کچھ غزوہ ہند اور ریاست مدینہ کے بارے میں


دوست سناتے ہیں کہ وطن عزیز پر گزرے بہت سے پر آشوب ادوار میں سے کسی ایک دور میں، جب ہمہ مقتدر فوجی آمر اس قوم کو بزعم خود حقیقی جمہوریت کی راہ پر ڈالنے کے جتن کرتے ہوئے کندہ نا تراش مگر بظاہر بے ضرر لوگوں کو کم اہم عہدوں پر براجمان کر دیتے ہیں، ایسے ہی کسی چنیدہ گوہر صوبائی وزیر سے یار لوگوں نے ’چاند‘ تک سڑک بنوانے کے احکامات پر دستخط کروا لئے۔ اب بھلے کیسے ہی آمر کے منظور نظر ہوں، مگر تھے تو عامی، چنانچہ اخبارات کو خوب کھلی اڑانے کا موقع ملا۔

وزیر موصوف اگرچہ خواندگی کے میدان میں ’رفت‘ گیا، اور ’بود‘ تھا سے آگے کے شہسوار نہ تھے مگر عقل مند رہے ہوں گے، اور ممکن ہے کہ اپنے حلقے کے مشہور مدرسے کے مہتمم سے ’کتاب الحیل‘ کے کچھ مندرجات بھی سن رکھے ہوں۔ چنانچہ ’عقل عیار ہے، سو بھیس بدل لیتی ہے‘ کے مصداق ان کے ذہن رسا نے ایک ترکیب سوچی اور مضافات کی کسی مجہول الاسم بستی کا نام بدل کر ’چاند‘ رکھ دیا گیا اور اس تک سڑک بنوانے کا کام بھی شروع کر دیا گیا۔ کچھ دوست مذکورہ واقعہ حاجی مستان خان سے بھی منسوب کرتے ہیں جنہیں سابقہ صوبہ سرحد میں نیپ کی حکومت کے استعفیٰ کے بعد بھٹو صاحب نے وزیر مقرر فرمایا تھا۔ میری رائے میں بھٹو صاحب پر بھی آمر کا لقب چسپاں ہوتا ہے اگرچہ فوجی نہیں تھے البتہ ’پیٹ میں وردی‘ رکھتے تھے جو سیاسی مخالفین سے معاملہ کرتے ہوئے باہر آ جاتی تھی۔

یہ واقعہ ہمیں آئے روز جذباتیت اور نفرت کا چورن بیچنے والے چند دانشوروں کے رشحات قلم دیکھ کر بے طرح یاد آتا ہے۔ کبھی کسی مجہول الاحوال مجذوب کے بلیغ چنانچہ عسیر الفہم فارسی اشعار سے سند لائی جاتی ہے اور کبھی کسی بے نام سبز پوش بابے کے سینہ بسینہ منتقل ہونے والے اقوال زریں کا حوالہ دیا جاتا ہے اور کبھی کسی معروف ہستی کے خواب میں آنے والی بشارت کا۔ ٹیپ کا مصرع بھوکی لومڑی کے لئے یہی ہوتا ہے کہ اونٹ کا ہونٹ اب گرا اور تب گرا، پھر جی بھر کے کھا لینا۔

یوں تو ہم اس قبیل کے ملفوظات کو عامل کامل بنگالی باوا کے اشتہارات سے زیادہ وقیع نہیں سمجھتے مگر جب اس شر انگیزی کو مزید ہوا دینے کے لئے کروڑوں انسانوں کی محبوب ہستیوں سے ان دعاوی کو منسوب کیا جاے تو خاموش رہنا کتمان حقیقت کے زمرے میں آ جاتا ہے۔ ویسے مرور زمانہ کو دیکھیے کہ کبھی لال ٹوپی مولانا محمد علی جوہر، علامہ اقبال اور باچا خان جیسے اکابر ملت کے زیب فرق ہوتی تھی مگر آج ایسے ایسے لوگوں کے نام سے منسوب ہوتی ہے جن کے بارے میں برادرم محمد حنیف کا فقرہ نقل کیے بغیر رہا نہیں جا رہا کہ، ’انہیں دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ جیسے چے گویرا نے تبدیلی جنس کا ناکام آپریشن کروا لیا ہے یا حافظ سعید نے کوئی ایسی گولی کھا لی ہے جو اس عمر میں انھیں ہر گز نہیں کھانا چاہیے تھی۔ ‘

ہمارے موصوف کے ساتھ جیسے بھی اختلافات رہے ہوں، ان کا کچھ عرصہ قبل ایک شہر ناپرساں قسم کی حکومت کے ہاتھوں، آزادی اظہار کے جرم میں سزا پانا ہمیں یکسر نا منظور تھا۔ اس ہمدردی کے باوجود وہ قول رسول (ص) کی تشریح بالرائے کے سلسلے میں علمی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔ ان صاحب کے تمام تر شور و شر کا دار و مدار ایک حدیث پر ہے جسے عرف عام میں ’غزوہ الہند‘ کی حدیث کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آج کے ایک معاصر میں ایک بزرگ قلم کار نے بھی اپنی تشنہ تمناؤں کے اظہار کے لئے اسی حدیث کا سہارا لینے کی کوشش کی ہے۔

مذکورہ حدیث کے استناد کا فیصلہ ہم فن جرح و تعدیل کے ماہر علماء پر چھوڑتے ہیں، اگرچہ ہمیں علم ہے کہ ان میں سے بہت سے سربرآوردہ نام اس حدیث کے بارے میں گہرے تحفظات رکھتے ہیں۔ یہاں ہمارا سروکار صرف اس بات سے ہے کہ ’بھارت‘ نام کے ملک کے ہماری صحافت میں ’ہند‘ کا نام پانے سے پہلے اس لفظ سے کون سا خطہ مراد لیا جاتا تھا اور خصوصا چھٹی صدی عیسوی میں یہ نام کس جغرافیائی خطے کے لئے عربوں میں مروج تھا۔

دنیا بھر میں علاقوں کے نام بدلتے رہتے ہیں۔ اردو کے مجاز مرسل کے مانند، کبھی جزو کا نام پھیل کر وسیع تر علاقے پر منطبق ہوجاتا ہے کبھی اس کے بر عکس۔ کبھی کوئی نام غلط العوام کے طور پر، زمینی حقائق کے علی الرغم، لوگوں کی زبانوں پر چڑھ کر قبول عام کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ چھوٹی سی مثال ہمارے وطن بلوچستان سے پیش خدمت ہے۔ جس جگہ کو آج ژوب کے نام سے پکارا جاتا ہے، اس کا اصل نام اپو زئی ہے اور اصل ژوب (بمعنی آبشار) قلعہ سیف اللہ میں امتداد زمانہ کی گرد تلے غائب ہو چکا ہے۔

ہمارے ہاں بہت سے لوگ ’انگلینڈ‘ ، ’برطانیہ‘ اور ’یونائٹڈ کنگڈم‘ کو ہم معنی سمجھ کر برتتے ہیں حالانکہ یہ الگ الگ جغرافیائی سرحدوں کے حامل علاقے ہیں۔ اسی طرح ’امریکہ‘ سے آج کل ’ریاستہائے متحدہ امریکہ‘ مراد لیا جاتا ہے حالانکہ صرف شمالی امریکہ ہی تین ممالک، بشمول ریاستہاے متحدہ امریکہ، کینیڈا اور میکسیکو پر محیط ہے، جنوبی و وسطی امریکہ کا تو خیر کیا ذکر۔ اسی طرح مدت تک ’عرب‘ سے مراد صرف نجد و حجاز کا جزیرہ نما لیا جاتا تھا مگر آج یہ نام تقریبا پورے مشرق وسطی، خلیج فارس کے ایک کنارے، شمالی افریقہ، مصر، شام، سوڈان، جبوتی اور صومالیہ تک کا احاطہ کرتا ہے۔

یہی معاملہ ہمارے ہاں لفظ ’ہند‘ یا ’ہندوستان‘ کا ہے۔ اٹھارہویں صدی سے بیسویں صدی کے وسط تک اسے بعض حلقوں میں پورے بر صغیر کے لئے استعمال کیا جاتا تھا اگرچہ جنوبی ریاستوں کے دراوڑی نسل سے تعلق کے مدعی لوگوں کا اپنی الگ شناخت کا مطالبہ بھی بہت قدیم ہے۔ آزادی کے بعد سے یہ لفظ واہگہ سے مشرقی بنگال تک کے علاقے کے لئے مخصوص ہو گیا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ دائرہ المعارف اسلامیہ اس حوالے سے ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے۔

