کراچی کی کھوئی ہوئی اپنائیت


سال بھر کا تھا جب والدین ناظم آباد لے گئے۔ قریباً 7 سال رہائش رہی مگر اسکول کے 3 سال اور جوڑیں تو شخصیت سازی کا ایک عشرہ بنتا ہے۔ ناظم آباد چھ نمبر کا وہ محلہ جہاں گویا ایک بڑے سے خاندان کے مختلف الخیال لوگ رہتے تھے۔

شالیمار سنیما کے عقب میں واقع گلی کے مکینوں میں عقی بھائی کی رشتہ دار مہتاب بانو اپنی بیٹیوں کے ساتھ رہتی تھیں۔ بڑے ہوئے تو معلوم ہوا کہ سنگیتا اور کویتا کی والدہ ہیں۔

71 کی جنگ کا بلیک آؤٹ دھندلا سا یاد ہے۔ مزا بڑا آتا تھا جب سائرن بجنے پر میز کے نیچے گھسنے کی ’دوڑ‘ لگتی تھی۔ ہمدرد دوا خانہ کی فیکٹری پاس تھی اور روح افزا و دیگر معجونوں کی مہک، فیکٹری کا پتہ، بذریعہ ناک بتلاتی تھی۔

اگلی گلی کا پارک اب بھی موجود ہے پر نہ جانے کیوں بچپن کے مقابلے میں بہت مختصر محسوس ہوتا ہے۔ تب تو ٹڈیاں ڈھونڈتے، تتلیوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے اور گرگٹ پکڑتے ہوئے کھو جاتے تھے۔

اور صاحب، وہ ’ہیلی کاپٹر‘ کہلائی جانے والی ٹڈیاں بھی خوب تھیں۔ بڑے ہو کر معلوم ہوا کہ ڈریگن فلائی کہلاتی ہیں۔ ان کے رنگوں کی وجہ سے نام رکھے ہوئے تھے۔ لال ’والا‘ بادشاہ، نیلی ’والی‘ رانی، ہرا تب بھی وزیر تھا!

اس پارک میں کھوکھو بھی کھیلا اور برف پانی بھی۔ البتہ باہر مٹی میں گلی ڈنڈا کھیلنے کی اجازت نہ ملی اور ایک آدھ بار کے سوا پتنگ نہ اڑا پائے۔ چھوٹے تھے نا! بڑے ہوئے تو مکان، فلیٹ ہو گیا تھا اور چھت غیر محفوظ۔ ہاں بڑے بھائی کی چرخی بہت پکڑی، دُرکائی بھی دی اور پھٹی پتنگ کو باسی کھچڑی کی لئی سے جوڑا بھی بہت۔

چلیں، اسکول چلتے ہیں! ایس ایم پبلک تب اسکول تھا، اب اکیڈمی ہو گئی ہے۔ بے بیز، جونیئرز اور سینیئرز کے تین سال گزار کر پہلی میں پہنچے اور چھَٹی تک رہے۔ تقریر، معلوماتِ عامہ کے مقابلوں، سائنسی میلوں، میلادوں، عید ملن پارٹیوں اور اسپورٹس کے ساتھ ساتھ پڑھائی بھی خوب رہی۔

بہت سے دوستوں اور سہیلیوں کے درمیان ایک خاموش طبع ہم جماعت، ہم نام بھی تھا۔ ابا کا نام سفیراللہ۔ ہو بہو لہری صاحب سے مشابہ دکھائی دیتا تھا۔ یوں پہلی بار پتہ چلا کہ ایک شخصیت کے دو نام بھی ہو سکتے ہیں۔

اسکول کے سامنے، مین روڈ کے پار، پارک تھا جسے اب انو بھائی پارک کہتے ہیں۔ ویسے جمیل بھائی اور وجاہت بھائی جو اسکول کی بک شاپ اور کینٹین چلاتے تھے، ان کے بڑے بھائی کا نام بھی انّو بھائی تھا۔

اس پارک میں ہمدرد والوں کی لائبریری تھی اور جانباز فورس کا دفتر بھی تھا۔ اسکول دوپہر کا تھا تو صبح گھر سے نکل کر پہلے لائبریری میں کہانیاں پڑھتے اور پھر اسکول جاتے۔

ہمدرد نونہال، جگنو، ہونہار، تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ فیروز سنز کی کتابیں، طلسم ہوشربا اور داستان امیر حمزہ کا مطالعہ بھی اسی دور کی دین ہے۔ پارک سے آگے ہادی مارکیٹ تھی جو ہمارا ’علاقہ‘ نہ تھا۔

پارک کا ایک حصہ باغ اور دوسرا ریتیلا تھا۔ اس حصے میں سیمنٹ کی پچ تھی اور یہاں بچوں کا جانا منع تھا مبادا کاک کی گیند سے چوٹ نہ کھا بیٹھیں۔

مشتاق محمد، سکندر بخت اور حسن جمیل کو دور سے کھیلتے دیکھا اور ایک بار میچ کے بعد ظہیر عباس کو چھ نمبر کے اسٹاپ سے 2 D کی بس پکڑتے دیکھا۔ شاید 74 / 75 کی بات ہے۔

رہی ہماری کرکٹ تو وہ اسکول اور بقائی ہسپتال کے درمیان واقع گھروں کے سامنے، ٹینس یا ربر کاک کی گیند سے ہوتی تھی۔ کافی عرصے بعد ٹیپ بال کا رواج شروع ہوا۔

عید گاہ میدان کے ذکر کے بغیر ناظم آباد کا بیان ادھورا ہے۔ گھر سے جائے نماز لئے ابا کے ساتھ جاتے تھے اور نماز سے واپسی پر امّاں کے ہاتھ کا چھوہاروں بھرا شیر خورمہ یوں کھاتے تھے کہ پیالے کو دھونے کی ضرورت نہیں رہتی تھی۔

ایسی عیدیں، وہ نمازیں اور پھر شیر خورمے! ۔ ان سب میں مٹھاس کچھ کم سی محسوس ہوتی ہے اب۔ شاید شکر کی نہیں، ماں باپ کے پیار کی مٹھاس تھی تب۔

سوچتا ہوں گول مارکیٹ جاؤں یا نہیں جہاں بڑے ہم بچوں کو محرم میں سبیل اور حلیم کے چندے اور عید میلاد النبی پر میلاد کے چندے کے لئے دال بھرا تھال، جس میں سکّے پڑے اور ایک اور پانچ روپے کے چند نوٹ کھڑے ہوتے تھے، دے کر بھیجتے تھے۔

لال سبیل سنیوں کی اور کالی شیعوں کی ہوتی۔ مٹکے ایک نل سے بھرے جاتے اور ڈیوٹیاں مل جل کر بانٹی جاتیں۔ 9 اور 10 محرم کی درمیانی رات بڑے لڑکے رت جگا کرتے، خوب حلیم گھوٹتے اور صبح ہر گھر میں بانٹتے۔

میلاد میں نیاز سے زیادہ انتطار کریپ پیپر سے بنے سرخ اور سبز پھولوں کا رہتا جو دھاتی تار پر گھڑے جاتے اور روئی کا ایک پھوہا درمیان میں ہوتا۔ عطر میں ڈوبے اس پھوہے کی مہک آج بھی کچرے کی بُو پر حاوی ہو جاتی ہے۔

کاش ایسے ہی اپنائیت کی وہ مہک پھر سے اس زخم خوردہ اور بٹے ہوئے شہر پر چھائی بیگانگی اور نفسا نفسی کی بُو پر حاوی آجائے! ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).