اپنا خاکہ کھینچوں یا خاکہ اڑاوؑں


میں اپنے اعمال و اطوار کو اپنی نظر سے دیکھوں یا اوروں کی نظر میں۔ اور بھی تو مختلف طرح کے ہوتے ہیں جیسے پیار کرنے والے، دوست، مداح، ناقد۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں پیار کا دعوٰی ہوتا ہے اور بعض اوقات بلند بانگ نوع کا مگر تعلق کے کچھ عرصے بعد جب ضرورتیں اور اختلافات ٹکرانے لگتے ہیں تب محبت کی قلعی اگر یک دم نہیں تو بتدریج اترنے لگتی ہے، پھر آپ ان کی نظر میں وہ نہیں رہتے جو وہ سمجھتے تھے اور آپ بھی یہی سمجھتے تھے کہ وہ آپ سے پیار کرتے ہیں اور آپ جیسے ہیں، انہیں ویسے ہی قبول ہیں۔

آپ پر بھی وہ بعد میں کھلتے ہیں اور جیسے آپ کو وہ لگتے تھے، وہ ویسے نہیں تھے۔ ایک جانب تو آپ انہیں اور طرح کے، ظاہر ہے اچھے تو ہرگز نہیں، مگر کچھ برے یا بہت برے لگنے لگتے ہیں دوسری طرف ان کا گلہ ہوتا ہے کہ آپ ان کے ساتھ جیسے ہوا کرتے تھے، اب ان کے ساتھ ویسے نہیں رہے۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے، یہ قبیل بیویوں کی ہوتی ہے اور محبوبہ سے بیویوں میں ڈھلی عورتوں کے سامنے تو آپ کا زیر جامہ تک اترا ہوتا ہے، وہ آپ کی کھال اتار کے لوگوں کے سامنے یا کم از کم آپ کے سامنے رکھ سکتی ہیں اور نچے ہوئے آپ اپنے آپ کو بھلے تھوڑا نہ لگیں گے۔

پھر آپ کو ان کی نگاہ اور بڑی حد تک ان کے مبینہ پیار پہ شک ہونے لگتا ہے۔ دوست آپ کے وہ نقص بھی دیکھتے ہیں جو آپ کو اپنے نقص نہیں لگتے، وہ انہیں آشکار تو کر سکتے ہیں، آپ کے سامنے یا دوسرے دوستوں کے سامنے مگر بیشتر اوقات آپ کی نہ تو تحقیر کرتے ہیں نہ ہی آپ سے ترک تعلق کا سوچتے ہیں۔ اچھے دوست ہوں تو اگر آپ سے عارضی ترک تعلق کر بھی لیں تو بھی کسی نہ کسی وقت آپ سے پھر آ جڑتے ہیں۔ پیار کرنے والا ہو، چاہے بیوی ہی کیوں نہ ہو، آپ سے یکسر جدا ہو بھی جائے، تب بھی کبھی نہ کبھی احساس ہونے پر آپ کے نقائص کو نظرانداز کرنے کی روش اپنا سکتا ہے۔ مداح تو آپ کے اعمال سے زیادہ آپ کے افعال سے متعلق ہوتے ہیں جیسے آپ کے لکھنے، بولنے، گانے وغیرہ سے تو ان کی آپ سے متعلق پسندیدگی اگر آپ کا فن جوان رہے تو شاید ہی ماند پڑ سکتی ہو۔ رہے ناقد تو ان کی تو بات ہی کیا کرنی، وہ تو آپ میں جو اچھا ہے، اس کی تنقیص کا بھی جواز ڈھونڈ نکالیں گے۔

چلیے میں کوشش کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو اپنی نگاہ سے دیکھوں اور اس کا جواز بھی پیش نہ کروں، شروع میں بتاتا چلوں اگر میں کہوں کہ میں لاڈ پیار سے بگڑا ہوا بچہ ہوں تو یہ جواز نہیں حقیقت ہوگا اور ایسا ہی ہے۔ مجھے میری ماں کی مجھ سے لگن اور گھر میں موجود تین بہنوں کی محبت نے ہر وہ عام کام، جو کم و بیش سب کر سکتے ہیں، کو کرنے کے حوالے سے عضو معطل بنا دیا تھا، یا اگر آپ کو ناپسند نہ ہو، ہڈحرام بنا دیا ہے۔

خاص کام تو اپنا چنا ہوا ہوتا ہے جیسے لکھنا، تحقیق کرنا وغیرہ تو میں اس میں طاق ہوں۔ کچھ بھی ایسا ذمہ لے لوں تو جب تک اسے انجام تک نہ پہنچا لوں، مجھے کھانے پینے تک کی فکر نہیں رہتی۔ اس کے برعکس اگر مجھے ان کاموں میں سے کوئی ایک کام بھی کرنا پڑ جائے جو دوسرے میرے لیے کرتے ہیں تو مجھے وہ کرنا عذاب لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے ہمہ وقت ایک کام کرنے والے کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں میرا جی تو ہوں نہیں کہ غلیظ اور بھوکا رہوں اور اپنی ذہنی بالیدگی کو افضل جانوں۔

مجھے اپنی ذہنی بالیدگی کا اس قدر گمان ہے بھی نہیں، جیسے کچھ عرصہ پہلے شائع ہوئی میری خودنوشت لوگوں کو پسند آئی تو مجھے حیرت ہوئی، یقین جانیں اچنبھا ہوا کہ اس میں پسند آنے والی کون سی بات ہے۔ بیباکی اور راست گوئی۔ بیباک کوئی بھی چاہے تو ہو سکتا ہے، سچ بولنا البتہ مشکل ہوتا ہے مگر سچ بھی تو سب کا اپنا اپنا ہوتا ہے نا۔ مجھے اچھے اور صاف ستھرے، اچھی طرح استری ہوئے کپڑے پہننا پسند ہے مگر میں کپڑے نہیں دھو سکتا۔

اب تو مشین دھو دیتی ہے، مجھے مشین سے نکال کے سکھانے کو ٹانگنا بھی پسند نہیں۔ مجھے اچھا کھانا اچھا لگتا ہے مگر مجھے کھانا پکانا مصیبت لگتا ہے اور اچھا پکانا تو آتا ہی نہیں۔ آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ میں یہ کپڑے دھونے، استری کرنے اور کھانا پکانے کا ذکر کیوں لے بیٹھا وہ اس لیے کہ چالیس برس کی عمر میں بدیس پہنچ کے یہ سب کرنے پڑے۔ ایسا بھی نہیں کہ میں بالکل ہی بیکار شخص ہوں۔ ایک طویل عرصہ بیگم مئی سے ستمبر کے وسط تک اپنے دیہاتی گھر میں جا کے رہتی تھی تو میں سودا سلف بھی لے آتا تھا، کھانا بھی پکا لیتا تھا، مشین سے دھلے کپڑے نکال کے الگنی پر سوکھنے بھی دھر لیتا تھا اور کھانا بھی جیسا کیسا بنا لیتا تھا۔

اچھا کھانے کا شوقین تو ہوں مگر جیسے اچھی کتاب پڑھتے پڑھتے کہیں بھی اکتا جاوؑں تو فقرہ مکمل کیے بغیر ٹھپ دیتا ہوں اسی طرح کھانا کھاتے کھاتے بھی اکتا جاوؑں تو پلیٹ صاف نہیں کروں گا۔ روٹی سے بھی چند برکیاں رہنے ہی دوں گا۔ یہ عادت کچھ دیکھنے والوں کو چبھتی ہے تو میری بلا سے۔

ویسے میں میری بلا سے کہنے کا عادی نہیں ہوں اور نہ کہنا چاہتا ہوں مگر مجھے اگر سماج کی عائد کردہ اخلاقیات، فرائض وغیرہ وغیرہ کا احساس دلایا جائے تو مجھ سے زیادہ ان سے اغماض برتنے والا شاید ہی کوئی ہو لیکن میں اپنے طور پر ان سے اغماض برتنے کا قائل نہیں ہوں۔ حسب مراتب کا بے حد خیال کرتا ہوں، فرائض اتنے ہی نبھاوؑں گا جتنے نبھا سکتا ہوں۔ بیوی بچوں کی ضروریات، کیونکہ ماں باپ، بہن بھائیوں کی ضروریات پوری کرنے کا معاملہ سامنے اس لیے نہیں آیا کہ آمدنی محدود رہی، اس حد تک ہی پوری کر پایا اور پاتا ہوں جتنے میرے وسائل رہے یا جو بچے کھچے موجود ہیں۔

میں اخلاقیات کے انسانی اصولوں جیسے چوری نہ کرو، بدعنوانی سے بچو، جھوٹ نہ بول، کسی کا حق مت کھاوؑ جیسے بنیادی اوصاف کو بے حد سنجیدگی کے ساتھ لیتا ہوں، اس لیے تجاوز کرکے بیوی بچوں کی خاطر آمدنی میں اضافہ کرنے سے باز رہا ہوں۔ یوں میں وابستہ لوگوں کی نظر میں نہ اچھا شوہر ہوں اور نہ اچھا باپ۔ مجھے اس سے اختلاف ہے۔ اچھا شوہر اچھی بیوی کا ہی ہوا جا سکتا ہے۔ اچھی بیوی کیا ہوتی ہے وہ سب جانتے ہیں، اچھا شوہر وہ ہوتا ہے جو اس کی تمام ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ حسن سلوک سے بھی پیش آئے، جب ضروریات جو عموماً میرے معلوم وسائل سے زیادہ کی ہوں گی تو بیوی اچھی رہ نہیں سکتی یوں جناب میری طرف سے یک طرفہ حسن سلوک برتنے کا تقاضا بھی نامناسب ہوگا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2