کشمیر میں ’رپورٹنگ تو دور صحافیوں کے لیے باہر نکلنا بھی مشکل‘


سرینگر

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں کرفیو، راستوں پر رکاوٹیں اور مواصلاتی نظام کی بندش کے باعث صحافیوں کے لیے معلومات فراہم کرنے میں شدید دشواریاں ہیں تو وہیں اخبار، ٹی وی اور ریڈیو سے وابستہ افراد کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنا بھی خطرے سے خالی نہیں۔

سرینگر میں بی بی سی کے نامہ نگار ریاض مسرور نے اس سلسلے میں چند صحافیوں سے بات کی ہے جو کشمیر میں گذشتہ ایک ماہ کی بندشوں کے باوجود یہاں رپورٹنگ کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

خود ریاض مسرور اس تناؤ بھرے ماحول میں بی بی سی کے ریڈیو پروگرام نیم روز میں ہمیں ہر گزرتے دن کے ساتھ کشمیر کی صورتحال سے باخبر کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کشمیر پر انڈیا کے فیصلے سے وفاقی توازن بگڑنے کا خدشہ

عرب ممالک کشمیر کے بجائے انڈیا کے ساتھ کیوں؟

شجاعت کے قتل کا الزام پاکستانی شدت پسندوں پر

وہ کہتے ہیں کہ ‘کشمیر کی صورتحال پر رپورٹ کرنا نہ صرف مقامی صحافیوں کے لیے مشکل ہے بلکہ باہر سے آنے والے بین الاقوامی اداروں کے صحافیوں کے لیے بھی بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے۔’

’کشمیر میں ایک ماہ سے ایک جیسی صورتحال ہے۔ بندشیں، پابندیاں اور قدغنیں۔ تجارتی اور تعلیمی سرگرمیاں معطل ہیں۔ لیکن اس میں صحافیوں کو سب سے بڑا مسئلہ یہ پیش آتا ہے کہ وہ اپنا کام بھیج نہیں پاتے ہیں (کیونکہ) انٹرنیٹ، ٹیلی فون بند ہیں۔

ریاض مسرور مزید کہتے ہیں کہ ’دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جب (صحافی) یہ ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتے ہیں تو راستے میں کس طرح کی مشکلات آتی ہیں۔‘

سرینگر

کشمیر میں صحافی کا ایک دن کیسے گزرتا ہے؟

اس معاملے پر ہمارے نامہ نگار نے انڈیا کی ریاست کیرلا کے فری لانس صحافی شون ستیش کی رائے لی ہے جو کئی مقامی اور بین الاقوامی جریدوں کے لیے کام کرتے ہیں۔

شون کے لیے کشمیر میں رپورٹنگ کرنے کا ایک دن کیسا ہوتا ہے؟ جانیے شون کی اپنی زبانی:

’میں ایک ویڈیو کے لیے (سرینگر کے) لال چوک گیا تھا کہ صحت کے حوالے سے کیا مسائل درپیش ہیں۔ تو میں لال چوک سے آگے جا رہا تھا اور میں نے سوچا کہ جامعہ مسجد جا کر دیکھتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ وہاں پر کوئی اور تو جا نہیں رہا تھا۔‘

’تو ایک نوجوان نے اپنے موٹرسائیکل پرمجھے لفٹ دی۔ انھوں نے کہا کہ میں آپ کو چھوڑ دوں گا (کیونکہ) وہاں رکشہ نہیں ملے گا۔میرا کیمرا میرے کندھے پر تھا۔ ہم جا رہے تھے تو نواٹا میں ہمیں سی آر پی ایف (انڈیا کی نیم فوجی پولیس فورس) نے روکا۔‘

’انھوں نے روک کر اس نوجوان سے کافی سوال پوچھے اور اس کی تلاشی لی لیکن اس سے صرف ایک صفائی کرنے والا کپڑا ملا۔ لیکن اس کو کہا گیا کہ تم تو پتھراؤ کرنے میں ملوث ہو اور مجھے بولا کہ تم اس کے ساتھ کہاں جا رہے ہو (اور) کیا کر رہے ہو۔‘

’انھوں نے میرا فون دیکھا، پھر انھوں نے بولا کہ یہ تو بہت گڑبڑ انسان ہے۔ میری ایک جہاز کی تصویر تھی تو انھوں نے کہا کہ یہ تصاویر کھینچنا تو منع ہے اور غیر قانونی ہے اور آپ کو اس پر قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وہ اس نوجوان کو زد و کوب کر رہے تھے تو میں نے کہا کہ میں نے ہی ان سے لفٹ مانگی تھی، ان کی غلطی نہیں۔ آپ ان کو چھوڑ دیں۔‘

سرینگر

وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’میرا کیمرہ لے لیا، فون لے لیا اور جب میں نے اپنا کارڈ دکھایا تو انھوں نے کہا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اور پھر وہ مجھے نواٹا پولیس سٹیشن لے گئے اور وہاں جا کہ بولا کہ ہم بغیر اجازت گھوم رہے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ دفعہ 144 لگی ہوئی ہے یا نہیں۔‘

’انھوں نے مجھے بولا کہ نہیں۔ پھر پتا نہیں کس بنا پر انھوں نے مجھے زیرِ حراست رکھا۔ پھر وہ مجھے جموں و کشمیر پولیس کو سونپ کر نکل گئے۔ یہاں انھوں نے ایک بار پھر میرا کیمرہ اور فون دیکھا اور انھیں اس حساب سے لگا کہ میں نے کچھ غلط نہیں ہے۔‘

شون گذشتہ کئی دن سے کشمیر میں بطور صحافی کام کر رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ’یہاں کام کرنا تقریباً ناممکن ہے۔‘

’کل میں سوچ رہا تھا کہ اگر مجھے حراست میں لیا جائے تو میں کسی کو بتا بھی نہیں پاؤں گا۔ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ آنے جانے میں بہت مسائل ہیں۔ انتظامیہ کہتی ہے کہ سب کچھ نارمل ہے اور حالات بہتر ہو رہے ہیں اور سب کچھ صحیح ہے لیکن جب ہم جاتے ہیں تو فوج یا پولیس ہمیں جانے نہیں دے گی اور بہت سارے سوال پوچھے گی اور کوئی چیز فلم بند کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ماحول کی کشیدگی تو ایک طرف یہاں ’کوئی آزادی نہیں۔‘

یہ بھی پرھیے

کشمیر: صحافیوں کو درپیش مشکلات

’لائن آف کنٹرول پار کرنے کے بعد موت کا خوف نہیں رہا‘

کشمیر ڈائری: کیا شناخت چھینی یا مٹائی جا سکتی ہے؟

سرینگر

’میموری کارڈ خالی کروا لیتے ہیں‘

ہمارے نامہ نگار نے فوٹو جرنلسٹ زوہیب سے بھی بات کی جنھیں سنہ 2016 میں اپنا پیشہ وارانہ کام کرتے ہوئے آنکھ میں آہنی چھرہ لگا تھا جس کی وجہ سے انھیں طویل مدت تک علاج کرانا پڑا۔

زوہیب کہتے ہیں کہ انھیں اب بھی اس آنکھ میں تکلیف رہتی ہے اور ان کا علاج تین سال سے جاری ہے لیکن اس کے ساتھ وہ صحافتی فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا ’جب میں 2016 کے بعد پھر سے ان کشیدہ حالات کی کوریج کے لیے آیا تو سوچا کہ شاید اب حالات بہتر ہوں گے۔ لیکن جب یہاں آئے تو پتہ چلا کہ ہر کام قسطوں میں ہو رہا ہے۔‘

’یہاں پر اب قسطوں کی زندگی گزارنی پڑے گی کیونکہ ذرائع مواصلات کی مکمل بندش ہے۔‘

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں اگر راہ چلتے کسی صحافی کو سیکورٹی فوسسز کے اہلکار روک لیں تو عموماً کیا سلوک ہوتا ہے؟ اس بارے میں زوہیب بتاتے ہیں کہ ’جو شون کے ساتھ ہوا وہ تو ہر مقامی صحافی کے ساتھ روز ہوتا ہے۔ کیونکہ کہ آپ جہاں بھی رکیں تو سی آر پی ایف والوں کے موڈ بگڑ جاتے ہیں۔‘

سرینگر

جب شیلنگ سے ایک بزرگ کی ہلاکت کی کوریج کے لیے زوہیب کشمیر کے ایک علاقے جا رہے تھے تو انھیں وہاں سیکورٹی فورسسز کے ایک اہلکار نے روک لیا۔

’سمجھ بھی آتا ہے کہ یہ ان کا کام ہے۔ اس نے کہا کہ مجھے ضلعی مجسٹریٹ کا اتھارٹی لیٹر دو۔ میں نے کہا کہ (میرے پاس) کرفیو پاس ہے۔ تو وہ اتھارٹی لیٹر پر اڑ گیا۔ مجھے وہاں تقریباً آدھا، ایک گھنٹہ رک کر اسے یہ سمجھانا پڑا کہ کرفیو پاس اور اتھارٹی لیٹر ایک ہی چیز ہے۔‘

کشمیر میں انٹرنیٹ کی بندش کے باعث صحافیوں کو معلومات کی منتقلی کے لیے میمری کارڈ کا بھی استعمال کرنا پڑتا ہے جس میں وہ اپنی تحریر، تصاویر اور ویڈیوذ رکھتے ہیں۔

زوہیب کشمیر میں سال 2016 کی بندشوں کا 2019 سے کیا موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ مشکلیں تو 2016 میں بھی تھیں (اور) آج بھی ہیں۔ بہت سارے ایسے صحافی ہیں جو فری لانس (کام) کرتے ہیں اور 2019 میں ان کے میمری کارڈ خالی کروائے گئے۔‘

شون اور زوہیب اس بات پر اتقاق کرتے ہیں کہ سیکورٹی فوسسز کے اہلکار اکثر صحافیوں کو روک کر ان کے میمری کارڈ خالی کروا لیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp