تمہارے باپ کا پیسہ تھا؟


پاکستانی ہی بلکہ عمران خان دنیا کی سیاسی تاریخ کا واحد حکمران ہے جس کی حکومت گرانے کے لیے کسی خارجی تحریک کی نہیں بلکہ اس کے ماضی قریب کے ہزاروں دعوے، وعدے اور بیانات ہی کافی ہیں۔ بقول ناصر کاظمی آج ان وعدوں اور دعووں کا حال یہ ہوچکا ہے

میرے دعوے، تیرے وعدے
ھو گئے باری باری مٹی

یوں تو موصوف نے بائیس سال کا تھوکا ایک سال میں ہی چاٹ دیا اور اس لحاظ سے انہیں ماسٹر آف یو ٹرن، دروغ گو، منافق، عہد شکن، متلون مزاج اور عجلت پسند جیسے القابات سمیت بے شمار ناموں سے یا کیا جاتا ہے۔ مردہ وعدوں کی پٹاری سے اب تک ملنے والی سب سے بڑی، متعفن اور سڑاند زدہ لاش تقریباً تین سو ارب کی چوری ہے، جو کپتان نے اپنے دیرینہ سرمایہ کاروں اور صنعت کار دوستوں کو شیر مادر سمجھ کر دان کی ہے۔ شماریات و معاشیات کے ماہرین اس حوالے سے یہ ہوش ربا انکشاف کر رہے ہیں کہ یہ رقم 1970 سے تا حال معاف کیے جانے والے مجموعی قرضوں کے حجم سے بھی زیادہ ہے۔

کپتان نے پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے ڈاکے کو قانونی تحفظ دینے اور غریب عوام والی حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ خوانی کے لیے صدارتی آرڈینس کا سہارا لیا ہے۔ یاد رہے کہ وہی کپتان ہے جو معمولی خرد برد کی مبہم سی حکومتی خبر پا کر نواز شریف کے دور حکومت میں فوراً لاڈلوں کی طرف سے فراہم کیے گئے کنٹینر پر چڑھ کر ہزیان بکنے لگتا تھا۔ اس کی ایسی تقریروں کا آغاز اور انجام ہمیشہ ایسے جملے ہوتے تھے: ”کیا یہ پیسے تمہارے باپ کے ہیں؟ برطانیہ میں تو ایسا نہیں ہوتا۔ ریاست مدینہ میں کیا ایسے ڈاکے پڑتے تھے؟ کرپشن اور لوٹ مار کی انتہا ہو گئی“ وغیرہ۔

سب کو معلوم ہے کہ کپتان اپنے طرز عمل اور رویوں میں انتہائی متلون مزاج، غیر متوقع اور مجموعہٕ اضداد ہے۔ ایک طرف تو سادگی کا ڈھونگ رچانے کے لیے مہمانوں کو چائے کے ساتھ دو چار بسکٹ پیش کرتا ہے اور دوسری طرف تین سو ارب کی رقم ان لوگوں میں ریوڑیوں کی طرح بانٹ دیتا ہے۔ ایک طرف خرچوں میں کمی کا چرچہ کر کے وزیر اعظم ہاٶس کی بھینسیں پچیس لاکھ میں فروخت کرتا ہے اور دوسری طرف سرکاری پیسوں سے چورانے ہزار کا ماھانہ دودھ خریتا پھرتا ہے۔

ایک طرف ایوان وزیر اعظم سے غیر ضروری پروٹوکول اور فالتو ملازمین کو نکال کر پیسے بچانے کے ڈرامے کرتا ہے اور دوسری طرف بنی گالہ میں حکومتی خرچ پر دو سو سیکیورٹی اہلکار تعینات کر دیتا اور بنی گالا محل سے کتے سمیت بذریعہ ہیلی کاپٹر وزیر اعظم ہاٶس تشریف لا کر ماہانہ کروڑوں روپے اڑا دیتا ہے۔ ایک طرف قوم کے درد کا ناٹک رچا کر وزیر اعظم ہاٶس کی گاڑیاں اونے پونے بیچ ڈالتا ہے اور دوسری طرف موقع پاکر چوروں کی طرح اربوں روپے کی نئی گاڑیاں خرید لیتا ہے۔

اس پر مجھے فرزند حضرت امام حسین رض حضرت زین العابدین کے حوالے سے یہ واقعہ یاد آ جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ واقعہٕ کربلا کے بعد کوفہ کے کچھ لوگ زین العابدین رح کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض پرداز ہوئے کہ امام صاحب یہ بتائیے کہ مکھی کو مارنا کبیرہ گناہ ہے یا صغیرہ؟ اس پر جناب امام پہلے روئے اور پھرمسکرائے۔ اس کے بعد تاسف بھرے انداز میں جواب دیا کہ کم بختو! کل تم لوگوں نے نواسہٕ رسول صلعم اور ان کے اہل خانہ کو شیر خوار بچوں سمیت کس سفاکی اور بے دردی سے خاک کربلا پر ذبح کردیا تھا اور آج معصوم بن کر پوچھ رہے ہو کہ مکھی مارنا گناہ صغیرہ ہے یا کبیرہ؟

حرف آخر یہ ہے کہ تین سو ارب کے سب سے بڑے ڈاکے کی واردات کیا لاڈلوں کو ساتھ ملا کر ڈالی گئی یا انہیں بے خبر رکھا گیا؟ کیونکہ آج اتنے دن گزرنے کے بعد نہ لاڈلے نے اس واردات پر کچھ کہا اور نہ لاڈلے کو ملک پر مسلط کرنے والے لاڈلوں میں سے کسی کے کانوں پر جوں تک رینگی۔ یاد رہے یہ وہی محب وطن، جاں فروش اور امانت و دیانت کے پتلے ہیں جو نواز دور میں اس پورے خطے میں سب سے تیزی سے ترقی کرتی معیشت پر تسلسل سے اپنی ”تشویش“ سے دنیا کو آگاہ کرتے تھے اور پیٹ میں پاکستان کی ہوش ربا کرپشن پر ان کے پیٹوں میں لگاتار مروڑ اٹھا کرتے تھے۔ آج یہی لوگ بقول شیخ رشید یوں لگتا ہے کہ ”ستُو پی کر سو رہے ہیں۔“
نوٹ: سوشل میڈیا پر احتجاج کے بعد متعلقہ آرڈیننس واپس لے لیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).