ملحدوں کا حسین


عیدین کی طرح محرم کی بھی اپنی رسومات تھیں، اپنا رواج اور اپنا طریق تھا۔ محرم کے دنوں میں سبیلیں لگتی، علم اور تابوت برآمد ہوتے۔ حسین کے فقیر بھی کبھی کبھی نظر آ جاتے، پر سوز آواز میں گلوکار مرثیے اور نوحے پڑھتے، تمام نہیں لیکن کچھ ذاکرین دلنشین انداز میں بیان باندھتے۔ ان رسومات اور ان رواجوں میں مجھے برصغیر کی ثقافت میں رچے ایک غم کا عنصر ملتا۔ ان سے میں اپنے آپ کو کبھی کم، کبھی زیادہ وابستہ پاتا۔

ایک ردھم سے ہونے والا ماتم بھی اسی طرح اپنا رنگ لیے ہوتے پر جیسے ہی زنجیر زنی اور قمہ زنی شروع ہوتی، یہ سارا رومانس ہوا ہو جاتا۔ بعد میں انگاروں کا ماتم بھی دیکھنے کو ملا۔ خود اذیتی کے کسی طریق کی نہ میں کبھی کوئی توجیہہ تراش سکا نہ اس کو ٹھیک ماننے کا کوئی فلسفہ ڈھونڈ سکا۔ مجھے کل بھی یہ سب پسند نہیں تھا اور آج بھی یہ سب پسند نہیں ہے۔ سو ہر ایسے ہی موقعے کی طرح میں مکمل طور پر اس ثقافتی مظہر کے بھی ایک رنگ میں نہیں رنگ سکا۔

جو اچھا لگا، اس کو دل میں جگہ دے دی، جو ناپسند ہوا، اس سے فاصلہ اختیار کر لیا۔ یہ سادہ سا فلسفہ زندگی بھر میرے بہت کام آیا۔ اسی کا ثمر ہے کہ نہ میں نے کبھی جنون پرور عشق کیا نہ کبھی خون آشام نفرت۔ میں کبھی کسی کی عقیدت میں ایسا گرفتار نہیں ہوا کہ اسے بشر سمجھنا چھوڑ دوں نہ کبھی کسی سے ایسی کراہت محسوس کر سکا کہ اسے جانوروں میں شمار کر لوں۔ کاملیت میں یقین نہ رکھنے کی وجہ سے ہی خوب سے خوب تر کی طلب کبھی ماند نہ پڑی۔ سفر میں پیر آج بھی اسی لیے کسی ایک جگہ پر گڑے نہیں ہیں۔

بچپن گزرا، لڑکپن بیتا، کچھ اور بڑے ہوئے تو شعری روایت سے ناتہ جڑا۔ غالب، میر، خلیق، انیس، دبیر اور جوش کو پڑھا اور پڑھتے ہی رہے۔ مرثیہ کیسی دل گیر، دل جو، دل نشین اور طاقتور صنف ہے، اس کا احساس ہوا تو سمجھ آیا کہ غم کیسے دل میں جگہ بناتا ہے اور کیسے اس دل سے پھوٹنے والا چشمہ ایک پورے جگ کو سیراب کرتا ہے۔ درد، دکھ، سوز، گداز، رنج، ٹیس اور دکھن کے کیسے کیسے روپ دیکھے۔ آنکھوں نے پہلی دفعہ احساس کی شدت سے نم ہونا ان ہی دنوں میں سیکھا۔

