اماں کا ریڈیو، الجھی ہوئی تاریخ اور رکا ہوا وقت


بچپن کی یادوں میں اماں کا ایک جاپانی ریڈیو بھی ہے۔ یہ اپنے زمانے کا سب سے بہترین ریڈیو ہوا کرتا تھا جس پر کتھائی رنگ کی ایک لیدر چڑھی ہوئی تھی۔

اماں ہماری ناخواندہ ہیں مگر جاہل ہر گز نہیں ہیں۔ انیس سو نواسی سے لے کر دوہزار چھ تک کی کرکٹ کی تاریخ کا انہیں بطور خاص ادراک ہے۔ کرکٹ کے نئے دور میں انہیں کچھ خاص دلچسپی نہیں ہے مگر شوق انہیں کرکٹ کی جاری سرگرمیوں سے غافل بھی نہیں ہونے دیتا۔ کرکٹ کے حوالے سے اُن کا درک بہت واجبی سا ہے مگر اتنا واجبی بھی نہیں ہے۔ انضمام الحق ان کے پسندیدہ کھلاڑیوں میں سرفہرست رہے ہیں۔ عمران نذیر اور محمد آصف کے ٹیم سے چلے جانے ہر انہیں ہمیشہ دکھ رہا۔ شعیب ملک کا ہمیشہ ٹیم کا حصہ ہونے کو وہ سمجھ سے بالاتر معاملہ قرار دیتی رہی ہیں۔ ہزار حجتوں کے بعد بھی شاہد آفریدی کو کبھی کوئی ان کی گُڈ بک میں شامل نہیں کروا سکا۔

اماں میرے بچپن میں ڈاکٹر بھی تھیں۔ خاندان میں کسی خاتون کو کوئی مسئلہ درپیش ہو، ڈاکٹر کے پاس بعد میں اور اماں کے پاس پہلے آتی تھیں۔ بچوں کا مسئلہ ہوتا تو اماں کہتیں کہ ایک شیشی آتی ہے اس پر بچہ بنا ہوتا ہے اور بچے کے گلے میں سانپ ہوتا ہے، وہ پلاؤ بچہ ٹھیک ہوجائے گا۔ سر میں کسی کو بہت درد ہو تو تلوار والی گولی پانی میں گھول کر پی جانے کی تجویز دے دیتیں۔ مشتاق احمد یوسفی کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات پر قطعی تعجب نہیں ہوتا کہ پڑھے لکھے لوگ تعویذ گنڈوں سے علاج کرتے ہیں، انہیں غصہ اس بات پر آتا ہے کہ وہ واقعی اچھے بھی ہوجاتے ہیں۔

اماں کے ٹوٹکوں اور چھومنتر کی پوری ایک تاریخ ہے، مگر حرام ہے جو کبھی کوئی کیس بگڑا بھی ہو۔ بگڑ بھی جاتا تو کیا مشکل تھی۔ اللہ کی ذات ہر بلا اپنے سر لینے کے لیے موجود تھی۔ خدا کی ذات اور گھر کے بے زبان بچے کا کم سے کم فائدہ بھی یہ ہے کہ اپنی ناکامیوں اور نامرادیوں کو ان کے سر بہ سہولت منڈھا جاسکتا ہے۔

اماں کو سیاست کے حروفِ ابجد سے تو کچھ خاص علاقہ نہیں رہا، مگر سیاست کی سین کو خوب سمجھتی ہیں۔ قومی اتحاد کے سب کردار انہیں آج بھی انگلیوں پر یاد ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے متعلق پھیلائے گئے واقعات بھی ان تک حرف حرف پہنچے ہوئے ہیں۔ جنرل ضیا الحق والے ہوشربا عشرے پر سیر حاصل گفتگو فرماتی ہیں۔ میری پیدائش بھی اسی عہدِ سیاہ کا بے ثمر سا واقعہ ہے۔

حیران کن بات یہ ہے مردِ مومن مردِ حق والا نعرہ کبھی ہمارے گھر میں داخل نہیں ہوسکا۔ حالانکہ ایران عراق جنگ کے دوران صدام حسین کی تصویر ان کی الماری پر لگی ہوئی تھی۔ افغان جہاد بھی پورے ٹبر سمیت ہمارے گھر میں داخل ہوچکا تھا۔ وجہ شاید یہ رہی ہو کہ اماں جی بنیادی طور پر جمعیت علمائے اسلام کی سیاسی پیروکار تھیں اور مولانا فضل الرحمن تب ضیا الحق کے خلاف مزاحمت میں پیش پیش تھے۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں ضیالحق کی شان میں گستاخی کی گنجائش بھی نہیں تھی۔ اس کی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ ”شیخ الاسلام“ مفتی تقی عثمانی جنرل ضیا الحق پر تخت بخت قربان ہوئے جاتے تھے۔

مفتی تقی عثمانی اور ان کے رفقا کے لیے عدلیہ و سرکاری جامعات میں تدریس کی فراہمی اور مسجد و مدرسے کے نام پر پلاٹوں کی فراہمی اسی دور کی کہانی ہے۔ اُس دورِ ذوالجلال میں مفتی تقی عثمانی کا کردار وہی تھا جو تاریخ میں عثمانی، اموی اور عباسی خلفا کی رفو گری کرنے والے شیوخ کا ملتا ہے۔ تقی عثمانی صاحب اپنا کردار بہت طریقے سلیقے سے آج بھی نبھارہے ہیں مگر مولانا طارق جمیل کو اب اُن پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہے۔

باقی سب باتیں ہے، بتانا بس یہ تھا کہ اماں کے لیے پولیٹیکل سائنس، میڈیکل سائنس اور سپورٹس کے یہ سارے رمز جاننے کا وسیلہ یہی جاپانی ریڈیو تھا۔ یہ ریڈیو میں اس لیے بھی نہیں بھول سکتا کہ اس کمبخت مارے کی وجہ سے روز شام سات سے نو بجے کے دوران ہمارے گھر میں کرفیو نافذ ہوا کرتا تھا۔ بالکل اُسی طرح، جس طرح ملا فضل اللہ کے وقتوں میں شام چھ بجے سوات میں نافذ ہوا کرتا تھا۔

اماں نے صحن میں ایک خاص زاویہ پکڑ رکھا تھا جو بی بی سی کی آواز کو سات سُروں کے ساتھ کھینچتا تھا۔ اِس مقام سے جب اماں قطبِ شمالی میں اینٹینا کھینچتی تھیں تو آواز ایسے چھن کے آتی تھی جیسے رحیم اللہ یوسفزئی اماں کو خبریں سنانے کے لیے بقلمِ خود تشریف لے آئے ہوں۔ یہ خبریں سننے کے لیے اماں بتی دھیمی کر دیتیں اور صحن میں لگے پیڈسٹل فین کی تار کھینچ کر اسے خاموش کرا دیتیں۔

ہم شام گلی محلے میں کھیل کود کے واپس آتے تو ماحول کا تقاضا ہوتا تھا کہ لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام۔ دروازے پہ دستک دے سکتے تھے اور نہ گھنٹی بجا سکتے تھے۔ دستک پر دروازہ تو کھل جائے گا، مگر چونکہ اماں اور رحیم اللہ یوسفزئی کے بیچ ہم مخل ہوگئے ہوتے، چنانچہ ہمیں چمپے کراتی ہوئی کہتیں، ٹائم پر گھر نہیں آسکتے تم لوگ؟ اس کو کہتے ہیں مارو گھٹنا پھوٹے آنکھ۔ مطلب غصہ خبروں میں خلل پڑنے پر اور سزا بروقت گھر نہ آنے پر۔ یعنی کیس پانامہ اور سزا اقامہ!

دستک دینے کی بجائے ہم چھنگلی دروازے کے کونے میں اٹکاکر دھیرے سے کنڈی کھسکاتے تھے۔ شروع شروع میں یہ عمل ”کیکر تے انگور چڑھایا ہر گچھا زخمایا“ جیسا ہوتا تھا۔ ہوتے ہوتے ہمیں ایسی عادت ہوئی کہ جب کچھ قد قامت نکلنے پر ہمیں چابی دی گئی تو بھی ٹیڑھی انگلی سے ہی کام چلاتے تھے۔ کون چابی نکالے اور لاک کھولنے کا تکلف کرے!

دروازہ کھلنے پر ہمیں دبے قدموں گھر میں داخل ہونا پڑتا تھا۔ اماں ریڈیو پر جھکی ہوتیں اور ایک کان و ایک آنکھ ہماری چال پر رکھتیں۔ یہاں ہلکا سا قدم ڈگمگایا وہاں سے سنسناتا ہوا جوتا میزائل آیا اور ٹنڈ بجاتا ہوا نکل گیا۔ اس جوتے پر اوئی ماں کی آواز نکالنے کی گنجائش بھی نہیں تھی، ورنہ اماں کا حتف دوم بھی نعرائے حیدری لگاتا ہوا آتا اور بدتمیز بچوں میں سے کسی ایک کے پچھاڑی پر چپت ہوجاتا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2