ملحدوں کا حسین


میں مذہبی اور تاریخی روایات کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ تاریخ کے ٹوٹے پھوٹے مطالعے نے یہ سکھا دیا ہے کہ ہر ایک کا اپنا سچ ہے اور حقیقت کو پا لینے کا غرور ایک مغالطے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ ہزاروں سال پہلے بیتے واقعات کسی راوی کے تخیل کی پیداوار، کسی فاتح کا جبر، کسی پیشوا کی ہوس اقتدار، کسی قصہ گو کی داستان طرازی یا کسی موقع پرست کی عصبیت، سب ہو سکتے ہیں۔ سچ ہزار آئنوں میں بٹا ہے، سر آئینہ ایک سراب ہے، پس آئینہ ایک پرچھائیں۔

میں نے اسی لیے اس صدیوں کے تسلسل میں سچ ڈھونڈنا چھوڑ دیا ہے اور اپنے لیے بس کچھ تمثیلیں چن لی ہیں، کچھ استعارے سینے سے لگا لیے ہیں اور کچھ علامتوں کو لباس کی طرح پہن لیا ہے۔ میرا یہ عالم مثال مذہبی عصبیت اور سیاسی وابستگی سے پرے کا معاملہ ہے۔ اور اس دنیا میں حسین میرے لیے ایک روشن خیال ہے۔ اس سے زیادہ کیا ہے اور اس سے کم کیا ہو سکتا ہے، میں اس بحث سے آگے نکل آیا ہوں۔

اور یہ اس لیے نہیں ہے کہ تاریخ دانوں کی اکثریت حسین کی استقامت پر متفق ہے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ وہ تاریخ بھی کہیں کسی طاق میں دھری مل جائے گی جو اس عزیمت پر شک کا اظہار لیے دلائل کا انبار لگائے گی۔ سو میں تاریخ کو پرے رکھ دیتا ہوں۔ میں یہ اس لیے بھی نہیں مانتا کہ حسین نواسۂ رسول ہوتے ہوئے رسول کے پیروکاروں کے ہاتھوں سر قلم کرواتے ہیں۔ مجھے نسب سے مطلب نہیں ہے اور میں کسی پیروکار سے کوئی توقع نہیں رکھتا۔

سو میں نسب کے حوالوں اور پیروکاروں کی شقاوت کو فراموش کر دیتا ہوں۔ میں یہ اس لیے بھی نہیں مانتا کہ روایت اس پر صاد کرتی ہے۔ روایت کا کیا ہے، اس بازار میں جس طرح کی چاہو، مل جاتی ہے۔ میں روایتوں کو جلا کر ان کی خاک ہوا کے سپرد کر دیتا ہوں اور پھر، اس سب کے بعد میں حسین کی طرف لوٹتا ہوں کیونکہ مجھے اس زندگی میں ایک ایسا استعارہ، ایک ایسی تمثیل، ایک ایسی علامت درکار ہے جو مجھے انکار سکھا سکے۔

کلمہ پڑھنے والوں کو تو یہ یاد ہوگا کہ پہلی شہادت بھی ”لا“ کی ہے۔ انکار سب سے مشکل کام ہے۔ سوچو ذرا، کون ہے جو سچے اور جھوٹے خداؤں کا انکار کر سکا ہے۔ کون ہے جو اندھی طاقت کا انکار کر پاتا ہے۔ کون ہے جو بالادست فلسفے سے انکار کی ہمت لا سکتا ہے۔ کون ہے جو روایت کا انکار کرے، کون ہے جو ذہن سازی سے انکار کرے، کون ہے جو نفرت اور محبت کے بنے بنائے سانچوں کا منکر ہو پاتا ہے۔ کون ہے جو عصبیت سے، قرابت سے، گروہ سے، قبیلے سے، مسلک سے، عقیدے سے، دستور سے اور اس کائنات کی ہر اس شے سے انکار کر سکے جو اس کی زندگی تو آسان کر دے پر اس کے آدرش کو مٹا ڈالے۔

ہم سب آسانی کی زندگی جیتے ہیں۔ اپنی زنجیروں سے خوش ایک عمر بتاتے ہیں اور عافیت سے ایک دن فنا ہو جاتے ہیں۔ پر اسی بیچ کبھی کبھی، سالوں اور صدیوں کے فاصلے پر کہیں دور کسی بے نشاں جزیرے سے کوئی صدا آتی ہے، اژدہام انساں میں ایک نوا گونجتی یے، کوئی بدن صلیب پر کیلوں سے نصب کر دیا جاتا ہے، کوئی جسم دار پر ریسمان سے جھولتا ہے، کہیں کسی کا سر کتاب کی ضربوں سے کھول دیا جاتا ہے، کوئی زہر کا پیالہ پیتا ہے، کسی کے زندہ تن کو شعلوں میں جھونک دیا جاتا ہے اور کوئی کربلا کے میدان میں اپنا سر کٹوا دیتا ہے۔ ازل سے لے کر ابد تک انکار کا ایک ہی کردار ہے، ہاں، اس کے بہت سے نام ضرور ہیں اور انہی میں سے ایک نام حسین کا ہے۔

یہ کردار انکار کے استعارے ہیں۔ یہ سب ”لا“ کی تمثیلیں ہیں۔ ان کو تاریخ، روایت، مذہب، مسلک سے ہٹ کر دیکھنا پڑتا ہے۔ یہ کسی کے نہیں ہیں، یہ سب کے ہیں۔ سو حسین بھی کسی کا نہیں ہے، حسین سب کا ہے۔ حسین زاہد کا بھی ہے، حسین رند کا بھی ہے، حسین ملحد کا بھی ہے، حسین ذاکر کا بھی ہے، حسین فاسق کا بھی ہے، حسین درویش کا بھی ہے، حسین میرا بھی ہے، حسین تمہارا بھی ہے۔ کیونکہ تم ہو کہ میں ہوں، کبھی نہ کبھی، کہیں نہ کہیں ایک لمحہ ایسا طلوع ہوتا ہے جو انکار کی گھڑی ہوتی ہے۔ اور یہی وہ گھڑی ہے جو ظالم کو مظلوم سے، غالب کو مغلوب سے، صادق کو کاذب سے، غافل کو ہشیار سے اور فانی کو باقی سے جدا کرتی ہے۔ سو جب انکار کا یہ لمحہ آئے، حسین کو یاد کرنا۔ فیصلہ آسان ہو جائے گا۔
پہلی تاریخ اشاعت: Sep 4, 2019

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad