وزیراعظم عمران خان کا گیس انفراسٹرکچر سے متعلق آرڈیننس واپس لینے کا اعلان


وفاقی حکومت نے شدید تنقید کے بعد گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس (جی آئی ڈی سی) کے بارے میں صدارتی آرڈیننس واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔

اس آرڈیننس کو واپس لینے سے متعلق وزیر اعظم سیکریٹریٹ کی طرف سے ایک بیان بھی جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے یہ فیصلہ اس ضمن میں جاری تنازعے کو شفافیت سے حل کرنے کے تناظر میں کیا گیا ہے۔

وزیر اعظم نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی ہے کہ وہ جی آئی ڈی سی کے معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کریں اور جلد از جلد درخواست دائر کریں۔

یہ بھی پڑھیے

گیس اور بجلی خون کی قیمت پر ملنے کی خوشخبری!

کیکڑا ون: تیل و گیس کے ذخائر نہ ملنا ’مکمل ناکامی نہیں‘

73 برس سے امید کی زمین میں ڈرلنگ کرنے والی قوم

اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نے عوام کو آگاہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ میں جانے سے فیصلہ ان کے حق میں یا خلاف بھی آ سکتا ہے۔

اس بیان میں صدارتی آرڈیننس کو جاری کرنے کی وجوہات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ چونکہ مختلف کمپنیوں کی طرف سے عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کرنے کی وجہ سے اربوں روپے قومی خزانے میں نہیں آ رہے تھے جس کی وجہ سے عدالت کے باہر تصفیہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔

پاکستان کا پارلیمان

بیان میں کہا گیا ہے کہ جی آئی ڈی سی کے معاملے پر مقدمات سنہ 2012 سے سنہ 2018 تک جاری رہی تاہم سپریم کورٹ نے سنہ 2012 میں اس ٹیکس کو کالعدم قرار دیا تھا جبکہ اس ضمن میں دائر کی جانے والی نظرثانی کی درخواست کو بھی مسترد کر دیا تھا۔

واضح رہے کہ چند روز قبل وفاقی حکومت نے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کھاد بنانے والی، ٹیکسٹائل، سی این جی اور توانائی کے شعبوں میں کام کرنے والی کمپنیوں کے ذمے جی آئی ڈی سی کی مد میں 200 ارب روپے سے زیادہ کی رقم معاف کرنے کے بارے میں کہا گیا تھا۔

اس صدارتی آرڈیننس سے پہلے متعدد کمپنیوں کے ذمے دسمبر سنہ 2018 تک 417 ارب روپے کی رقم واجب الادا تھی جس میں کھاد بنانے والی چھ کمپنیوں کے ذمہ 138 ارب روپے بنتے ہیں۔

ٹیکسٹائل انڈسٹری کے ذمے 42 ارب روپے، آئی پی پیپز کا جی آئی ڈی سی کی مد میں سات ارب روپے، کراچی الیکٹرک کے ذمہ 57 ارب روپے، سی این جی سیکٹر کے ذمے 80 ارب روپے جبکہ جنرل انڈسٹری کے ذمے چار ارب روپے واجب الادا ہیں۔

سوئی سدرن اور سوئی ناردرن کمپنیوں کے ذمے 78 ارب روپے جبکہ دیگر چھوٹی کمپنیوں کے ذمے بھی اربوں روپے واجب الادا ہیں۔

صدارتی آرڈیننس میں کہا گیا تھا کہ ان کمپنیوں کے ذمے واجب الادا رقم 417 ارب روپے تھی جس میں سے آدھی رقم معاف کرنے کے بعد تین ماہ میں رقم سرکاری خزانے میں جمع کروائی گئی۔ اس کے علاوہ یہ کمپنیاں حکومت کے خلاف مختلف عدالتوں میں دائر کیے گئے مقدمات واپس لے لیں گی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ’گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کی مد میں عوام سے ہر مہینے سوئی گیس کے بل میں اربوں روپے کی رقم حاصل کی جا رہی ہے اور اس ضمن میں عوام کو اعتماد میں لیے بغیر مخصوص کمپنیوں کو یہ رقم معاف کرنا کسی طور پر بھی قانونی نہیں ہے۔‘

پاکستان، ایران گیس پائپ لائن

گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کیا ہے؟

سابق حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں ایران گیس پائپ لائن اور دیگر منصوبوں کے تحت پائپ لائن بچھانے کے لیے گیس کے بلوں پر جی آئی ڈی سی کے نام سے سنہ 2011 میں ایک ٹیکس لگایا گیا تھا اور اس کو فنانشل بل میں شامل کر کے اس کی پارلیمان سے منظوری لی گئی تھی۔

اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور عدالت نے حکومت کے اس اقدام کو کالعدم قرار دیتے ہوئے حکم دیا کہ اس کو الگ سے ایکٹ آف پارلیمان کے ذریعے نافذ کیا جائے۔