کچھ اور بڑے ہوئے تو تاریخی اور سیاسی مباحث کا دبستان وا ہوا۔ موافق اور مخالف نقطہ ہائے نظر پڑھے تو جانا کہ مکمل سچ کچھ نہیں ہے، کہیں نہیں ہے۔ مذہب اور فرقے کی بحث سنی تو معلوم ہوا کہ نہ ظلم کی کوئی متعین تعریف ہے نہ مظلوم کی کوئی مخصوص پہچان ہے۔ سب کے اپنے اپنے عقیدت کے بت ہیں اور جس طرف منہ ہے ادھر خدا ہے، جدھر پشت ہے ادھر شیطان ہے۔ کمال یہ ہے کہ ہر ایک کا رخ مختلف ہے۔ مذہبی تصور کو ایک آلہ ہزار بین پایا جس میں ہر کہانی ہشت پہلو نکلی۔ ایک دشت ادبار ہے جس میں ہر ایک کتنے ہی ذرہ ریگ آنکھوں میں لیے گھوم رہا ہے۔ سب کو سنا، سب سے بات کی، حاصل کن ایک جہان خراب نکلا۔ سو حقیقت کو کھودنے سے زیادہ استعارے اور علامت پر نظر کرنی شروع کر دی۔

اب میں بہت بڑا ہو گیا ہوں۔ بال سفید ہو گئے ہیں۔ بچپن سے بڑھاپے کی سب یادیں اب تجربہ کہلاتی ہیں۔ محرم کے دن اب بھی اسی طرح آتے ہیں۔ میرے دیکھنے کا انداز بدل گیا ہے۔ میرے دوستوں کا حلقہ اب وسیع تر ہے اور یہ دوست عجیب سے طلسم کے گرفتار ہیں۔ اس طلسم میں کسی کو امان نہیں ہے۔ محرم کا چاند نکلتا ہے تو اس کے ساتھ تفرقے، طعن و تشنیع اور فتوی سازی کے کارخانہ دھڑا دھڑ کام شروع کر دیتے ہیں۔ عام دنوں میں مہذب رہنے والے کتنے ہی چہروں پر دندان مار اگ آتے ہیں۔ اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے۔ وہ لوگ جو مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے کو افتخار سمجھتے ہیں وہ بھی مغلظات کے بازار میں اپنا سودا اسی تندہی سے فروخت کرتے ہیں جس دل جمعی سے ظالم کا دفاع کرنے والے اپنی آواز لگاتے ہیں۔ ہر کوئی کٹکھنا ہوا پھرتا ہے۔

روایت ہے کہ پٹھانے خان سے کسی نے پوچھا کہ ”سئیں، دوستی آپ کی ’کمیونسٹوں‘ سے ہے پھر بھی آپ مجلس پڑھنے جاتے ہیں؟ “
پٹھانے خان پہلے تو چپ رہے پھر بولے ”سئیں، لوک امام حسین کوُں نئیں روندے، اپنے ڈُکھاں کوُں روندے ہن۔ “ (سائیں، لوگ امام حسین کو نہیں روتے، اپنے دکھوں کو روتے ہیں۔ )

اے کاش کہ ایسا ہی ہوتا پر اب لوگ اپنے دکھوں کو رونے کے بجائے محرم میں اپنے پرانے بدلے چکانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ جس کو الحاد سے کد ہو وہ اس ملحد پر شست باندھ لے گا جو خواہ دس روز کے لیے سہی، امام کو بھولنے کو تیار نہیں۔ جس کو مذہب سے بیر ہو وہ مجلسوں کی مبالغہ آرائی کو اچھالتا پھرے گا۔ لگتا ہے اب بس یہی دکھ باقی رہ گئے ہیں کہ ہر کوئی میری ڈگر پر کیوں نہیں ہے۔ کیا ملحد کا حسین پر سے حق ختم ہو گیا ہے۔ کیا حسین کسی ذاکر سے خاص ہو گیا ہے۔ کیا حسین واقعی صرف ان کا ہے جو مذہب کی دستار اوڑھے ہیں۔ کیا حسین کی تاریخ پر شک کرنا ہر اس شخص کے لیے لازم ہو گیا ہے جسے مذہب سے کوئی شکوہ ہے؟ کیا مجرد تصور اور وجود ایک برابر ہو گئے ہیں؟

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad