انڈیا کے زیر انتظام کشمیر: ’آرٹیکل 370 کے خاتمے پر ہمیں اپنی انسانیت ختم نہیں کرنی چاہیے‘


کشمیر

گذشتہ ہفتے، 24 اگست کی دوپہر، سرینگر میں ایک خاندان اپنے ٹیلی وژن کو بے چینی سے دیکھ رہی تھیں۔ان کو یہ جاننا تھا کہ کیا حکومت ان کے شہر میں 12 ارکان پارلیمان پر مشتمل وفد کو داخلے کی اجازت دیتی ہے یا نہیں۔

ایک متنازعہ اینکر نے ممبران پارلیمنٹ پر ‘پاکستان کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے’ اور ‘معمولاتِ زندگی کو درہم برہم’ کرنے کے حکومتی الزام کی توسیع کی۔ جیسے ہی یہ خبر چلی کہ حکومت ارکان پارلیمان کو واپس دہلی بھیج رہی ہے، کمرے میں موجود چہرے اتر گئے۔ ان میں سے ایک خاتون سکرین سے پیچھے ہٹتے ہوئے بولی ‘ہاں کشمیر میں حالات معمول کے مطابق ہیں۔ جیسے کے قبرستان میں سب کچھ معمول پر ہے۔’

گلیوں میں گشت کرتے فوجی، ہڈتال اور خوف میں بند کاروبار،بغیر بچوں کے سکول، خالی کالجز کے گیٹس پر نیم فوجی دستے،نقل و حمل پر سخت پابندی، ٹرانسپورٹ، ڈاک، موبائل، انٹرنیٹ اور زیادہ تر لینڈ لائن کی معطلی، ہمارے گذشتہ ہفتے کے دورے کے دوران کشمیر میں ‘معمولات زندگی’ کی نشاندہی کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

آرٹیکل 370 تھا کیا اور اس کے خاتمے سے کیا بدلے گا؟

’انڈیا معاملہ وہاں لے گیا ہے جہاں سے واپسی مشکل ہے‘

کیا آرٹیکل 370 کا خاتمہ چیلنج کیا جا سکتا ہے؟

ہمارا وادی کا دورہ ایک ذاتی دورہ تھا جو کئی ماہ قبل طے کیا گیا تھا۔ پھر اگست کے شروع میں حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر میں اضافی فوج بھیجنے کا فیصلہ، لاک ڈاؤن کا نفاذ، آرٹیکل 370 اور 35 اے کا خاتمہ اور جموں کشمیر کو یونین علاقوں میں تقسیم کرنے کی پیشرفت ہوئی۔ دوستوں اور رشتہ داروں نے ہمارے اس سفر پر جانے کی حوصلہ شکنی کی۔ لیکن ہم نے محسوس کیا کہ ایک ایسے وقت میں جب وادی پر حقیقت میں ایک آہنی پردہ ڈال دیا گیا ہے، تو وہاں موجود لوگوں تک پہنچنا اور بھی ضروری ہے، خاص طور پر جب ہم میں سے ایک کا تعلق انڈیا کے ایک کشمیری پنڈت خاندان سے ہے۔

ہمارے دورے کے دوران، لوگوں کے ساتھ ملاقات میں درد، غصہ اور عدم اعتماد غالب تھا۔ جو چیزیں ہم نے زیادہ سنی وہ ‘دھوکہ’ اور’ گھٹن محسوس کرنا’ تھیں۔ ہم نے لوگوں کو شدید عدم تحفظ کا سامنا کرتے دیکھا۔ اور لوگوں میں بہت خوف تھا۔ ہمیں ملنے والے 50 افراد میں سے زیادہ تر نے اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کو کہا۔

کشمیر بندش

’ہمیں اندھیرے میں چھوڑ دیا ہے‘

جنوبی کشمیر کے ایک گاؤں میں ذہنی اذیت کی شکایت کرنے والے سیب کے ایک کاشتکار نے ہمیں بتایا ‘ہمارے دلوں اور دماغوں میں کوئی سکون نہیں۔ مستقبل میں کیا ہو گا یہ سوچ کر ہم اضطراب کا شکار ہیں۔ میں انڈیا کے لوگوں سے التجا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے درد کو سمجھیں۔ ہم بھی امن کی خواہش رکھتے ہیں۔’

جذبات سے عاری آنکھیں لیے ان کی چار سالہ بیٹی ہماری ایک گھنٹے کی طویل گفتگو کے دوران ایک لفظ بولے بغیر ہمارے پاس بیٹھی رہی۔

اس عمل کو ملک کے سامنے ‘جرات مندانہ’ اور ‘فیصلہ کن’ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ لیکن اس نے یہاں لوگوں کی زندگیوں پر گہرا اثر ڈالا ہے کیونکہ اب وہ ریاست کے آئندہ اقدامات اور حکمت عملی سے بے خبر ہیں اور معتبر معلومات تک عدم رسائی کا شکار ہیں۔ سرینگر میں ایک خاتون نے ہم سے پوچھا ‘ہمارے تمام لیڈروں کو گھروں میں قید کر دیا گیا ہے یا جیلوں میں بھیج دیا گیا ہے۔ لوگ کہاں جائیں؟ ہم کس سے اپنا درد بیان کریں؟ ایک اور شخص نے کہا: ‘ہمیں اندھیرے میں چھوڑ دیا گیا ہے۔’

بچوں سمیت ہزاروں کی تعداد میں گرفتاریاں، اور اس بات کے ڈر نے کہ حکام نجانے اور کسے پکڑ لیں، لوگوں کو مزید خوفزدہ کر دیا ہے۔ بہت سے مقامی صحافیوں نے حکام کی جانب سے دھمکیوں اور سینسر شپ کے بارے میں بتایا، اور یہ بھی کہ انڈیا میں موجود ان کے اداروں نے انھیں حقائق کی رپورٹنگ سے روک دیا ہے۔

حکومت کے دوررس فیصلوں پر ناانصافی کا احساس، بندوق کی طاقت سے خاموش کرانے کے احساس سے بڑھ گیا ہے۔ ایسے وقت میں حکومتی فیصلے کے بارے میں بھی تلخی پائی جاتی ہے۔ اچھے کاروبار کے موسم میں وادی کو ٹورسٹوں سے خالی کرا لیا گیا جس سے مقامی آمدن کو شدید دھچکا لگا۔

مختلف کاروبار لاکھوں روپے کے قرض میں ڈوب چکے ہیں اور بہت سا مال فروخت نہیں ہو سکا جسے عید کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ شادیوں کے موسم میں یا تو شادیاں منسوخ ہو چکی ہیں یا انھیں بہت سادگی سے کیا گیا ہے۔ خطے کے مشہور خانسامے (وازے) اور ان کے ملازم بلکل فارغ رہے جبکہ اس ماہ میں وہ سب سے زیادہ کمائی کر لیتے تھے۔ ضلع شوپیاں ناشپاتی اور سیب کی کاشت کا مشہور علاقہ ہے۔ ہم نے وہاں پھلوں سے لیس درخت اور بازار میں خاموشی دیکھی۔ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جو کروڑوں روپے کماتا تھا اور جہاں کاروباری سرگرمیوں کی گونج ہونی چاہیے۔

کشمیر بندش

‘پوری زندگی انڈیا کے ساتھ تھا، لیکن اب نہیں’

بہت سے لوگوں نے صرف انڈین حکومت سے ہی نہیں بلکہ لوگوں سے بھی دھوکے کا شکوہ کیا۔ سرینگر میں ایک ہجوم نے ہم سے پوچھا ‘ 20 دن گزر گئے ہیں۔ بے شمار انڈین شہری خاموش کیوں ہیں؟ کیا وہ ان دلائل سے مطمئن ہیں؟’

ایک آدمی نے مداخلت کرتے ہوئے کہا ‘حتیٰ کے سپریم کورٹ کو بھی کوئی خیال نہیں۔’ 60 برس کے لگ بھگ ایک شخص نے اداسی سے ہمیں بتایا ‘ اپنی پوری زندگی میں انڈیا کے ساتھ تھا اور اپنے دوستوں سے اس کی جمہوریت کے بارے میں بحث کرتا تھا لیکن اب نہیں۔’ بہت سے لوگ حیران تھے کہ انڈین جمہوریت اب کہاں چلی گئی ہے۔

مواصلاتی نظام کی بندش سے پوری آبادی پر شدید عملی اور جذباتی اثرات پڑ رہے ہیں جو کہ نہ صرف حکومت بلکہ ہم میں سے بیشتر لوگ نظر انداز کر رہے ہیں۔

تصور کریں کہ آپ کا اپنے چاہنے والوں سے تمام رابطہ رک جائے۔ اور آپ کو ان کی فکر ہو رہی ہو۔ یا آپ کو ایک ہفتے تک بغیر فون اور انٹرنیٹ کے گزارنا ہو۔ جموں و کشمیر میں لاکھوں لوگوں کے ساتھ گذشتہ ایک مہینے سے یہی ہورہا ہے اور بندشوں میں نرمی کے کوئی آثار بھی نہیں نظر آ رہے۔

ایک جوان آدمی نے ہمیں 100 روپے دیے اور کہا کی کہ ہم یہ ان کے بینک اکاؤنٹ میں جمع کروا دیں تاکہ ان کا بھائی اپنے امتحان کی فیس بھر سکے۔ ایک اور نے کہا ‘یہاں ایک خوف کی فضا ہے کہ اسی طرح ہر دن کیسے گزرے گا۔ سب بند ہے اور انتظار کے سوا کرنے کو کچھ نہیں۔’

ایک ماں، جس نے اپنی بیٹی اور نواسے سے گذشتہ 20 دنوں سے بات نہیں کی، ہمیں بتایا ‘حکومت نے ہمیں دنیا بھر سے منقطع کر دیا ہے۔ کتنا تنہا بنا کے رکھ دیا ہے ہمیں ۔’

‘خوف کی وجہ سے کچھ نہیں بولیں گے کہ پتہ نہیں کون سن لے’

ایک عمر رسیدہ وکیل نے بتایا کہ ان کے ایک کزن کا انتقال ہوگیا تھا اور انھیں اس بات کا چار دن بعد پتہ چلا۔

ہم نے کئی گھروں میں دیکھا کہ لوگ ٹی وی پر دو میں سے ایک اردو چینل دیکھ رہے تھے اور ان پر پورے دن کشمیر سے باہر بسنے والے بچوں اور پیاروں کے پیغامات چل رہے ہیں۔

کشمیر

حیرت انگیز طور پر مستقبل کے سوال پر کسی کی طرف سے خوشی یا امید کا اظہار نہیں کیا گیا، یہاں تک کہ نوجوانوں کی طرف سے بھی نہیں۔ شوپیاں کے ایک گاؤں کے ایک نوجوان نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ حکومتی اقدامات سے عام آدمی کی زندگی نظر انداز ہوجائے گی اور عسکریت پسندوں کی ایک نئی نسل پیدا ہوجائے گی جس سے مزید خونریزی ہوگی۔

شاعری سے لگاؤ رکھنے والے ایک استاد نے کہا ‘ہم جیسے لوگ تو خاموش رہیں گے اور خوف کی وجہ سے کچھ نہیں بولیں گے کہ پتہ نہیں کون سن لے اور عسکریت پسندوں اور سیکورٹی فورسسز سے کیا ردعمل ملے۔’

سرینگر کے ایک عمر رسیدہ کشمیری پنڈت کی رائے یہ تھی کہ ‘(حکومت کی) کشمیر پر کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔ کبھی کوئی پالیسی رہی ہی نہیں۔ ہم کشمیریوں کو ہی یہ سب برداشت کرنا پڑے گا۔’

ہماری تمام گفتگو میں کشمیریوں کی جانب سے عزت، وقار اور خودمختاری کے مطالبے کیے گئے جن سے ہمیں معلوم ہوا کہ کشمیری اب بھی انڈیا کے شہریوں کو اپنے جیسا انسان ہی سمجھتے ہیں، بے شک موجودہ حالات میں باہمی تعاون کے فقدان کا تاثر ملتا ہے۔ جن لوگوں نے انڈیا کے نیوز چینلوں پر کشمیر کی دل شکن عکاسی اور حکومتی ظلم کی شکایت کی، انھوں نے بھی اپنی رائے کے اظٌہار کے لیے ہمیں چائے پر بلایا۔

‘ہم ادھر جیل میں ہیں، لیکن وہ بھی ہمارے ساتھ ہی ہیں۔’

کشمیر

جب انھیں یہ پتہ لگا کہ ہم میں سے ایک کشمیری ہے تو انھوں نے اپنی مہمان نوازی مزید بڑھا دی۔ تقریباً سب ہی نے ہم سے واپسی پر ہاتھ ملایا اور پیار محبت سے ہمیں الوِداع کہا۔بعض موقعوں پر تو ہم نے فورسز کی جانب بھی عوامی ہمدردی کے جذبات دیکھے۔ سرینگر کے ایک شخص نے کہا ‘پریشانی سے بھرے ان چہروں کو دیکھیں۔ہم ادھر جیل میں ہیں، لیکن وہ بھی ہمارے ساتھ ہی ہیں۔’

وادی سے واپسی پر ہمیں جمہوریت قائم کرنے والے اداروں کی حالت پر مایوسی ہوئی۔ اور اس بات پر بھی کہ کس طرح ہم میں سے زیادہ تر جموں و کشمیر کے لوگوں کو حکومت اور انڈین ٹی وی چینلوں کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

حکومت اب بھی اپنے ہر اقدام کا دفاع کرتی ہے اور ان کے مطابق مزاکرات کی کوئی اہمیت نہیں۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ مواصلاتی نظام کی بندش سے حالات معمول میں آ رہے ہیں۔ وادی میں 10 لاکھ فوجیوں کا ہونا، جس میں ہر سات لوگوں کے لیے ایک فوجی ہے، انسداد دہشت گردی کے لیے ضروری ہے۔ ٹی وی چینلوں پر قوم کی فتح کا بیان چل رہا ہے۔ لیکن سب سے اہم یہ کہ انڈین شہری اس تصویر کو بغیر کوئی سوال کیے تسلیم کر رہے ہیں، بے شک وہ اونچی آواز میں اسے منظور نہ کر رہے ہوں۔

اس سب میں ہمیں اس بات کی فکر نہیں کہ فوجی دباؤ سے لوگوں کو’متحد’ کر کے، یا ان کی آوازیں بند کر کے، یا ان کی تکلیف کو رد کر کے، ہم اپنی خود کی انسانیت کو بھی ختم کر رہے ہیں۔

انِکیت آغا تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ چِترانگدا چودھُری ایک آزاد صحافی اور محقق ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp