تدریس پیشہ یا نصب العین؟


امام ابو حنیفہؒ سے کسی نے سوال کیا کہ استاد کیسا ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ استاد جب طالب علموں کو پڑھا رہا ہو تو غور سے دیکھو، اگر ایسے پڑھا رہا ہے جیسے اپنے بچوں کو پڑھاتا ہے تو استاد ہے، اگر لوگوں کے بچے سمجھ کر پڑھا رہا ہے تو استاد نہیں ہے۔

امام ابو حنیفہ کے اس قول کو اگر کسوٹی مان لیا جائے تو ہم جیسے بے شمار لوگوں کو خود کو استاد کہتے ہوئے شرم محسوس کرنی چاہیے۔ آج ہم دہائی دیتے ہیں کہ سماج میں استاد کی عزت و عظمت باقی نہیں رہی، شاگرد اساتذہ کا احترام نہیں کرتے، سوسائٹی میں اساتذہ کو قدر و منزلت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن کیا کبھی ہم نے یہ غور کرنے کی کوشش کی کہ ہمارے اندر ایک آئڈیل استاد کی وہ خوبیاں موجود ہیں یا نہیں جن کی وجہ سے ایک استاد کو عزت و عظمت کا تاج عطا ہوتا ہے۔ وہ اپنے شاگردوں کے دل کی دھڑکن بن جاتا ہے۔

آج صورتِ حال یہ ہے کہ پرائمری سطح سے لے کر کالج اور یونیورسٹی کی سطح تک اساتذہ کی محنت تدریس سے زیادہ دوسری سرگرمیوں میں نظر آتی ہے۔ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو ڈی/اے، ایچ آر اے کے حساب کتاب سے فرصت نہیں اور فرصت مل بھی گئی تو بچا ہوا وقت سرکار کو گالیاں دینے میں ختم ہوتا ہے۔ کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ کی توجہ سمینار، سمپوزیم اور قومی اور بین الاقوامی ٹور پر مرکوز ہوتی ہے۔ بچے ہوئے اوقات گروہ بندیوں کی نذر ہوتے ہیں۔

قابلِ مبارکباد ہیں وہ اساتذہ جو اس کثافت بھرے ماحول میں بھی خلوص و جذبے کے ساتھ علم و آگہی کی شمع روشن کر رہے ہیں۔ ایسے اساتذہ آج بھی قابلِ تکریم ہیں۔ آج بھی سماج میں انہیں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

کامیاب استاد وہی ہے جو تدریس کو پیشہ نہیں نصب العین سمجھتا ہو۔ جس کا اخلاق و کردار اتنا اعلیٰ ہو کہ اس کے شاگردوں میں بھی اس کی جھلک نظر آتی ہو۔ جو ہر قسم کی تنگ نظری، تعصب اور گروہ بندیوں سے پاک ہو۔ معروف پاکستانی دانشور قاسم علی شاہ نے بالکل صحیح کہا ہے کہ:

” وہ استاد کمال کا انسان ہے جو اپنے اخلاق و کردار سے آپ کی زندگی کو بدل کر رکھ دے۔ “

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).