گلشن زہرا کے پھولوں کو سلام


حسین ایک استعارہ ہے استعماری قوتوں کے خلاف جہاد کا۔ حسین ایک روشن مینارہ ہے ظلمت کدوں کے لاچار و بے کسوں کے لئے۔ حسین طاغوتی طاقتوں کے سامنے خم ٹھونک کے کھڑے ہونے کا نام ہے۔ کیسا شہزادہ تھا کہ سرور کونین کے کندھوں کا شہسوار، وہ جس کی غلامی کا پروانہ ملنے پر بائیس لاکھ مربع میل کا حاکم، جس کے لئے فرمایا گیا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا، عش عش کر اٹھے۔ وہ کہ جس کے لئے امام الانبیاء کے سجدوں کو طوالت ملے۔ اس سے بڑھ کر کسی کی شان کیا ہوسکتی ہے کہ محبوب رب العالمین کا فرمان ہے کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔

نبی محترم نے محبت بھی کمال کی اور سیدنا حسین نے بھی وفا کو نئی بلندیوں سے خوب روشناس کروایا۔ کیسی عظمت والی قربانی تھی کہ ہونے سے پہلے شرف قبولیت پا چکی تھی۔ کربلا کی سرزمین رزمگاہ ہرگز نہ تھی، اگر ہوتی تو نیم شب کی دھندلاہٹ میں لشکر باطل کی کیفیت اصحاب فیل سے یکسر مختلف نہ ہوتی۔ ایک سڑا ہوا بھوسے کا ڈھیر ہوتا جس پر تاریخ کی گرد جم کر اسے رسوائی و گمنامی کی تاریکیوں میں دفن کر چکی ہوتی۔ بلاشبہ ابدی روسیاہی ان بدبختوں کا مقدر ٹھہری جنہوں نے آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تہہ و تیغ کیا۔

جہاں تک سانحئہ کربلا کا تعلق ہے تو وہ حضرت ابراہیم کے خواب کی حقیقی تعبیر ہے۔ یہ بھلا کیسے ہوسکتا ہے کہ اسماعیل جیسے برگذیدہ پیغمبر کی قربانی کو محض ایک دنبے سے بدل دیا جائے۔ اسماعیل کے بدلے جنت کا دنبہ لایا گیا لیکن قربانی تو ابراہیم کی سب سے عزیز شے کی درکار تھی۔ چلتے چلاتے یہ قربانی عبداللہ بن عبدالمطلب کی طے پائی اور اس کے بدل سو اونٹ۔ مقصود وجہہ کائینات کا ظہور تھا۔ وہ نور جس نے اسماعیل کو قربان ہونے سے بچایا وہی عبداللہ کی بار آڑے آیا۔ یا یوں کہیے کہ حسین کے لئے راہ ہموار کی گئی کہ اللہ رب العزت کو ابراہیم سے جو مطلوب تھا وہ محمد سے لے۔

کیسا بردبار بیٹا تھا خاتون جنت سیدہ زہرا کا کہ مسلم بن عقیل سے لے کر علی اصغر و قاسم تک سب کو نانا کے دین کے لئے قربان کردیا۔ میر انیس اردو کے سب معتبر مرثیہ گو ہیں۔ یگانہ انداز بیاں و اسلوب نے میر انیس اور مرثیہ گوئی کو لازم و ملزوم کردیا ہے۔ یہ فن ان کا ذاتی نہی تھا بلکہ انہی کے بقول

عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاہی میں

پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں

نسل در نسل کا اوج کمال تھا جو عشق آل رسول کی بدولت اسے میسر آیا۔ میر انیس نے کربلا میں آل رسول کے عشق کو بیان کرنے کی سعی کی ہے۔ لکھتے ہیں کہ

خیمے سے برآمد ہوئے زینب کے جو دلبر

دیکھا کہ حسین ابن علی روتے ہیں در پر

بس جھک گئے تسلیم کو حضرت کی، وہ صفدر

منہ کرکے سوئے چرخ پکارے شہ بے پر

یہ وہ ہیں جو آغوش میں زینب کے پلے ہیں

بچے بھی تیری راہ میں مرنے کو چلے ہیں

کیسا وہ منظر ہوگا جب زمین پکار اٹھی کہ اے خدایا میری حیثیت کہاں کہ گلشن زہرہ کے پھولوں سے اپنے دامن کو سجا سکوں۔ یہ تو جنت کے گلدستے ہیں جو گرم ریگزاروں کی پیاس کو پیاسے رہ کر سیراب کر گئے۔

حسین عشق لافانی کی زندہ و جاوید مثال ہے۔ ایسا عشق کہ جس نے مقتل میں بھی سجدوں کو نئی معراج بخشی۔ حسین کی پیشانی کا وہ ایک لمس جو کربلا کی زمین کو نصیب ہوا خراج ہے دھرتی سے نکلنے والی ان تمام نعمتوں کا جن سے روئے زمین پہ زیست کو راحت میسر ہے۔ اس فلسفئہ قربانی نے دنیا کو دو گروہوں میں منقسم کردیا۔ ایک طبقہ وہ جو ظلمت کی کالی رات میں صراط مستقیم کے نور سے زمانے کو منور کرتا ہے اور دوسرا گروہ انسانیت کی اوج سے نیچے، بہت نیچے، زلت کی پستیوں میں گر کر انسانیت کی فلاح و امن میں نقب لگانے کی ٹوہ میں رہتا ہے۔

حق و باطل کی تفریق ہوچکی ہے۔ اب جو کوئی حسینی راہ کو اپناتے ہوئے مظلوموں کی دادرسی کرے تو دائمی عزت و سرفرازی اس کے گھر کی لونڈی بن کر رہ جائے گی۔ لشکر باطل کا زور بازو اسے دہکتی ہوئی آگ کا ایندھن اور بعد میں آنے والوں کے لئے مقام عبرت بنا کے چھوڑتا ہے۔ قیامت تک جہاں جہاں ظلم کا بازار گرم ہوگا حسین کا عزم مصمم حق کی آبیاری کرتا رہے گا۔ منصور آفاق نے خوب کہا ہے

بجھتے ہوئے چراغ کی لو زندہ ہوگئی

محراب۔ کائنات بھی پایندہ ہو گئی

یہ زندگی نکھر گئی، تابندہ ہو گئی

ٹکرائی اس سے موت تو شرمندہ ہو گئی

ہر سانس ایک ہدیہ تبریک بن گیا

شبیرانقلاب کی تحریک بن گیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).