کشمیر اور تلخ زمینی حقائق


مقبوضہ کشمیر پر بھارتی تسلط کے حوالے سے جمعہ کے یوم احتجاج کو کامیاب کہا جائے یا کمزور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایک بات واضح ہے جو لوگ گھروں سے نہیں نکلے، جنہیں جمعہ کی وجہ سے بارہ ساڑھے بارہ بجے اپنے بچوں کو سکولوں سے لانا تھا اور وہ ٹریفک روکنے کے عمل میں شامل نہیں ہو سکے، اُن کے دل میں بھی کشمیر ی عوام کا اتنا ہی درد ہے۔ وہ بھی بھارت کے ظالمانہ طرز عمل پر وہی رائے رکھتے ہیں جو احتجاج میں عملاً شریک ہونے والوں کی ہے۔

اگر اپوزیشن جماعتیں احتجاج کی اس کال میں شامل نہیں ہوئیں تو اس کے یہ معنی بھی ہرگزنہیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال سے پریشان نہیں یا بھارت کے بارے میں حکومتی جماعت سے مختلف رائے رکھتی ہیں۔ کم وبیش پوری پاکستانی قوم اس معاملے میں یکسو ہے۔ جب بانی پاکستانی قائداعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستانی کی شہ رگ قرار دے دیاتو اس پر دو آرا کیسے ہو سکتی ہیں؟ اس میں بھی کیا شک ہے کہ تقسیم ہندکے طے شدہ فارمولے کے مطابق کشمیر کا معاملہ، نا مکمل ایجنڈے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ اس مسئلے پر اقوام ِمتحدہ کی قرادادیں موجود ہیں، جن کے تحت کشمیری عوام کو استصواب رائے کے ذریعے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ پاکستانی کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ۔

کیا اس واضح موقف اور قومی اتفاق رائے کے باوجود، اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لیے بغیر، حکومت کو یک طرفہ طور پر اس طرح کے احتجاج کی کال دینی چاہیے تھی؟ اس سوال کا جواب ضرور تلاش کرنا چاہیے۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ جس کال سے قومی اتفاق رائے کے بجائے قومی تقسیم کا پیغام جائے، اس سے گریز لازم ہوتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جب اس طرح کی زوردار کال وزیراعظم کی طرف سے آتی ہے تو ساری دنیا کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ اسلام آباد میں متعین تما م سفارت کاروں نے اپنے اپنے ممالک کو رپورٹ بھیجی ہو گی کہ یہ احتجاج کتنا موثر اور بھر پور تھا اور اس میں بے ساختہ یا رضاکارانہ عوامی شرکت کا کیا عالم تھا؟ خاص طورپر بھارت نے بھی اس کا جائزہ لیا ہو گا۔ اگر تو یہ پیغام گیا ہے کہ پاکستان کے عوام نے بہت بھاری تعداد میں بھر پور طریقے سے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے اور وہ اس ایشو پر مرنے مارنے کے لیے تیار ہیں تو یقینا بھارت میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہو گی اور دنیا کے دارالحکومتوں میں بھی سوچ بچار شروع ہو گئی ہو گی کہ اس لاوے کو کس طرح ٹھنڈا کیا جائے۔

اور اگر پیغام اس کے بر عکس گیا ہے تو اس کے اثرات بھی ہماری توقعات کے برعکس اور منفی پڑیں گے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس وقت ہم نہایت ہی نازک اور حساس دور سے گزر رہے ہیں۔ ہمیں سرکاری، پارلیمانی، سفارتی اور عوامی سطح پر ہر قدم خوب سوچ بچار کے بعد پھونک پھونک کر اٹھانا چاہیے۔ سرکاری سطح پر اجتماع کی اپیل سے ہم نے خو د ہی یہ بات تسلیم کر لی کہ عوام کا ازخود، بے ساختہ اور پر جوش ردعمل سامنے نہیں آیا، جس کی وجہ سے حکومت کو اپیل کرنا پڑی۔

دوسری بات یہ سامنے آئی کہ حکومتی اپیل کے باوجود وہ مناظر دیکھنے میں نہیں آئے جن سے دنیا میں ایک طرح کا زلزلہ سا آ جاتا اور بھارت بھی کانپ اٹھتا۔ جب معاملات کی حساسیت اور سنگینی کایہ عالم ہو تو خود کو اس طرح کی کسی آز مائش میں ڈالنے سے پہلے سو دفعہ سوچ لینا چاہیے۔ اگر ایسا کرنا ضروری تھا تو بہتر ہوتا کہ اپوزیشن کو اعتماد میں لیا جاتا۔ تاکہ جگہ جگہ پی ٹی آئی، مسلم لیگ ( ن) ، پیپلز پارٹی اور دوسری جماعتوں کے قائدین ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے نظر آتے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہوا۔

اس معاملے کو اب ایک ماہ ہونے کو ہے۔ بھارت نے اتنا بڑا قدم اٹھانے سے پہلے یقینا اپنا ہوم ورک کیا ہوگا۔ جوکام وہ بہتر ( 72 ) برس تک نہیں کرسکا اب اس نے آنا فاناکیسے کر لیا۔ یہی مودی پچھلے پانچ برس بھی بھارت کا وزیر اعظم تھا، آج اسے یہ حوصلہ کیوں کر ہوا؟ اس سوال کا جواب نہایت سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ یقینابھارت نے ہماری اندرونی سیاسی، اقتصادی اور سفارتی صورتِ حال کا جائزہ لیا ہو گا۔ اب ہم چاہیں بھی توکیسے چھپائیں کہ ہماری معیشت انتہا ئی بُری حالت میں ہے۔

ہماری جی۔ ڈی۔ پی یعنی معا شی ترقی کی شرح نمو تقریباً چھ فی صد سے نیچے گر کر آدھی یعنی تین فی صد رہ گئی ہے۔ ہم نے ایک سا ل میں ریکارڈ قرضے لیے ہیں۔ ہمیں آئی۔ ایم۔ ایف نے اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ مہنگائی راکٹ کی رفتارسے اوپر جاری ہے اور عوام چلا رہے ہیں۔ سرمایہ کاری رک گئی ہے۔ بے روز گاری بڑھ رہی ہے۔ پہلی بار آئی۔ ایم۔ ایف نے قرض کی ہر قسط کو فاٹف کی رپورٹ کے ساتھ نتھی کر دیا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر سکڑ رہے ہیں۔ ڈالر کے مقابلے میں ہمارے روپے کی شرحِ مبادلہ (قدر) خطے کے تمام ممالک حتی۔ کہ افغانستان سے بھی کم ہو گئی ہے۔ ہم محتاجی کی زندگی گزار رہے ہیں اور ہماری آواز میں کمزوری آگئی ہے۔

بھارت تو نہ کل دوست تھا، نہ آج ہے اور نہ آئیندہ ہو گا۔ وہ وہی کچھ کر رہا ہے جس کی توقع دشمنوں سے رکھی جاسکتی ہے۔ لیکن موجودہ صورتِ حال اور بھارت کے یک طرفہ اقدام نے ایک اور سوال ہمارے سامنے لاکھڑا کیا ہے کہ ہمارے دوست کہاں ہیں؟ کیا کوئی دوست ہے بھی یا نہیں؟ بھارتی اقدام کے بعد، کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں جس نے لگی لپٹی رکھے بغیر دو ٹوک انداز میں ہمارا ساتھ دیا ہو۔ چین ایک استثنیٰ۔ ضرور ہے لیکن لداخ کے حوالے سے بھارت کے ساتھ اس کے اپنے مسائل بھی ہیں۔

ترکی اور ایران کے بیانات میں بھی وہ بات نہیں جس کی توقع ہم کر سکتے تھے۔ گذشتہ دنوں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے قائدین یہاں تشریف لائے تو ہم نے اُن کا فقید المثال استقبال کیا۔ یقینا یہ ہمارے دوست ممالک ہیں۔ انہوں نے آئی۔ ایم۔ ایف سے پہلے ہماری مالی مدد بھی کی۔ لیکن مو جودہ بحران میں وہاں سے ہمارے حق میں کوئی رسمی سا بیان بھی سامنے نہیں آیا۔ بلکہ اس کے برعکس متحدہ عرب امارات نے بھارتی موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔

اسی پر بس نہیں ہوا۔ مودی امارات اور بحرین کے دوروں پر گئے تو اُنہیں اعلیٰ ترین سول اعزازات سے نوازا گیا۔ کل تک ہم بغلیں بجا رہے تھے کہ امریکی صد ر ڈونلڈٹرمپ نے کشمیر پر ثالثی کا وعدہ کر لیا ہے۔ لیکن اب یہ وعدہ بھی باقی نہیں رہا۔ مودی نے ٹرمپ کے ساتھ بیٹھ کر کہہ دیا کہ یہ ہم دونوں ممالک کا باہمی مسئلہ ہے اور ہم باہمی مسائل پر ثالثی پسند نہیں کرتے۔

ہمارا مسئلہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ ہم خود احتسابی نہیں کرتے۔ آج بھی ہمیں یہی مسئلہ درپیش ہے۔ ہمارے ٹی۔ وی چینل کتنے شو کرتے ہیں، بڑے بڑے تجزیہ کار کشمیر کا مقدمہ کتنے زور سے پیش کرتے ہیں، کتنے اچھے ترانے اور نغمے گائے جاتے ہیں، کتنے منہ توڑجواب دیے جاتے ہیں، کتنے زبردست ٹویٹس کیے جاتے ہیں، کتنی زور دار تقریریں کی جاتی ہیں، کتنی جاندار قراردادیں منظور کی جاتی ہیں، کتنی ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ کیا ان تمام باتوں کا عالمی سوچ تبدیل کرنے سے کچھ تعلق ہے؟ اگر نہیں تو یہ سب کچھ کر کے سوائے اپنے آپ کو فریب دینے کے اور کیا حاصل ہو گا؟ اگر آج بھی ہم اپنے آپ کو ہی فریب دیتے رہے اور تلخ زمینی حقیقتوں کا سامنا نہ کیا تو نتائج کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔

نوٹ: ”مہاتیر کے دیس میں۔ “ کی آخری قسط انشا اللہ اگلے کالم میں۔ ۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).