سیاست اور ادب کے مشاہیر کی رومانوی زندگیاں


اٹھارویں صدی کو روشن خیالی کا دور کہا جاتا ہے۔ اس کوسیکولر ازم، دانشوری، فلسفہ اور استدلال کا دور بھی کہا جاتا ہے۔ اس صدی میں ہر کام میں وجہ اور نفع نقصان کی بحث عروج پر پہنچی۔ طبقاتی حقوق کی لڑائی بھی شدو مد سے جاری رہی۔ اسی دور میں خواتین کے حقوق کی تحریکوں کاآغاز ہوا۔ اسی صدی کے کچھ لکھاریوں نے فیمینسٹ خیالات کا اظہار کیا۔ فیمینزم تحریک ٖFeminism کا باقاعدہ آغاز انیسویں صدی کے اختتام کے قریب ہوا۔

اس کا مقصدسیاسی، ثقافتی اور معاشی تحریکوں کی مدد سے عورتوں کے لئے برابری کے حقوق اور قانونی تحفظ کا حصول تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان میں خواتین کی جائداد، ووٹ، جسمانی تحفظ، اسقاط حمل، تولیدی حقوق، بچوں کی کفالت، گھریلو تشدد، جنسی ہراسانی، جبر زنا، کام کی جگہ پر مساوی حقوق، زچگی کی رخصت، مردوں کے برابر مزدوری اور عورتوں کے ساتھ تمام قسم کے غیر مساوی سلوک جیسے مسائل بھی شامل ہو گئے۔

ترقی یا فتہ ممالک میں تو یہ تحریک کامیابی سے چل رہی ہے اور عورتوں کے بہت سے مسائل حل کرنے میں کامیاب بھی ہوئی ہے۔ خواتین کی اس تحریک کو ہمارے ہاں عجیب طرز کی مخالفت کا سامنا ہے۔ ہمارے معاشرہ میں صدیوں پرانے خیالات کے مالک افراد اور خاندان بھی پاے جاتے ہیں اورجدید ذہنیت کے حامل بھی۔ ہم ملکی قوانین کے متوازی علاقائی اقدار اور مقامی رسم و رواج کے بھی قائل ہیں۔ مذہبی اور دقیانوسی غیر مذہبی خیالات بھی ہمارے نظریات میں اہم کرداراداکرتے ہیں اور ہم میں ہی جدید تہذیب کی رغبت بھی پائی جاتی ہے۔

عورت مارچ کے بعد سے پاکستانی میڈیا پرسب سے زیادہ بحث میاں بیوی کے تعلقات پرہو رہی ہے۔ قدامت پرست اور رسم و اقدار کے پیرو کارخاندانی نظام میں ابھرنے والے نئے مسائل میں جدید خواتین اور FEMINISMکومحرک قرار دے رہے ہیں۔ طرفین اپنے اپنے دلائل زوروشور سے دے رہے ہیں۔ مقابلہ اس طرح جاری ہے جیسے میا ں بیوی نہیں دو پہلوان ہیں جن کو گھر کے میدان میں کشتی لڑنے کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے۔ ریفری بھی وہ خود ہیں، کھیل کے قوانین بھی فریقین ہی طے کر رہے ہیں۔ تماشبین اپنے اپنے پہلوان کو خوب ہلہ شیری بھی دے رہے ہیں۔

جوش ملیح آبادی کی بیگم انتہائی تنک مزاج خاتون تھیں۔ لکھتے ہیں، ”میں اب تک زندہ ہوں، میری سخت جانی کا یہ معجزہ ہے۔ وہ کبھی سیدھے منہ بات نہیں کرتیں۔ جب مکانوں کے سقف و بام سے آوازوں کو اگلوا لینے والا کوئی آلہ ایجاد ہو جاے گا تو میرا سارامکان“ بدتمیز، بدتمیز ”کی آوازوں سے گونجنے اور کانپنے لگے گا۔ “

اس کے علاوہ ان کی دوسری خصوصیات بیان کرتے ہوے لکھتے ہیں کہ وہ ہر بد گمانی، ہر وسوسے، ہر قیاس، ہر ظن اور ہر واہمے کو حقیقت کبریٰ اوروحی و الہام کا مرتبہ دے دیتی ہیں۔

جوش اپنے تمام گناہوں کو چھپانے کی بجاے فخریہ بیا ن کرتے ہیں۔ ان کے اٹھارہ عشق ہر قسم کا سرور لئے ان کے ساتھ لڑکپن سے بڑھاپے تک چلتے رہے۔

جوش بڑھاپے میں بڑے فخر سے لکھتے ہیں، ”رب شباب کی سوگندآج بھی جب کسی نکیلے مکھڑے کو دیکھ لیتا ہوں، وہ مکھڑا انی بن کر میرے سینے میں ’کھچ سے‘ چبھ جاتا ہے۔ ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہوں کہ اگر چہ میرے بال سفید ہو چکے ہیں، لیکن بحمداللہ کہ میرا نامہ اعمال ابھی بھی سیاہ ہے۔ اور آج بھی یہی کہہ رہا ہوں،

گر چہ پیرم، تو چُناں تنگ در آغوشم گیر

کہ سحر گہ، زکنار تو، جواں بر خیزم ”

آگے چل کر وہ لکھتے ہیں، ”میرے آخری عشق (پہلے ایڈیشن میں اسے آخری لکھا گیا ہے، لیکن اس کے بعد بھی جوش نے نماز عشق کی ادائیگی میں خلل نہیں آنے دیا) کے معاملات اڑتے اڑتے ان تک پہنچ گئے اور انہوں نے مجھے ایک کمرے میں قید کر کے وہ ستم ڈھاے کہ ان کی شرح اب بیکارہے۔ “ خدا سے کیا ستم و جورِ ناخدا کہیے۔

بہت ساری خامیاں بیان کرنے کے بعد وہ ان کی اچھائیاں بیان کرتے ہیں، ”ان کی سی منتظم اور سلیقہ مند عورت آج تک میری نظر سے نہیں گزری۔ میں لکھ ٹٹ انسان ہوں اگر میری شادی ان سے نہ ہوئی ہوتی، میں فاقے مر جاتا۔ میں دس کروڑ گھوڑوں کی طاقت کا انجن ہوں وہ اس سے چوگنی طاقت کا بریک۔ جوش لکھتے ہیں کہ ان کے بقول میں ان کی جوتیوں کے طفیل ہی جوش بنا بیٹھا ہوں۔ آخر میں لکھتے ہیں ِ، “ وہ نہایت مغلو ب الغضب اور تنک مزاج ہیں، لیکن میری ذات کے ساتھ اب بھی ان کی محبت کا یہ عالم ہے کہ اگر میں اسے لفظ عشق سے منسوب کروں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ میں ان کی محبت کی تخفیف و توہین کر رہا ہوں۔ ”

قائد اعظم اور ان کی دوسری بیوی میں اختلافات اور ان کی محبت کے بارے میں بشریٰ رحمان نے کالم، ”وفا کے نام سے گر لوگ آشنا ہوتے۔ “ میں بڑے خوبصورت الفاظ لکھے ہیں۔

”رتی جناح سے بڑی عورت پورے بر صغیر میں نظر نہیں آتی۔ اس کی سوتن سیاست تھی۔ وہ اپنے عشق کے معراج پر تھی۔ اس کا میکہ اس کا مخالف تھا۔ اس مرد کو محبوب بنا بیٹھی، جو اپنی قوم کے عشق میں مبتلا تھا۔ خاموشی سے وفا کی رسم نبھائی اور شمع کی طرح جل کر بجھ گئی۔ بڑے مرد کا ساتھ کبھی کبھی زندگی کی سب سے بڑی قربانی مانگتا ہے۔ “

علیحدگی کی کافی بعد وہ جب شدید بیمار پڑیں تو علاج کے لئے پیرس چلی گئیں۔ قائد اعظم کو جب اطلاع ملی تو وہ بھی پیرس بہنچ گئے اور ایک ماہ تک اس کے ساتھ رہے۔ انتہائی مضبوط شخصیت کے مالک کو زندگی میں صرف دوبار روتے دیکھا گیا۔ ایک بار جب انہیں چہیتی بیوی کی قبر پر مٹی ڈالنے کا کہا گیا اور اور ایک بار جب وہ آخری مرتبہ اگست 1947 میں ان کی قبر پر تشریف لائے۔ قائد اعظم کے ملازمیں بتاتے ہیں کہ بارہ سال بعد بھی رتی جناح کے کپڑے جب کبھی صندوق سے نکال کر قالین پر پھیلاے جاتے تھے تو وہ ان کو مسلسل دیکھتے رہتے اور ان کی آنکھوں میں نمی اتر آتی۔

مولاناحسرت موہانی جیل میں تھے، جب ان کی عزیز از جان رفیقہ حیات انتقال فرما گئیں۔ دل سے آہ نکلی۔ جو قائد اعظم کی اسی کیفیت کا بیان کرتی ہے۔

غیر ممکن ہے تیرے بعد ہوس

کسی اور سے دل لگانے کی

یہ دلفریب افسانے ہی نہیں یہ وہ حقائق ہیں جن کا سامنا ہر کسی کو کرنا پڑتا ہے۔ یہ زندگی کے ساتھ ساتھ ہی چلتے ہیں۔ اختلافات کی وجہ سے ہی انسان ارتقاء کی منازل طے کرتا ہے، خاندان سنورتے ہیں، یہی مستقبل کو بہتر بنانے کی تگ و دو کو راستہ دکھلاتے ہیں۔

ڈاکٹر جاوید اقبال اپنے والدین میں انہی اختلافات کے بارے میں لکھتے ہیں، ”میری والدہ کا اصرار تھاکہ والد باقاعدگی سے وکالت کریں کیونکہ گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے۔ نیز کرایہ کی کوٹھی میں رہنے کی بجاے اپنا گھر بنائیں۔ “ میں نے دیکھا، ”والدہ میرے والد کے ذاتی کمرے میں کھڑی انہیں کوس رہی ہیں اور روتے ہوے کہہ رہی ہیں کہ میں اس گھر میں لونڈی کی طرح کام کرتی ہوں، پیسے بچانے کی کوشش میں لگی رہتی ہوں اور دوسری طرف آپ ہیں کہ بجاے نیک نیتی سے کچھ کرنے کے بستر پر دراز شعرلکھتے رہتے ہیں اور جواب میں میرے والدلیٹے ہوے بغیر منہ سے کچھ بولے کھسیانی ہنسی ہنس رہے ہیں۔ “ والدہ جاوید اقبال کی جمع پونجی اور ان کے زیورات بیچ کر ہی جاوید منزل بنائی گئی اور علامہ اقبال تا حیات اس کا کرایا ادا کرتے رہے۔

ہم آہنگی میں بھی چاشنی ہے اختلافوں کی

میری باتیں بعنوان دگر وہ مان لیتے ہیں۔

یورپ میں عشق کی اس سے بھی عجیب کہانیاں ملتی ہیں۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2