سید محمد باقر: یاد یار مہرباں آید ہمے


عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ

ناصر کاظمی کے اس مصرع کے حوالے سے مجھے ایک ایسی شخصیت یاد آ رہی ہے جو میرے لئے بظاہر بالکل اجنبی تھی مگر جن کی انسان دوستی نے مجھے حیران کر دیا۔

2011 کو برس تھا اور اگست کا مہینہ تھا۔ میں ایک شادی میں شرکت کے لئے واشنگٹن ڈی سی میں تھی۔ میرے شوہر کا فون آیا کہ کوئی بزرگوار ہیں جو کینیڈا سے فون کررہے ہیں اور تم سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مجھے ان صاحب کا نمبر دیا کہ چاہو تو ابھی بات کر لو۔ رات آٹھ بجے کا وقت تھا۔ میں نے فون ملایا۔ ان کی آواز کی کمزوری اور ٹوٹتی سانسوں کی بے ترتیبی سے عمر کی کہنہ سالی کا اندازہ لگانا مشکل نہ تھا۔

یہی کوئی اسی برس کا سن رہا ہو گا۔ میرے تعارف کے بعد انہوں نے ازحد خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ وہ عرصے سے میری تحریریں اردو ٹائمز (شمالی امریکہ کا سب سے کثیر اشاعت اخبار) میں پڑھ رہے ہیں اور مجھ سے گفتگو کے متمنی تھے۔ لیکن اردو ٹائمز والے اپنی پالیسی کے تحت میرے فون نمبر کو دینے سے گریز کررہے تھے۔ انہوں نے بڑی مشکل سے انہیں یہ یقین دلایا کہ وہ ایک بوڑھے آدمی ہیں اور اپنی پوری نیک نیتی سے کسی اہم کام کی غرض سے رابطہ کرنا چاہتے ہیں۔

مجھے ان بزرگوار کی بات سے کچھ حیرانی سی ہوئی۔ اس لیے کہ میرے موضوعات سماجی اور ذہنی مسائل پہ اور خشک بھی ہوتے ہیں جن کو اکثریت کی توجہ حاصل نہیں۔ لیکن میری حیرت اسوقت ختم جب انہوں نے بتایا کہ وہ برکلے یونیورسٹی سے تعلیم یا فتہ سوشل ورکر ہیں اور یہ بھی کہ وہ پنجاب یونیورسٹی سوشل ورک کے شعبہ کے پہلے بیچ کے گریجویٹ ہیں۔ سالہا سال سے پاکستان نہیں جانا ہوا ہے مگر وہ پاکستان کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔

اس مقصد کے لیے وہ کسی با اعتماد انسان کی تلاش تھے۔ انہوں نے کہا ”آپ کی تحریریں پڑھ کر میرا دل کہتا ہے کہ آپ پوری سچائی سے لکھ رہی ہیں۔ آپ کو خدا نے میری رہنمائی کے لیے بھیجا ہے۔ آپ مجھے ان ا داروں کے نام بتاسکتی ہیں جو پاکستان میں صحیح معنوں میں دیانتداری سے کام کر رہے ہیں۔ میرے پاس کچھ“ ٹکے ”ہیں جن کو میں اس عوام تک پہنچانا چاہتا ہوں جو سالہا سال سے لائن میں اپنی باری کی منتظر ہے۔ “ میں نے ان کی آواز میں دردمندی اور غمگساری کو شدت سے محسوس کیا اور ساتھ ہی ان کی طرف سے دی گئی ذمہ داری کا بوجھ بھی میں اپنے ناتواں کا ندھوں پہ محسوس کیا جو انہوں نے اپنے اعتماد کی صورت دیا تھا۔

خوش قسمتی سے اسوقت میں جس ادارے کی سچائی کی گواہی دے سکتی تھی وہ کراچی کے نواحی علاقے لانڈھی میں قائم ہونے والا ادارہ کوہی گوٹھ ہسپتال تھا کیونکہ میں اس وقت امریکہ میں رہتے ہوئے بھی ذاتی طور پہ اس سے منسلک ہوکر رفاہی کام کر رہی تھی۔ یہ ہسپتال مفت علاج فراہم کرتا ہے اور خاص کر عورتوں کی صحت کے حوالے سے اس کا کام اہم ہے۔ گو یہ ہسپتال میرے عزیز دوست ڈاکٹر شیرشاہ کا خواب اوران کے والدین کا وژن تھا لیکن اب یہ خواب سب کا مشن بن چکا ہے۔ یقینا اور بھی انسان دوست ادارے بھی ہیں مگر ان کے متعلق پوری تحقیق ضروری تھی۔ میں نے ان سے مہلت مانگی اور ساتھ ہی ان کے اعتماد کا شکریہ بھی ادا کیا۔

