ندیم صاحب میرے ہیرو ہیں


ندیم بھائی ’مسکولر ڈسٹرافی‘ کا شکار ہونے کی وجہ سے نا اٹھ سکتے نا بیٹھ سکتے نا چل سکتے اور نا ہی ہل سکتے ہیں۔ ان تمام مشکلات کے با وجود وہ ملک کی نامور آئل کمپنی میں مارکیٹنگ افسر کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں، ای پی ڈبلیو ڈی کے نام سے اپنی این جی او بھی چلا رہے ہیں، خصوصی افراد کے حقوق کے سلسلے میں ہونے والی میٹنگز اور سیمینارز کا حصہ بھی بنتے ہیں۔ اپنا گھر چلانے کے ساتھ ساتھ گاؤں کی خوشی غمی میں بھی شریک ہوتے ہیں۔

میری ان سے پہلی ملاقات 2006 میں ہوئی، پہلی ہی ملاقات میں مجھے کہنے لگے کہ ”یار اب آپ کو نوکری تو مل گئی ہے اب آپ کو اپنے جیسے دوسرے معذور افراد کے حقوق کے لئے بھی کام کرنا چاہیے۔“ میں حیران تھا کہ اتنے مسائل میں گھرا شخص کیسے دوسرے افراد کے حقوق کی بات کر رہا ہے۔ خیر میں نے ان کی باتوں کو سنی ان سنی کر دیا۔ دفتر میں ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ چلتا رہا ندیم بھائی مجھے میری اخلاقی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کی کوشش کرتے رہے اور میں ان کی باتوں کو ایک کان سے سن کے دوسرے کان سے نکالتا رہا۔

3 دسمبر 2012 کو خصوصی افراد کے عالمی دن کے موقع پر ندیم صاحب مجھے اپنے ساتھ سرینا ہوٹل لے گئے وہاں میری ملاقات یونیسکو کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نگاتا سے ہوئی۔ ڈاکٹرنگاتا اور میں نے مختلف نیوز چینلز کو انٹرویوز دیے۔ واپس جانے لگا تو عاطف شیخ صاحب کہنے لگے کہ ”آج کا ’لائیو ود طلعت‘ بھی 3 دسمبر کے حوالے سے ہے اگر آپ رکنا چاہیں تو رک سکتے ہیں۔“ میں نے حامی بھر لی۔ طلعت حسین کے پروگرام میں، میں نے حکومتی نمائندے اور اپوزیشن کے ارکان سے خصوصی افراد کے روزگار اور دفاتر کے ماحول کو خصوصی افراد کی ضروریات کے مطابق ڈھالنے پر سوال کر ڈالا، جس کا گول مول جواب دے کر سب خاموش ہوگئے۔

اسکے بعد ندیم صاحب کے ساتھ میٹنگز میں جانے کا، اخبارات اور ریڈیوکو انٹرویوز کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ندیم صاحب اور میں کچھ کرنا چاہتے تھے لیکن وسائل، معذوری اور وقت کی کمی کی وجہ سے ہمارے منصوبے باتوں تک ہی محدود رہ جاتے تھے۔ سوشل میڈیا کی اہمیت اور افادیت کو دیکھتے ہوئے میں نے ندیم صاحب کو مشورہ دیا کہ کیوں نا خصوصی افراد کے مسائل کو اس نئے پلیٹ فارم پہ اجاگر کیا جائے۔ مسئلہ یہ تھا کہ نا تو ندیم صاحب فیس بک کا استعمال جانتے تھے اور نا ہی میں۔ خیر میں نے ندیم صاحب کو مشورہ دیا کہ آپ کو فیس بک پے جو بھی خصوصی شخص نظر آئے اسے فرینڈ ریکوسٹ بھیج دیں۔ اس طرح ہم نے تھوڑے سے عرصے میں 1500 کے لگ بھگ لوگوں کو اپنا دوست بنا لیا۔

ندیم صاحب اور میں نے خصوصی افراد کے مسائل، حکومتی بے حسی اور اقوام متحدہ کی شقوں پہ بحث کا سلسلہ شروع کر دیا۔ سب کچھ ایک دم نیا تھا۔ لوگ ہمیں پڑھ تو رہے تھے لیکن ہماری باتوں پر ردعمل نہیں دے رہے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم مایوس ہونا شروع ہوگئے ہمارا دل سوشل میڈیا سے اچاٹ ہونا شروع ہوگیا۔ پھر اچانک لائکس اور کمنٹس کا نا رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ صحافت کا طالب علم ہونے کے ناتے میں یہ سمجھ سکتا تھا کہ ہم ایک بہت بڑی تبدیلی لانے جا رہے ہیں۔ لیکن ندیم صاحب فوری نتائج کے خواہش مند تھے۔ چھ مہینے کے بحث و مباحثے کے بعد ندیم صاحب تمام تر ذمہ داریاں مجھے سونپ کر خود خاموش ہوگئے۔

سب کچھ ابھی تک ابتدائی مراحل میں تھا۔ میں نے کوشش کی کہ اپنے دوستوں کو مغرب میں خصوصی افراد کے حقوق کے حوالے سے چلنے والی تحریکوں کی جانکاری دوں، ان تحریکوں کے بانی ارکان کی زندگیوں پہ روشنی ڈالوں، پھر ان کے نتیجے میں بننے والے قوانین پے روشنی ڈالوں۔

اس ساری کارروائی نے ایک طرف ہمارے آگہی کے مشن کو عام کیا تو دوسری طرف نئے نئے لیڈرز کو سامنے آنے کا موقع فراہم کیا۔ آج سوشل میڈیا پہ خصوصی افراد کے بے شمار پیجز اور وٹس ایپ گروپس موجود ہیں جہاں خصوصی افراد نا صرف اپنے دکھ درد شئر کرتے ہیں بلکہ نئے نئے دوست بناتے ہیں، نوکریوں کے اشتہارات پوسٹ کرتے ہیں اور کاروبار کے نت نئے آئیڈیاز شیئر کرتے ہیں۔

ندیم صاحب کو آج سے پانچ ماہ قبل فالج کا اٹیک ہوا۔ بیماری کاٹنے کے بعد جب دفتر واپس آئے تو میں نے سوال کیا کہ ”ندیم صاحب خصوصی افراد کے مسائل کا حل کیا ہے؟“ تو جناب کہنے لگے کہ ”اگر صرف سو ( 100 ) خصوصی افراد میرا ساتھ دینے کو تیار ہو جائیں تو میں پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دے دوں اور اس وقت تک واپس نہ آؤں جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہ کیے جائیں۔“

میں جب بھی ندیم صاحب سے کہتا ہوں کے آپ نے لوگوں کو بولنا اور لکھنا سکھایا ہے تو وہ ہنس کے ٹال دیتے ہیں۔ وہ نہیں تسلیم کرتے کہ ان سے کوئی غیر معمولی کام ہوا ہے۔ یہ تحریر میں نے ندیم صاحب کو یہ یقین دلانے کے لئے لکھی ہے کہ ندیم بھائی میرے ہیرو ہیں اور میں انھیں اپنا آئیڈیل تسلیم کرتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).