صلاح الدین کی پولیس حراست میں ہلاکت، تشدد زدہ لاش کی تصاویر پر سوشل میڈیا پر ہنگامہ


پاکستانی سوشل میڈیا پر آج پھر صلاح الدین صفِ اول کے ٹرینڈز میں شامل ہیں جس کی وجہ رحیم یار خان میں پولیس کی حراست میں ہلاک ہونے والے صلاح الدین کی تصاویر شیئر کی گئیں جن میں اس پر تشدد کے نشانات ہیں۔

ان تصاویر میں لاش پر تشدد کے نشانات ہیں جن کو شیئر کیا جا رہا ہے اور اس پر شدید غم و غصہ دکھایا جا رہا ہے۔

ذکیہ نیر نے بی بی سی اردو کے فیس بُک پیج پر لکھا ‘ہم حیوانوں کے معاشرے میں بستے ہیں کبھی سیالکوٹ میں بے گناہ معصوم بھائی مار دیے جاتے ہیں کبھی تین سو کی چوری پر کراچی میں بچے کو اتنا مارتے ہیں کہ جان ہی چلی گئی پھر نا سمجھ چھوٹے بچوں کے سامنے ماں باپ کا بے دردی سے قتل اور توہین رسالت کے نام پر بنا کسی ثبوت ڈنڈوں لاتوں مکوں اور گولیوں سے کسی ماں کا لخت جگر چھلنی کر دینا۔ اور کبھی پولیس کے عقوبت خانوں میں ان گنت لوگ بنا کسی جرم کے قانون کی درندگی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ہم عادی معاشرے کے باسی ہیں یہ واقعات ہوتے رہیں گے۔ فیس بک پر کچھ دن بحث ہوگی۔ پھر کسی اور بے لگام کے ہاتھوں کسی بے گناہ کا قتل۔ اور ہم محض تماشائی۔’

 

احسن باجوہ نے ٹویٹ کی کہ ‘میری پی ٹی آئی کو ووٹ دینے اور ان کے لیے مہم چلانے کی وجہ یہ تھی کہ عمران خان پاکستان میں سماجی انصاف یقینی بنائیں گے۔ اور یہاں دو نہیں ایک پاکستان ہو گا۔ ایک پاکستان جو ہر ایک کا ہو گا قطع نظر اس کے کہ کسی کا سماجی رتبہ کیا ہے۔ خان ہمیں مایوس مت کرو۔’

نعمان محب کاکاخیل نے لکھا ‘پولیس افسران جنھوں نے صلاح الدین پر تشدد کیا وہ اب بھی باوردی ہیں اور ریاست کے تحفظ میں ہیں۔ کیا ریاست کی مشینری ہمارے لیے وجود رکھتی ہے اور ہماری وجہ سے وجود رکھتی ہے یا ہم ان کے لیے اور ان کی وجہ سے وجود رکھتے ہیں؟’

ہارون شاہد نے لکھا ‘میں عمران خان سے محبت کرتا ہوں مگر جب اگلی بار جب وہ یہ الفاظ کہیں کہ ‘مدینہ کی ریاست میں’ تو میرے ذہن میں پہلا خیال اور تصویر جو آئے گی وہ صلاح الدین کی لاش کی ہو گی اور اس کے والد کی ہو گی جو اسے گلے لگانے کے منتظر ہیں، ساہیوال کے قتلِ عام کی ہو گی۔’

 

نعیم خان نے لکھا ‘پولیس نے ویران علاقوں میں اپنے پرائیویٹ ٹارچر سیل قائم کئے ہیں۔ جہاں ان کا اپنا قانون چلتا ہے۔ تھانہ توصرف دکھاوے کے طور پر ہوتا ہے۔جہاں سب کچھ ہرا ہرا نظر آتا ہے۔’

طاہر شیخ نے لکھا ‘راؤ انوار جیسا قاتل آزاد گھوم رہا ہے اور صلاح الدین جیسے ذہنی معصوم لوگ پولیس تشدد سے ہلاک ہو رہے ہیں۔’

ساجد محمود خٹک نے کمنٹ لکھا کہ ‘پولیس میں بھرتی کرنے کے بعد جسمانی تربیت سے زیادہ ان کی اخلاقی تربیت پہ زور دینا چاہیے کوئی بھی مہذب انسان ان کے پاس جانے سے ڈرتا ہے’۔

اس حوالے سے انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس کیپٹن ریٹائرڈ عارف نواز خان نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں انھوں نے کہا کہ ‘ان دونوں واقعات کے متعلقہ لوگوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جا چکی ہے۔ مقدمات دونوں جگہوں پر درج ہیں۔ اور اعلیٰ سطح پر اس کی انکوائری کی جا رہی ہے۔’

انھوں نے مزید کہا کہ ‘پہلے دن سے میرا اس پر بڑا واضح موقف ہے کہ جو بھی پولیس کے اندر اس طرح کی کالی بھیڑوں موجود ہیں جو قانون کو ہاتھ میں لیتے اور اپنی تفتیش کے دروان تشد سے اور غلط طریقوں سے کسی انسان کی جان چلی جاتی ہے ۔ ایسے ملازمان کے لیے میرا واضح پیغام ہے۔ کہ وہ کبھی بھی ہماری فورس کا حصہ نہیں رہیں گے۔ اور نہ ہی میں ایسے لوگوں کو برداشت کروں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32510 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp