تسی لوکاں نوں مارنا کتھوں سکھیا اے؟


کمال کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں جب بھی کسی با اثر سیاسی یا غیر سیاسی شخصیت کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ اُسے فوراً دل کی بیماری کا عارضہ ہوجاتا ہے۔ اللہ ناں کرے کہ کسی کو دل کی بیماری لگے، عشق میں روگ تو لگ سکتا ہے، بیماری بھی بیماری ہے، جو پوچھ کر نہیں آتی، لیکن جیسے ہی احتسابی ادارے کسی بھی سیاسی یا غیر سیاسی شخصیت کو جائز یا ناجائز گرفتار کرتے ہیں تو کچھ دنوں بعد انہیں درد دل کی تکلیف ہوجاتی ہے۔ اب تو اس بات کا سو فیصد یقین ہوگیا ہے کہ کبھی عمران خان گرفتار ہوئے تو انہیں بھی دل کی تکلیف ہوسکتی ہے، حالاں کہ ان کا دل تو ان کے پاس نہیں ہے، نہ جانے کس کس کا دل رکھ کر ٹوٹا ہے اور بہت سے اب بھی ’ہم قطار میں ہیں‘ کہتے کھڑے ہیں۔

اللہ تعالی انہیں صحت دے تاکہ وہ اپنے ’نئے پاکستان‘ کا حثر اپنے سامنے ہوتے دیکھ سکیں اور کسی دن شاید تسلیم کرلیں کہ ’نیا پاکستان‘ بنا کر انہوں نے غلطی کی۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ اگر پاکستان کے قیام کے بعد کچھ عرصہ مزید حیات ہوتے تو مجھے یقین ہے کہ ان کے خلاف بھی ہمارے ’محب الوطن‘ الزام لگا ہی دیتے، ویسے انہوں نے اپنی زندگی میں تو مخالفین کی کافی دشنام طرازی برداشت کی ہے۔ کھوٹے سکوں کے بارے میں بتایا تھا، لیکن پرانے پاکستان میں جب مادر ملت فاطمہ جناح کو غدار کہنے میں اشرافیہ کو شرم سے موت نہ آئی تو قائد اعظم کو کافر اعظم کہنے کے بعد نہ جانے کیا کیا کہا جاسکتا تھا۔ اگر وہ ”خدانخواستہ“ حیات ہوتے تو پاکستان بنانے کی ’غلطی‘ کو تسلیم کرلیتے۔

بات شروع کی تھی کہ احتساب کے شکار اشرافیہ گرفتاری کے بعد ’دل‘ کی بیماری کا شکار نظر آتے ہیں۔ اسی طرح پولیس کے زیر حراست تشدد سے مرنے والے بھی تقریباً سبھی ملزمان ’دل کے دورے‘ سے جاں بحق ہوجاتے ہیں۔ پولیس پنجاب کی ہو یا سندھ کی، یا پھر پاکستان کے کسی بھی علاقے کی، ان سب میں ایک ہی مماثلت نظر آتی ہے کہ زیر حراست ملزم، دل کا دورہ پڑنے سے ’انتقال‘ کرگیا۔ ماورائے عدالت قتل کے واقعات تو اتنے متنازعہ رہے ہیں کہ اس پر پی ایچ ڈی کرنے کی ضرورت ہے۔

آج مجھے صلاح الدین یاد آرہا ہے اور بڑی شدت سے یاد آرہا ہے۔ نہیں، نہیں یہ وہ ہاکی والا اصلاح الدین نہیں ہیں، جو دیسی کھا کر ہر کپ پاکستان لے آتے تھے، اب تو ہاکی والے کھلاڑی اپنے لئے چائے کا کپ بھی خود سے پیتے ہیں تو کوئٹہ ہوٹل والے کی طرف ایسے دیکھتے ہیں کہ جیسے وہ ’انہیں‘ پہچان لے گا۔ اب کرکٹریا کوئی مشہور کھلاڑی تو ہے نہیں جس کے سر میں خشکی ہو اور وہ کسی معروف شیمپو سے نہا کر گنجوں کو چڑاتے ہوں۔

