نواز شریف سے ڈیل: کیا حقیقت اور کیا افسانہ ہے؟


ان دنوں ایک بار پھر سے ڈیل کی باتیں زوروں پر ہیں۔ کوٹ لکھپت جیل میں قید نواز شریف سے بعض اہم شخصیات کی ملاقاتوں کے حوالے سے خبریں عام ہیں۔ اس سے پہلے کہ سمجھوتے کی کوئی راہ نکلتی، مصدقہ ذرائع سے یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ قیدی کی ”ہٹ دھرمی“ کے باعث کام ایک بار پھر بیچ میں ہی رہ گیا ہے۔ حکومت کے نام پر ملک پر مسلط سلیکٹڈ سیٹ اپ کو تو ایک عرصے سے تشویش ہے کہ کہیں انہیں بائی پاس کر کے یکدم کوئی فیصلہ نہ کر لیا جائے۔ اٹل بات تو یہ ہے کہ کسی قسم کے این آر او سے اس حکومت کا کچھ لینا دینا نہیں۔ اصل فریقوں میں جب بھی کوئی معاہدہ طے پا گیا، اس پر فوری عملدرآمد ہو جائے گا۔ اس حوالے سے امکانات بھی موجود ہیں اور خدشات بھی پائے جاتے ہیں۔

سارے معاملے کو ذرا پیچھے جا کر دیکھنا ہو گا تب ہی زیادہ بہتر اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ نواز شریف کے دور حکومت میں ہی جب ان کو ہٹا کر کوئی دوسرا چہرہ سامنے لانے کے منصوبے پر عملدرآمد شروع کیا گیا تو دھرنوں سے لے کر جے آئی ٹی تک کے مختلف حملوں اور پھر بعد میں بھی یہی کہا گیا کہ آپ ملک چھوڑ کر چلے جائیں، مریم نواز کو بھی ساتھ لے جائیں۔ آپ کی پارٹی کسی نہ کسی شکل میں حکومت کرتی رہے گی۔ حتیٰ کہ جب نواز شریف بستر مرگ پر پڑی اپنی اہلیہ کو لندن میں چھوڑ کر بیٹی کے ہمراہ گرفتاری دینے کے لیے آرہے تھے تو اس وقت بھی انہیں روکنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔

پہلے دن لندن میں پیغام رسانی ہوئی، پھر ابوظہبی ایئرپورٹ پر آخری مرتبہ بعض پیشکشیں کی گئیں لیکن وہ لوٹ آئے۔ نواز شریف کے جیل جانے کے بعد کئی بار ایسی خبریں سامنے آئیں ہیں کہ کہیں نہ کہیں کوئی کھچڑی ضرور پک رہی ہے۔ یہ جو عمران خان بار بار کہتے سنائی دیتے ہیں کہ کسی کو این آر او نہیں دوں گا وغیرہ، وغیرہ، بنیادی طور پر ان کا مخاطب اپوزیشن کے اسیر رہنماﺅں سے کہیں زیادہ وہ طاقتیں ہیں جو ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کسی این آر او یا ڈیل کے حوالے سے سب سے زیادہ نقصان شہباز شریف کو پہنچ رہا ہے۔ خود ن لیگ کے اندر بھی ایک بڑے حلقے کا خیال ہے کہ اگر نواز شریف ڈیل کر کے نکل جائیں تو شہباز شریف کے لیے صرف سیاست ہی نہیں اقتدار کے دروازے بھی کھل سکتے ہیں۔

وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس اندازے میں کتنی صداقت ہے۔ آئیے !اب جائزہ لیں کہ این آر او کی ضرورت کس کو ہے اور اس کی راہ میں کیا رکاوٹیں حائل ہیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کوفی الحال اس حوالے سے ذرہ برابر دلچسپی نہیں۔ دوست مسلم ممالک بھی اسی لائن پر چل رہے ہیں۔ چین اپنی پالیسی کے تحت کبھی دوسرے ممالک کے ایسے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔ ترکی اور قطر اس مسئلے میں پیغام رسانی تو کر سکتے ہیں لیکن فریقین کے لیے قابل قبول فارمولا تیار کرنا شاید ان کے بھی بس میں نہیں رہا۔

نئی حکومت بنے ایک سال ہو گیا، ہر شعبہ تنزلی کا شکار ہے۔ سلیکٹروں کو بھی اس بات کا خوب اندازہ ہے کہ اقتصادی استحکام تو دور کی بات ملکی معیشت کا ڈھانچہ دھڑام سے گرنے کو ہے۔ سیاسی استحکام کا یہ عالم ہے کہ نواز شریف تو دور کی بات ان کی صاحبزادی مریم نواز کی سیاسی سرگرمیاں بھی موجودہ سیٹ اپ کی بقا کے لیے سخت مضر قرار پائی ہیں۔ آصف زرداری بہن سمیت گرفتار ہیں۔ اب دھرنے کے خوف سے مولانا فضل الرحمن کو دھرنے سے روکنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے اور یہ سب کچھ حکومت نہیں کررہی بلکہ ہر شعبے میں سارا کام خود سلیکٹروں کو سنبھالنا پڑرہا ہے۔

الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر مکمل غلبہ پانے کے باوجود عوامی رائے عامہ تیزی سے حقیقی صورت حال کو نہ صرف سمجھ رہی ہے بلکہ اس پر تبصرے بھی آ رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حکمران طبقے کو ملکی مفادات سے کہیں زیادہ دلچسپی اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے میں ہوتی ہے۔ خواہ اس کی کچھ بھی قیمت ادا کرنا پڑے۔ شاید ایسا ہی ہے لیکن جب حکمران طبقے کے اپنے مفادات بھی خطرے کی زد میں آ جائیں تو پوری بساط الٹنے میں دیر نہیں لگتی۔ بظاہر اب تک یہی سوچا جا رہا ہے کہ پہلے مرحلے میں کسی طرح نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کو باہر بھیج کر جان چھڑا لی جائے۔ کچھ اس طرح کا ماحول لگے کہ وہ سرنڈر کر کے فرار ہو گئے۔ اس سے نہ صرف ان کی اپنی پارٹی بلکہ ملکی سیاست پر زبردست اثرات مرتب ہوں گے۔ اس طرح کی توقعات آصف زرداری سے بھی باندھی جا رہی ہیں۔

اینکروں، تجزیہ کاروں اور کالم نویسوں کا ایک مخصوص ٹولہ جو آئے روز اسیر سیاسی رہنماﺅں سے اربوں ڈالر وصول کرنے کی ”خوشخبریاں“ سناتا رہتا ہے، دراصل اسی مشن پر ہے کہ جیسے ہی کوئی ڈیل طے پائے، اصل معاملات کو سامنے لانے کی بجائے خوب دھول اڑائی جائے تاکہ موجودہ نظام کے لیے سیاسی خطرات کم ہو سکیں۔ سادہ سی بات ہے اسیر لیڈروں میں سے جو کوئی بھی رقم ادا کرنے پر رضا مندی ظاہر کرتا ہے وہ اپنی سیاسی موت کے پروانے پر خود دستخط کر دے گا۔ ایسا کیونکر ممکن ہے؟

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2