”مصرِ قدیم کے مسلم جغرافیہ دان لفظ ’ہند‘ کو سندھ کے مشرقی علاقوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ہند سے جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک بھی مراد لیے جاتے تھے۔ چنانچہ جب“ ہند کے بادشاہ ”اور“ ہند کے علاقے ”کہا جاتا تھا تو اس سے صرف ہند ہی مراد نہ تھا، بلکہ اس میں انڈونیشیا، ملایا وغیرہ بھی شامل سمجھے جاتے تھے اور جب“ سندھ ”کہا جاتا تھا تو اس میں سندھ، مکران، بلوچستان، پنجاب کا کچھ حصہ اور شمال مغربی سرحدی صوبہ بھی شامل سمجھے جاتے تھے۔

ایسا کوئی ایک نام نہ تھا جس کا اطلاق پورے ہندوستان پر ہو۔ ہند اور سندھ مل کر ہی ہندوستان کو ظاہر کرتے تھے۔ عربی اور فارسی میں ہندوستان کے جغرافیائی حالات بیان کیے جاتے تھے تو اس میں ہنداور سندھ کے حالات شامل ہوتے تھے۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی ہندوستان میں آمد سے پہلے کوئی نام ایسا نہ تھا جس کا اطلاق پورے ملک پر ہو۔ ہر صوبے کا اپنا الگ الگ نام تھا۔ اہل فارس نے جب اس ملک کے ایک صوبے پر قبضہ کرلیا تو اس دریا کے نام پر جسے اب سندھ کہتے ہیں، “ سندھو ”رکھا کیونکہ قدیم ایران کی پہلوی زبان میں اور سنسکرت میں“ س ”اور“ ہ ”کو آپس میں بدل لیا کرتے تھے، چنانچہ فارسی والوں نے“ ہندہو ”کہہ کر پکارا۔ عربوں نے سندھ کو تو سندھ ہی کہا، لیکن اس کے علاوہ ہندوستان کے دوسرے علاقوں کو ہند کہا اور آخرمیں یہی نام تمام دنیا میں پھیل گیا۔ پھر“ ہ ”کا حرف“ الف ”میں بدل کر یہ نام فرنچ میں اِنڈ اور انگریزی میں انڈیا کی صورت میں مشہور ہوگیا“۔ (جلد 23، صفحہ 173 )

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ، مذکورہ حدیث کے درجہ استناد سے قطع نظر، ’غزوہ الہند‘ ایک شکل میں کم از کم بارہ سو سال پہلے وقوع پذیر ہو چکا ہے۔ آج پاکستان نام کا ملک جن علاقوں پر محیط ہے، وہی چھٹی صدی عیسوی میں ’ہند/ سندھ‘ سے موسوم تھے۔ جن دوستوں کو ’بھارت‘ کے توسیع پسندانہ عزائم سے پریشانی ہے، یا جو واقعی دوسرے ممالک کی سرحدوں کو پامال کرنے کے خواب جنون آمیز کے اسیر ہیں، وہ بھلے اپنا نقطہ نظر بیان کریں مگر اس بحث میں تقدس آمیز مشکوک حوالوں سے اجتناب فرمائیں۔

اپنی آخرت کی فکر کرنا تو ان کا ذاتی فریضہ ہے، مگر اس مہربانی کے نتیجے میں شاید اس ملک کے نوجوانوں کی توجہ دنیا کے حقیقی مسائل کے حل کی جانب مبذول ہونے میں مدد ملے۔ کسی مجہول الاسم بستی کا نام ’چاند‘ رکھ کر اس پر چاند ماری کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ہمیں اپنے پاس موجود خطہ زمین کو چاند اور اپنے وطن کو پھول بنانے دیں۔ عین نوازش ہو گی۔

زاہدو، ہٹ جاؤ رستے سے، کہ ہم بادہ گسار

کوئی سامانِ نجاتِ نوعِ انسانی کریں

(سراج الدین ظفر)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).