بُزدار ہٹاؤ مُہم اور پنجاب پولیس کی بدمستی


بُزدار ہٹاؤ پنجاب بچاؤ کا ٹرینڈ چل رہا ہے، عجیب مطالبہ لگ رہا ہے یہ تحریک انصاف کے اندر سے کسی نے ٹرینڈ چلوایا ہے یا کسی اور نے، بہرحال لگتا تحریک انصاف کے اندر پروان ہوتی سازشیں ہیں جن کا مقصد فقط اپنے کسی خاص کی انٹری ہے۔

بے وقوفو! کیا بُزدار کے ہٹانے سے پنجاب بچ جائے گا یا ادارے ٹھیک ہوجائیں گے؟ کیا بُزدار خودمختار وزیراعلیٰ ہیں یا انسٹرکشن لینے والے سروینٹ ہیں۔ سیاسی مطالبات تو یہ کرنے چاہئیں، اول تو جمہوریت آزاد کرو، دوسرا وزیراعظم کو آزاد کرو یا اس سے ملک کو آزاد کرو، عوامی مطالبہ تو اب بھی وہی ہے کہ انصاف کرو، ایک عزت دار شہری کو عزت دو کم از کم اس کی جان تو بخش دو۔

جس وزیراعظم کو حکومتی فیصلوں کو بھی علم نہیں ہوتا کیا یہ اس کے ساتھ بددیانتی کی جاتی ہے نہ بتا کے یا پھر وہ اس قابل ہے ہی نہیں کہ اسے معلوم ہی نہیں ہوتا۔ بزدار ہٹانے کے بعد کون سا پنجاب میں بڑا فاٹے خان بیٹھا ہے جو پنجاب میں انقلاب برپا کر دے گا۔ حالات یہ ہیں دیہات تو دور کی بات دارالحکومت ہی غلاظت کا ڈھیر بن رہا ہے، جہاں گلیوں شاہراہوں کی روزانہ صفائی ہوتی تھی وہاں پانچ سات دن بعد ملازم آتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ معاوضہ وقت پر نہیں ملتا تو کیا کریں۔

پولیس نے پرائیویٹ ٹارچر سیل بنائے ہوئے ہیں جہاں زندہ انسانوں کا بدترین پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے۔

پولیس کسی شریف بندے کو تھانے کے اندر داخل نہیں ہونے دیتی، تو یہ کیا وزیراعلیٰ پنجاب بزدار کا سارا قصور ہے یا سسٹم ہی ایسا ہی ناکارہ ہوچکا ہے۔

لاہور میں نجی ٹارچر سیل کا انکشاف ہونا پولیس کی کھلی بدمعاشی کو ظاہر کرتا ہے۔

ایک اور واقعہ سنیے جو گزشتہ رات ایک دوست خاتون نے اپنے ساتھ ہونے والے واقعہ بارے بتایا جس کا وہ ایک ماہ سے پولیس گردی کا مقابلہ کر رہی ہیں لیکن افسران بالا تک بھی وہ اپنی ’ارداس‘ پہنچانے کے بعد بھی ایک ڈیڑہ ماہ سے ذلت و رسوائی جھیل رہی ہے لیکن پولیس کی بدمعاشی کے آگے وہ مقابلہ نہیں کر پا رہی۔

انہوں نے بتایا کہ ماہ ڈیڑہ ماہ قبل لاہور کلمہ چوک پر ٹریفک وارڈن نے اس کے طالب علم بھتیجے کو کاغذات چیک کرنے کے لیے روک لیا، گالیاں دیں تو تلخ کلامی ہوئی پھر وہاں پر موجود کسی دوسرے بچے نے موبائل پر ویڈیو بنانا شروع کردی۔ وارڈن اہلکاروں نے ویڈیو بنانے والے لڑکے اور دوسرے لڑکے کو گارڈن ٹاؤں تھانے میں جا کر بند کردیا تشدد کیا گالیاں دیں۔

خاتون چونکہ محکمہ تعلیم سے منسلک ہیں وہ اس واقعے بعد پہنچیں تو پولیس والوں نے اسے بھی گالیاں دیں اور کہا کہ شریف عورتیں تھانے نہیں آتیں۔

بڑی منت سماجتوں کے بعد، لڑکوں کو تشدد کرکے چھوڑ دیا گیا مگر موبائل ضبط کرلیا گیا۔

خاتون جناح ہسپتال گئیں میڈیکل کے لیے مگر ڈاکٹرز نے اسی تھانے سے ڈاکٹ بنوانے کا آرڈر جاری کیا جو ممکن نہ تھا۔ اس خاندان نے سی پی او لاہور، ایس پی ماڈل ٹاؤن کو درخواست دی مگر ہر طرف سے یہی پیغام ملا کہ شریف عورت تھانے نہیں آتی، ہر جگہ پر ماں بہن کی گالیاں اور پریشر ملتا رہا۔ خاتون نے بتایا کہ وہ اس حال میں اس سسٹم سے بہت پریشان ہے اور اب پولیس سے مزید اس لیے خوفزدہ ہے کہ وہ کچھ نقصان نہ پہنچا دیں۔ عدالت جانے کا انہیں کسی نے مشورہ دیا مگر پولیس ڈرا بھی رہی کہ عدالت آپ شوق سے جائیں مگر اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔

ان حالات میں ایک بے بس خاتون کیا کرسکتی ہے، اور اس نظام کو کٹھ پُتلی وزیراعلیٰ نے ٹھیک کرنا ہے یا وزیراعظم نے یا متعلقہ محکمہ جات کے سربراہ نے۔ ایسا لگ رہا ہے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے کہیں موجود ہی نہیں، پولیس کا غیر پیشہ ورانہ رویہ یقیناً جس سے ہر کوئی واقف ہے اسے کون درست کرے گا۔ کیا کوئی شریف آدمی راہ کھڑی پولیس سے لے کر تھانوں میں بیٹھے پولیس غنڈوں کا سامنا کرسکتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).