شاید یہی چڑانا صلاح لادین کو مہنگا پڑا گیا۔ اے ٹی ایم سے کارڈ نکالنے والا، اپنے فن کا بلا کا ماہر تھا۔ کئی بار میرے ساتھ بھی ایسا ہوچکا ہے کہ کسی اے ٹی ایم مشین میں کارڈ پھنس جاتا تو سارے کوڈ آزمانے کے باوجود نہیں نکلتا۔ تو میں بھی کیمرے کی جانب دیکھ کر منہ چڑا دیا کرتا ہوں بلکہ شہادت کی انگلی کے برابر والی انگشت کو بلند کرکے بینکنگ نظام پر لعنت بھیجتا۔ لیکن اے ٹی ایم مشین کو نہیں توڑتا۔ کیونکہ یہ جرم ہے۔

پہلے پہل رحیم یار خان کے رہائشی صلاح الدین کے اس طرح کے عمل سے یہی سمجھا کہ شاید اس کا اے ٹی ایم کارڈ بھی ناکارہ مشین میں پھنس گیا ہوگا اور اس نے اشتعال میں آکر اپنا کارڈ نکال لیا۔ اس کا منہ چڑانا مجھے اچھا لگا۔ یہ خیال اس لئے آیا کیونکہ اس نے صرف ایک کارڈ ہی نکالا تھا، اے ٹی ایم سے کوئی رقم نہیں نکالی تھی، لیکن ہمارے میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا نے تو ’حد‘ ہی کردی، اسے اسامہ بن لادن بنا دیا۔ بندہ پکڑا گیا۔

کیونکہ ویڈیو اتنی وائرل جو ہوئی تھی۔ ا س کی معصومانہ حرکت کو چالاکی قرار دیا گیا۔ گرفتار ہوا تو اس کی پھٹی قیمیض دیکھ کر اندازہ ہوگیا کہ اس کی خاطرمدارت میں کوئی کمی نہیں کی گئی، پھر جب اس سے تفتیشی افسر نے وائرل ویڈیو میں سوالات کیے کہ وہ مختلف اشارے کس طرح کرتا ہے۔ اس پر ملزم نے پولیس کی طرف سے پوچھے جانے پر ٹرین چلنے کے لیے مختلف اشارے کر کے بتائے، جس پر پولیس نے پوچھا کہ تم نے یہ سب اشارے کہاں سے سیکھے۔ اس پر ملزم صلاح الدین نے کہا کہ اگر مجھے مزید نہ ماریں تو ایک سوال کروں جس پر پولیس افسر کی اجازت کے بعد ملزم نے پوچھا ”تسی لوکاں نوں مارنا کتھوں سکھیا اے؟ “

اس کے بعد صلاح الدین کی موت کی خبر آتی ہے کہ دل کے دورے سے انتقال ہوا۔ اُس نے جان لیا ہوگا کہ تسی لوکاں نوں مارنا کتھوں سکھیا اے؟ ایک ذہنی مریض، جس کا نام، نمبر اور پتہ انمٹ سیاہی سے کندا ہو ا تھا۔ وہ کیسا چور تھا۔ صرف کارڈ کیوں چرا رہا تھا، اے ٹی ایم کی مشین سے پیسے کیوں نہیں نکالے۔

خدا کے واسطے سوشل میڈیا اوربرقی ابلاغ والو اللہ کا خوف کرو، کیا انسانیت تم سب میں مر گئی ہے کہ حقیقت جانے بغیر ایک انسان کو پولیس کے ہاتھوں مروا دیا۔ اب وہ کس کو دیکھ کر منہ چڑائے گا۔ پرانے پاکستان کے جناح ؒ کو یا نئے پاکستان کے نیازی کو۔ جس کے خلافت مدینہ کے دعوے سن سن کے دنیا ہمارا منہ چڑا رہی ہے۔ کوئی تو صرف اس بات کا جواب دے دے کہ ’تسی لوکاں نوں مارنا کتھوں سکھیا اے؟ ‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).