کہ عدالتی بیلف چھاپہ نہ مار دے۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ پولیس میں تھرڈ ڈگری کے استعمال کی ایک بڑی وجہ پاکستان کے قوانین کا آکیولر یعنی عینی نوعیت کے شواہد پر انحصار ہے۔ عدالتیں فرانزک یا واقعاتی ثبوت پر بہت کم زور دیتی ہیں۔

زیادہ تر یہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی نے دیکھا یا نہیں، ملزم نے اعترافِ جرم کیا یا نہیں۔ پولیس کے سامنے دیئے جانے والے اعترافی بیان کو بھی عدالت ثبوت تسلیم نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر زور اس بات پر دیا جاتا ہے کہ عینی نوعیت کے شواہد اکٹھے کریں۔

’اس کے لیے پھر جھوٹی گواہیاں بنانی پڑتی ہیں اور عینی نوعیت کی گواہیاں بنانے کے لیے ہی یہ تھرڈ ڈگری کے طریقہ کار استعمال کرتے ہیں۔‘

’جن کو پرانی عادتیں ہیں وہ ذرا مشکل سے ہٹتی ہیں‘

اس صورتحال سے بچنے کے لیے محکمہ پولیس کے پاس کیا حکمتِ عملی ہے؟ اے آئی جی آپریشنز پنجاب انعام غنی کے مطابق ٹیکنالوجی اور معلومات کے دور میں چھپنا بہت مشکل ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ سیف سٹی اتھارٹی کے ساتھ ساتھ ہر جگہ پر کیمرے نصب ہیں۔ وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلٰی کے شکایات کام کر رہے ہیں۔ پولیس کے نگران کی ایک علیحدہ سے ہیلپ لائن موجود ہے۔ ہر ضلع میں ایک ایس پی سطح کا افسر صرف لوگوں کی شکایات سننے کے لیے تعینات کیا گیا ہے۔

ان کا مؤقف ہے کہ حقیقی اصلاحت ایسے ہی ہوتی ہیں ’جب آپ چیزوں کو تبدیل کرنے لگتے ہیں، تو مزاحمت بھی ہوتی ہے اور ردِ عمل بھی آتا ہے۔ جن کو پرانی عادتیں ہیں وہ ذرا مشکل سے ہٹتی ہیں۔‘

سابق آئی جی شوکت جاوید کا کہنا ہے کہ پولیس میں تھرڈ ڈگری کے استعمال کے کلچر کو بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ اصلاحات کی جائیں اور ان میں اول قوانین میں تبدیلی لانا ضروری ہے۔

اب تک اصلاحات کیوں نہیں ہو پائیں؟

شوکت جاوید کے مطابق پاکستان میں متواتر آنے والی حکومتی کے لیے یہ ترجیح نہیں رہی۔ اگر کوئی اصلاحات تجویز کی بھی گئیں تو ان کے لیے مطلوب فنڈ یا دیگر سہولیات مہیا نہیں کی گئیں۔

تاہم ان کا کہنا تھا پاکستان کے کمیشن برائے انصاف یعنی لا اینڈ جسٹس کمیشن کے پاس اصلاحات کا ایک تحریری مجوزہ تیار ہے جو ریٹائرڈ اور حاضر سروس پولیس افسران نے ترتیب دیا ہے۔

اس ہی کی شقوں پر ایک ایک کر کے عملدرآمد شروع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پہلی شق پر عمل کے نتیجے میں پولیس کے مراکز برائے شکایات قائم کیے گئے ہیں۔ ریکارڈ کو کمپیٹرائز کرنا بھی انہی اصلاحات پر عملدرآمد کا نتیجہ ہے۔

(فائل فوٹو)

(فائل فوٹو)

شوکت جاوید کا کہنا تھا کہ پولیس کی طرف سے تشدد کی روک تھام کے لیے ان اصلاحات کے قوانین میں تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں ’اگر اس کے بعد بھی کوئی تشدد کرتا ہے تو اس کے لیے سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔‘

یہ تبدیلیاں تاحال سامنے نہیں آ پائیں۔

حکومت کیا کہتی ہے؟

پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان پیر کے روز لاہور کے دورے پر تھے جس کے دوران وزیرِاعلٰی پنجاب اور انسپکٹر جنرل آف پولیس کی طرف سے انہیں پولیس میں اصلاحات کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔

بریفنگ کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ پولیس کو پبلک فرینڈلی بنانے کے لیے قوانین میں تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔

وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا ’ستر سال کے نظام کو یکسر تبدیل کرنا مشکل امر ہے، بتدریج تبدیلی لا رہے ہیں۔‘

وفاقی وزیر برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے بتایا کہ پولیس کے اندر احتساب کے نظام کو مزید موثر بنایا جا رہا ہے ’40 ہزار پولیس افسروں و اہلکاروں کو احتساب نظام کے تحت سزائیں دی گئی ہیں۔‘

پنجاب کے انسپکٹر جنرل آف پولیس عارف نواز خان نے بتایا کہ صوبہ پنجاب میں سکول آف انویسٹی گیشن بنایا جا رہا ہے جس کا 95 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے۔ اس سکول میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر سے لے کر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس تک کو تربیت دی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32497 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp