بزدار کو ہٹا رہے ہیں تو علیم خان کو وزیر اعلیٰ بنائیں


جب نواز شریف کے خلاف ابھی کام نہیں اٹھا تھا تو اس وقت سہیل وڑائچ نے کالم لکھا تھا ”دی پارٹی از اوور“۔ 22 جون 2017 کو لکھے گئے اس کالم میں سہیل وڑائچ نے کہا تھا کہ ”موجودہ وزیراعظم نواز شریف کے لئے ’پارٹی اِز اوور‘ کی آواز لگ چکی ہے۔ سکرپٹ میں کوئی تبدیلی نہ آئی تو جولائی اور اگست میں آخری رسومات ہوں گی“۔ میڈیا، عوام اور نون لیگ میں اس کالم کا مضحکہ اڑایا گیا تھا مگر جب 28 جولائی 2017 کو نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کا بستر گول کر دیا گیا تو سہیل وڑائچ کو متفقہ طور پر غیب کی خبریں لانے والا میڈیائی ولی اللہ مان لیا گیا۔

اب وہی سہیل وڑائچ اپنے آج 3 ستمبر 2019 کے کالم ”اڑیل ہے ٹٹو۔ ۔ ۔ “ میں فرماتے ہیں کہ عثمان بزدار کا بستر بھی گول کرنے کی تیاریاں ہیں اور متبادل نام آ رہے ہیں۔ ”آئے روز خانِ اعظم کے کان بھرے جاتے ہیں، وہ پہلے دفاع کرتے تھے، پھر خاموشی سے سننے لگے اور آج کل کہہ رہے ہیں کہ غلطی ہو گئی ہے“۔ ۔ ۔ ”بڑے امیدوار اب بھی تین ہی ہیں میاں اسلم اقبال، عبدالعلیم خان اور شاہ محمود قریشی اور دو نوجوان وفاقی وزرا بھی اپنا نام پیش کر چکے ہیں۔ “

تبدیلی کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ نہ تو بزنس مین اور نہ ہی بیوروکریسی موجودہ حکومت پر اعتبار کرنے کو تیار ہے۔ وہ بس کام روک کر بیٹھ گئے ہیں کہ لو ملک خود چلا لو۔ اسٹیبلشمنٹ اور اسمبلی کا موڈ یہ ہے کہ اگر نومبر دسمبر تک یہ دونوں راضی نہ ہوئے تو پھر ”دی پارٹی از اوور، اگین“۔ آگے چل کر شاہ محمود کے معاملے میں وہ فرماتے ہیں کہ ان کا نام وزارت عظمیٰ کے لئے لیا جا رہا ہے کیونکہ یہ دونوں الف ان سے راضی ہیں۔

ایسا ہے تو پھر شاہ محمود قریشی کیوں پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر قناعت کریں گے؟ قسمت کے کھیل نرالے ہیں، کہاں جہانگیر ترین گروپ نے پنجاب کی وزارت عظمیٰ سے شاہ محمود قریشی کو دور رکھنے کے لئے انہیں صوبائی الیکشن ہروایا تھا اور کہاں اب وہ وزیراعظم بننے کے لئے پر تول رہے ہیں۔

پنجاب کے نئے وزیراعلی کے لئے دیے گئے ناموں پر غور کرتے ہیں تو باقی دو ناموں میاں اسلم اقبال اور علیم خان میں سے ہم علیم خان کی حمایت کرتے ہیں۔ ٹھیک ہے کہ اسلم اقبال نے اپنا تاثر ایک سر جھکا کر محنت سے کام کرنے والے وزیر کے طور پر بنایا ہے۔ وہ کسی تنازعے یا گروپ بندی کا حصہ نہیں ہیں، مختلف سیاسی گروپ ان کی عزت کرتے ہیں لیکن ان میں علیم خان والی بات کہاں۔ کیا انہوں نے پارٹی کے لئے علیم خان کی طرح بے شمار مالی قربانیاں دی ہیں؟

مانا کہ علیم خان کا نام کچھ متنازع ہے۔ لاہور میں ان کی شہرت بلاوجہ ہی قبضہ گروپ کی بن گئی ہے۔ جب انہیں 2013 میں پہلی مرتبہ ٹکٹ دینے کی بات ہوئی تو تحریک انصاف کے ووٹرز نے ہی بہت شور مچایا تھا کہ اتنا بدنام شخص کیوں ٹکٹ کا حقدار ہے؟ لیکن بعد میں ضمنی انتخابات میں انہیں صبر آ ہی گیا تھا۔

شہرت ایسی ہو بھی تو کیا فرق پڑتا ہے؟ پنجاب کی لوک کہانیاں دیکھیں تو ویسے بھی پنجاب میں غنڈے بدمعاشوں اور ڈاکوؤں کی بہت عزت کی جاتی ہے۔ پچھلے دو سو سال کے پنجابی ہیرو اٹھا لیں، جگا ڈاکو، محمد خان ڈاکو اور نظام لوہار ڈاکو وغیرہ ٹائپ بدمعاش ہی ملیں گے۔ اسی وجہ سے تو فلم مولا جٹ بھی اتنی ہٹ ہوئی تھی۔ اس میں پنجاب کے ایک بڑے بدمعاش نوری نت کو لوگ آج بھی نہایت عقیدت سے یاد کرتے ہوئے پوچھتے ہیں ”نواں آیا اے سوہنیا؟ “ (نئے آئے ہو پیارے؟ ) تو اگر عوام میں علیم خان کی بدمعاشی کے متعلق کچھ الٹی سیدھی اور غلط باتیں مشہور ہیں تو اسے ان کا پلس پوائنٹ ہی سمجھا جانا چاہیے۔

یہ بھی ٹھیک ہے کہ علیم خان کی اپنی پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے اندر بہت مخالفت ہے۔ جیسے ہی ان کا نام کسی اہم ذمہ داری کے لئے لیا جاتا ہے تو اچانک ہی پارٹی میں کئی گروپ سرگرم عمل ہو جاتے ہیں اور حالات تبدیل ہو جاتے ہیں۔ چوہدری سرور کا دھڑا ہو، شاہ محمود قریشی کا یا پھر جہانگیر ترین کا، سب ان کا دھڑن تختہ کرنے لگتے ہیں۔ یہی تو ثبوت ہے کہ ان کی کارکردگی اتنی اچھی ہے کہ تحریک انصاف کا کوئی بھی دھڑا ڈر کر انہیں برداشت کرنے کو تیار نہیں۔

یہ بھی مانا کہ ان مخالفت کرنے والوں میں افسران قضا و قدر بھی شامل ہیں اسی وجہ سے نیب میں صرف علیم خان ہی پکڑے جاتے ہیں اور ان کا نام عہدہ پانے والوں کی لسٹ سے نکل جاتا ہے۔ لیکن ایسی مخالفت کا سامنا تو سب مقبول لیڈروں کو کرنا پڑتا ہے۔

میڈیا میں بھی علیم خان کی بلاوجہ کی مخالفت کی جاتی ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ ایک نہایت ہی شریف النفس اینکر اور صحافی سے وہ بہت ناراض ہیں۔ وہ اینکر بتاتے ہیں کہ علیم خان کا خیال ہے کہ پچھلی مرتبہ وزارت عظمیٰ کے امیدواروں کی فہرست سے علیم خان کا نام نکلنے میں ان کے پروگراموں کا ہاتھ ہے۔ اب یہ اینکر ایسے ہیں کہ عمران خان بھی ان کی بہت عزت کرتے ہیں اور ان کی مخالفت وزن رکھتی ہے۔ لیکن بھلا وہ یا دوسرے صحافی اس پنجابی ہیرو کی مخالفت کیوں کریں گے؟

یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشاؔ جی کا نام نہ لو کیا انشاؔ جی سودائی ہیں

علیم خان کی دریا دلی کے قصے لاہور میں دریائے راوی سے لے کر اسلام آباد میں دریائے کورنگ کے کناروں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ادھر جا کر کسی سے بھی پوچھ لیں جس کی زمین وہاں ہوا کرتی تھی اور اب پارک ویو میں آ گئی ہے۔ ہر شخص علیم خان کی تعریف ہی کرے گا کہ وہ اتنی اچھی ڈیل کرتے ہیں کہ زمین لیتے ہیں مگر مالک کو رونے نہیں دیتے۔

مختصر یہ کہ علیم خان ہی پنجاب کی وزارت عظمیٰ کے لئے بہترین امیدوار ہیں۔ ان کے بارے میں عوام، تحریک انصاف کے دھڑوں، نیب اور اسٹیبلشمنٹ کی ایک ہی رائے ہے۔ ان کی وزارت عظمیٰ آتے ہی سب عثمان بزدار کی شرافت کو بھول جائیں گے اور علیم خان کی کارکردگی کے چرچے ہر جگہ ہونے لگیں گے۔ بزدار کو ہٹا رہے ہیں تو علیم خان کو وزیر اعلیٰ بنائیں تاکہ جو کسر باقی رہ گئی ہے وہ بھی پوری ہو جائے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar