65 ء کی جنگ اور ایم ایم عالم!


میرے عزیز ہم وطنو اسلام علیکم! دس کروڑ پاکستانیوں کے امتحان کا وقت آن پہنچا ہے آج صبح سویرے ہندوستانی فوج نے پاکستان کے علاقے لاہور پر حملہ کر دیا ہے جنگ شروع ہو چکی اٹھو اور دشمنوں پر ٹوٹ پڑو۔ یہ الفاظ صدر مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان محمد ایوب خان کے تھے جو پاکستان ریڈیو سے نشر کیے گئے ایوب خان کے اس مختصر جوشیلے خطاب نے قوم کو پاکستان سے پانچ گنا بڑے دشمن بھارت کی فوج کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنا کر کھڑا کردیا۔

پاک فوج اور عوام نے دشمن بھارت کے خطرناک عزائم کو اس وقت ناکام بنا دیا جب مکار دشمن اپنی پوری خباثت کے ساتھ زندہ دلان لاہور پر رات کی تاریکی میں وطن عزیز کی آزادی اور وقار پر شب خون مارنے کی نیت سے حملہ آور ہوا تھا دشمن لاہور کے جم خانہ میں ناشتہ کرکے اپنی عملی فتح کا جشن منانا چاہتا تھا لیکن دنیا نے دیکھا پاک افواج اور عوام نے بزدل دشمن بھارت کو اس انداز میں شکست و ریخت سے دوچار کیا کہ آج بھی یہ عبرتناک شکست اس کے سینے پر سانپ بن کر لوٹ رہی ہے۔

ازلی دشمن بھارت کی جانب سے چھ ستمبر 1965 ء میں پاکستان پر رات کی تاریکی میں جنگ مسلط کی گئی تو دشمن کو پورا یقین تھا کہ وہ پاکستان کے دل لاہور کو فتح کر لے گا لیکن دشمن کا یہ خمار اس وقت کافور ہو کر ملیا میٹ ہو گیا جب پوری قوم نے اپنی پاک افواج کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر دشمن کے ناپاک عزائم کو راکھ اور خاک کا ڈھیر بناتے ہوئے شکست سے دوچار کر دیا۔ بھارت کی جانب سے رات کے اندھیرے میں اچانک مسلط کی جانے والی جنگ میں جہاں پاک فوج نے اہم کردار ادا کیا وہیں پاک فضائیہ نے اس جیت کو انمول بنا کر دشمن کے دانت ہمیشہ کے لئے کھٹے کر دیے حب الوطنی کی گرہ سے بندھی پوری قوم پاک افواج کی پشت پر کھڑی تھی ا س جنگ میں پاک افواج اور عوام کے کردار نے اس بات کی سمت کا تعین ضرور کیا کہ ازلی و مکار دشمن بھارت کے خلاف حکومت ’ریاست اور عوام متحد ہیں۔

پاک فضائیہ کے اسکوارڈرن لیڈر ایم ایم عالم نے اس پاک بھارت جنگ میں دشمن کی کمر توڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا اس جانباز نے ایک منٹ سے کم وقت میں دشمن کے پانچ ہنٹر جہاز گرا کر بھارتی ائیر فورس کو عبرت کا رزق بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ مکار ذہنیت کے حامل دشمن کی ائیر فورس کے جہازوں کا جذبوں سے سرشار پاکستانی ائیر فورس کے سائبر جہازوں سے جب ٹکراؤ ہوا تو پاکستان کے شاہینوں نے دشمن کے مجموعی طور پر پینتیس طیاروں کو فضا میں اور تینتالیس طیاروں کو زمین پر تباہ کیا اور پاکستان کے صرف انیس طیارے تباہ ہوئے۔

پاک فضائیہ کے جری جانباز ایم ایم عالم نے دشمن کے ایک منٹ سے کم وقت میں پانچ جہاز گر کر جو عالمی ریکارڈ قائم کیا دشمن اس وار کے زخم کو آج تک نہیں بھول سکا۔ ایم ایم عالم کی اس جراُت و بہادر ی اور مہارت کی مثال مؤرخ نے اس انداز میں لکھی کہ آج بھی پوری دنیا میں جب ائیر فورس میں جی ڈی بی پائلٹ پاس آؤٹ ہوتا ہے تو اسے ایم ایم عالم کی جراُت و بہادری سے رقم کیے گئے اس واقعہ کا مطالعہ لازمی کروایا جاتا ہے۔

کولکتہ میں جنم لینے والے بنگالی خاندان کا یہ سپوت ایم ایم عالم فائٹر لیڈر سکول میں بطور انسٹرکٹر ’تین اسکوارڈنگ کے کمانڈنگ افسر‘ ڈائریکٹر آف ریسرچ اور اسسٹنٹ چیف آف ائیر سٹاف کے فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں۔ ایم ایم عالم کی پاکستان کے لئے خدمات ناقابل فراموش ہیں کتاب دوست ایم ایم عالم نے جب وفات پائی تو ان کی چکلالہ ائیر بیس راولپنڈی رہائش گاہ پر چار ہزار کتابوں کی کولیکشن موجود تھی۔ ایم ایم عالم کی زندگی کے گوشے جہد مسلسل ’قربانیوں‘ ملکی بے پناہ خدمات سے عبارت ہیں کارگل کے مصنف اسکوڈرن لیڈر زاہد یعقوب عامر کی ایم ایم عالم کے حالات زندگی پر لکھی گئی کتاب کا مطالعہ کیا تو اس کتاب کی تحریریں ایم ایم عالم کی زندگی کے منفرد گوشے وا کرتی ہیں جن سے اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ مصنف نے ایم ایم عالم کے حالات زندگی کو کتابی شکل دینے سے قبل ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق کے کیا کیا مراحل طے کیے اس کتاب سے چند اقتباسات نذر قارئین ہیں 6 جولائی 1935 ء کوایم ایم عالم ( محمد مسعود عالم ) کے ہاں ایک بچے نے جنم لیا وہ بچہ جس کے مقدر میں تاریخ بنانے کے فیصلے ہو چکے تھے۔

یہ بچہ بھی ایم ایم عالم ہی تھا مگر یہ محمد محمود عالم تھا وہ محمد محمود عالم جو ہوا بازی کی تاریخ میں ایم ایم عالم کے نام سے پاکستان کے لئے بالخصوص اور عالم اسلام کے لئے بالعموم وجہ شہرت بنے۔ تاریخ کے ماتھے پر ایک بے مثال جھومر ’دشمن پاکستان کے لئے وجہ ہزیمت‘ 6 ستمبر 1965 ء کی شام دشمن کی طرف سے پاکستان پر حملے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ دشمن پر حملے کے لئے متعدد فارمیشن ترتیب دی گئی پٹھان کوٹ کے انڈین ائیر بیس پر دشمن کے دس جہاز تباہ ہوئے جس کا تذکرہ انڈیا نے اپنے سرکاری اعداد و شمار میں بھی کیا ہے مزید براں یہ اعداد و شمار ثابت بھی کرتے ہیں کہ دشن کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا تاہم آدم پور اور بلواڑہ کے اوپر کیے گئے حملوں کے نتائج بہت زیادہ توقعات کے مظابق نہیں تھے۔

بلواڑہ پر حملہ کرنے کے دوران پاک ٖفضائیہ اپنے دو بہترین ہوا بازوں سے محروم ہو گئی سکواڈرن لیڈر سرفراز رفیقی اور فلائیٹ لیفتینٹ یونس حسن خواجہ اس معرکے میں جام شہادت نوش کر گئے جبکہ سیسل چوہدری واپس آئے۔ ایم ایم عالم سرگودہا میں پاک فضائیہ کے سکواڈرن نمبر گیارہ کی کمان کر رہے تھے۔ انہوں نے نمبر 33 ونگ کے پائلٹوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انشاء اللہ ہم سرفراز رفیقی اور یونس حسن کے خون کا بدلہ لیں گے۔

ایم ایم عالم آدم پور پر کیے جانیوالے ایک ہنٹر جہاز کو نشانہ بنا چکے تھے مگر ان میں دشمن کو تباہ کرنے کا عزم مزید زندہ تھا۔ ایم ایم عالم نے اپنی ایک ملاقات میں ایک عزیز کو بتایا کہ جب 7 ستمبر کو ائیر ڈیفنس الرٹ کے لئے وہ لوگ تیار بیٹھے تھے تو انہیں حکم یھا کہ جہاز کے کاک پٹ میں ہی بیٹھیں وہ کاک پٹ میں مستعد بیٹھے تھے۔ ایسے میں انہوں نے قرآن پاک کا نسخہ جیب سے نکال کر تلاوت شروع کردی وہ تلاوت کر رہے تھے کہ انہیں ہلکی سی نیند آگئی اور اس سائرن کے ساتھ ان کی آنکھ کھلی جو کہ دشمن کے حملے سے خبردار کرنے کے لئے بجایا جاتا ہے۔

سات ستمبر کی سہانی صبح کے پانچ بجکر سینتالیس منٹ پر یہ اطلاع ملی کہ دشمن کی ایک فارمیشن جس کا نمبر ستائیس ہے اور جس کی کمان انڈین ائیر فورس کے سکواڈرن لیڈر ڈی۔ ایس جوگ کر رہے ہیں نے سرگودہا پر حملہ کر دیا ہے پہلے یہ فارمیشن ”چھوٹا سرگودہا“ کی لینڈنگ ائر سٹریپ کو نشانہ بنانے کے لئے کی گئی۔ جب یہ وہاں پہنچی تو کسی جہاز کو وہاں نہ پا کر واپس پلٹی اور سرگودہا کے مین بیس پر حملہ کرنا چاہا ایم ایم عالم نے فوری طور پر اپنے جہاز کو سٹارٹ کیا اور پھر مقررہ وقت میں ہوا میں موجود تھے۔

آپ اپنی ایمان پرور کارکردگی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہیں ہوا میں پہنچ کر بھی تلاوت کا اثر محسوس ہو رہا تھا۔ بے شک ایسے معرکے اور حریت و حکمت کے باب رقم ہونے میں وہ قرآنی طاقت بھی شامل تھی جو ایم ایم عالم کے ایمان کا حصہ تھی جب فتح پاکستان کا مقدر اور شکست و ریخت کی راکھ مکار دشمن کا رزق بنی توعظیم باپ محبت اور فخر کے جذبات میں اپنے عالم کو یاد کرتے جس نے ایک عالمی ریکارڈ قائم کر دیا تھا عالم ریکارڈ کے ساتھ ساتھ انہوں نے دشمن کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی بیشک وہ بیٹے سے جلد از جلد ملنے کے لئے بہت تاب رہتے تھے مگر بیٹا تو پاک فضائیہ اور دھرتی ماں سے کیا گیا وعدہ نبھا رہا تھا۔

یہ 1966 ء کی ایک پر سوز رات تھی ایک بیٹا اپنے والد سے ملنے جا رہا تھا وہ بیٹا جس کے مقدر میں ایک عالمی ریکارڈ لکھا گیا تھا اس نے پاک فضائیہ ’پاکستان اور اپنے والد محترم کا نام روشن کیا تھا باپ اور اس عظیم بیٹے کی یہ جنگ ستمبر 1965 ء کے بعد پہلی ملاقات تھی۔ مگر نہ بیٹا آگے بڑھ کر باپ کا ہاتھ چوم سکا اور نہ ہی باپ بیٹے کو اپنے بازوؤں کے حصار میں لے کر سینے سے لگا سکتا تھاکہ ایم ایم عالم کے والد محترم محمد مسعود عالم انتقال کر گئے تھے۔

صرف چشم تصور سے دیکھیں اور گوش تصور سے سنیں کہ وہ باپ اور بیٹے کی گفتگو کیا ہوتی جس نے ایک عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا ایم ایم عالم 18 مارچ 2013 ء کو کراچی میں انتقال کر گئے ایم ایم عالم نے ثابت کیا کہ جنگیں افرادی قوت اور اسلحہ سے نہیں بلکہ ایمانی قوت ’صادق جذبوں اور عزم صمیم کے ساتھ لڑی جاتی ہیں۔ اللہ تعالی ایم ایم عالم سمیت اس پاک سر زمین کی سرحدوں کے امانت دار شہداء کے درجات بلند کرے (آمین)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).