تو یہ تو تھی میری ان صاحب سے پہلی ٹیلیفونک ملاقات۔ پھربعد کی گفتگو سے پتا چلا کہ بزرگوار کے آباواجداد نے ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی تھی ایک ایسی اسلامی مملکت کے خواب میں سرشار ہو کر جو اسلامی روایات کا امین ہو۔ امن اور رواداری کا گہوارہ ہو۔ مگر اور بہت سے لوگوں کی طرح ان کے خوابوں کی تعبیر بھی شکستہ ثابت ہوئی۔ ظلم کی سیاہ راتوں میں جمہوری لیلائے وطن کی عزت کی آمریتوں اور آمرانہ رویوں کے ہاتھوں پامالی گویا امیدوں کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی۔

پھراسی زمانے میں یہ اسکالرشپ پہ برکلے تعلیم حاصل کرنے مغرب آئے تو پھر کبھی مستقل پاکستان واپس جانا نہ ہوا۔ نوکری کینڈا کے سرکاری اداروں میں کی اور اس طرح اپنا وطن غیر اور اغیار اپنے ہوئے۔ گو یہاں رہتے ہوئے بھی پاکستان سے رشتہ نہ توڑا۔ کبھی بھی کسی رفاعی ادارے کو مالی امداد دینے میں بخل نہ کیا۔ مگر اب یہ وقت تھا کہ وہ سنجیدگی سے خطیر رقم دینے کے متمنی تھے۔ تاہم انہوں نے ہر بار اپنے نام کے پرچار سے گریز کیا۔ انہوں نے کہا ”ہمارے گھر میں نظریں اور سر جھکا کر چلنے کا سبق دیا گیا تھا، آپ بھی اس کا پرچار مت کیجئے“۔ لیکن اب جب کہ وہ دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں میں ان کا نام راز میں نہیں رکھنا چاہتی۔ ان بزرگوار کا اسم گرامی سید محمد باقر تھا۔

اردو ٹائمز کے ایک کالم میں جب میں نے اپنی بینائی سے معذور دوست اور کالج میں انگریزی کی پروفیسر فریدہ فیض اللہ کا انٹرویو شائع کیا تو وہ بیحد متاثر ہوئے کہا ”پاکستان میں میری پہلی تربیت ایسے ادارے میں ہوئی تھی جہاں بینائی سے معذور بچے پڑھتے تھے“۔ اس انٹرویو کو پڑھ کے وہ صائمہ عمار کے مثالی کام سے واقف ہوئے جو خود نابینا تھیں اور پاکستان میں ایک اہم ادارے میں کتابوں کو ٹیپ پر ریکارڈ کر کے ہزاروں معذور افراد میں علم کے موتی بانٹ رہی تھیں۔

صائمہ صرف 42 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگیئں مگر ان کا کام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ باقر صاحب نے صائمہ کے ادارے کو بھی خطیر رقم دی۔ اور اس کے بعد بھی نجانے کتنے مستحق اداروں کو اپنی غریب پروری سے نوازتے ہی چلے گئے۔ کوئٹہ کے غریب اور مستحق طلباء کے تعلیمی وظائف ہوں یا کسی اور تعلیمی ادارے کی دستگیری، ان کا دینے والا ہاتھ کبھی پیچھے نہیں ہٹا۔ البتہ ان کی شرط تھی کہ ادارہ اپنی کارکردگی کی مکمل رپورٹ انہیں بھیجتا رہے جس کا وہ پوری توجہ سے مطالعہ کرتے اور اپنی تجاویز بھی بھجتے۔

دل کے شاہانہ اس شخص سے ملنے جب میں کینیڈا گئی تو ان کے ایک کمرے کے عسرت زدہ گھر کو دیکھ کر حیران ہوگئی۔ اس گھر کی ہر شے اس کے مکین کی طرح پرانی اور خستہ حال تھی۔ محرومی اور بے بسی کا نوحہ سناتی۔ وہ اس ایک مختصر کمرے کے واحد مکین تھے۔ باقی سب افراد کہاں تھے یہ ایک راز ہی رہا کیونکہ انہوں نے ابتدا ہی سے اس کے بابت سوال نہ پوچھنے کی بہت عاجزی سے درخواست کی تھی۔ پھر مجھے ایک دن خبر ملی کہ وہ کینڈا کے ایک ہسپتال میں خاموشی سے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ وہ جنہوں نے کروڑوں کی دولت دریا دلی اور دردمندی سے لٹائی۔ جو میری زندگی میں محض چار برس کو آئے۔ شاید بہت سے سبق سکھانے۔ انسانیت سے محبت اور دولت ومتاع کو ہیچ سمجھنے کے سبق، اجنبیت سے مانوسیت اور لگاؤ پیدا کرنے کا سبق

وہ ہجر کی رات کا ستارہ وہ ہم نفس وہ ہم سخن ہمارا

سدا رہے اس کا نام پیارا سنا ہے کل رات مر گیا وہ

۔(یہ مضمون سید محمد باقر صاحب کی وفات کے موقع پر 2015 میں لکھا گیا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).