واضح رہے کہ سنہ 2014 میں جی آئی ڈی سی سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی طرف سے نظر ثانی کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے پشاور ہائی کورٹ کو حکم دیا تھا کہ وہ جی آئی ڈی سی سے متعلق ہر مقدمے کو دیکھ کر فیصلہ کرے۔

خیال رہے کہ مختلف پاور کمپنیوں نے سرکاری خزانے میں جمع کروائی گئی رقم واپس لینے کے لیے درخواستیں دائر کر رکھی تھیں جس میں متعدد درخواستوں پر حکومت سے جی آئی ڈی سی کی مد میں جمع کروائی گئی رقم واپس کرنے کا کہا گیا تھا۔

موجودہ حکومت کا معاہدہ ماضی کی حکومتوں سے کتنا مختلف تھا

مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کی طرف سے مختلف کمپنیوں کے ذمہ واجب الادا رقم کے آدھے حصے کو معاف کرنے کا عمل ماضی کی حکومتوں سے مختلف نہیں ہے۔

ملکی معیشت پر نظر رکھنے والے صحافی خلیق کیانی کا کہنا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے دور میں اس کو ایکٹ آف پارلیمان بنائے جانے کے بعد مختلف کمپنیوں کے حکام کے ساتھ، جن کے ذمے اربوں روپے واجب الادا تھے، مذاکرات کر کے اس ضمن میں 200 ارب روپے سے زیادہ کی رقم وصول کرنے کے بعد سرکاری خزانے میں جمع کروائی گئی تھی۔

خلیق کیانی نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ کی قیادت نے اپنی حکومت کے آخری دور میں سی این جی سیکٹر کے ساتھ معاہدہ کیا تھا۔ اس سیکٹر کے ذمے 24 ارب روپے تھے جس میں سے آدھی رقم معاف کر دی گئی تھی اور 12 ارب روپے سرکاری خزانے میں جمع کروائے گئے تھے۔

صحافی مشتاق گھمن کا کہنا ہے کہ ’فرق صرف یہ ہے کہ ماضی کی حکومت یہ معاملہ پارلیمان میں لے کر آئی جبکہ موجودہ حکومت نے رات کے اندھیرے میں چھپ کر ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ان کمپنیوں کے ذمے واجب الاادا رقم کا آدھا حصہ معاف کر دیا۔‘

مشتاق گھمن نے کہا کہ ’اگر میڈیا اس معاملے کو اجاگر نہ کرتا تو ہو سکتا ہے کہ حکومت کے اس اقدام کا کسی کو علم نہ ہوتا۔‘

انھوں نے کہا کہ حکومت میں شامل چند افراد نے صرف ان کمپنیوں کے نمائندوں سے مذاکرات کر کے سب اچھا کی رپورٹ وزیر اعظم کو دی کہ اس معاملے میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ان کمپنیوں کے ذمے واجب الادا رقم کا آدھا حصہ معاف کر دیا جائے۔

وفاقی وزیر برائے توانائی عمر ایوب نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ حکومت کی طرف سے یہ اقدام جلد بازی میں کیا گیا ہے۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس بارے میں سابق وزیر خزانہ اسد عمر کے دور میں ہی ان کمپنیوں کے ساتھ مذاکرات کا عمل شروع کر دیا گیا تھا۔

عمر ایوب نے کہا کہ مختلف کمپنیوں کی طرف سے اعلیٰ عدالتوں سے حاصل کیے جانے والے حکم امتناعی کی وجہ سے یہ کمپنیاں لوگوں سے گیس انفراسسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کی مد میں پیسے وصول کر رہی ہیں لیکن یہ رقم سرکاری خزانے میں جمع نہیں ہو رہی۔

عمر ایوب کا دعویٰ ہے کہ اس بارے میں شفاف عمل اپنایا گیا ہے اور وزیر اعظم کی ہدایت پر جن کمپنیوں کو واجب الادا رقم کا آدھا حصہ معاف کیا جانا ہے ان کا فرنزک آڈٹ کیا جائے اور صدارتی آرڈیننس میں ترمیم کی جائے۔

صحافی خلیق کیانی کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے مختلف کمپنیوں کے ذمے اربوں روپے میں سے آدھی رقم معاف کرنے کی بجائے سپریم کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا اور عدالت سے یہ درخواست کی جائے کہ ان کمپنیوں نے جو مقدمات دائر کر رکھے ہیں ان کا جلد از جلد فیصلہ کیا جائے۔

انھوں نے کہا کہ اگر حکومت سپریم کورٹ سے رجوع کرے اور یہ موقف اختیار کرے کہ ان کمپنیوں کے ذمے اربوں روپے واجب الادا ہیں جو کہ سرکاری خزانے میں جمع نہیں ہو رہے تو کوئی وجہ نہیں کہ عدالتیں ان کمپنیوں کی طرف سے حاصل کیے گئے حکم امتناعی کے بارے میں جلد فیصلے نہ کریں۔

خلیق کیانی نے کہا کہ ’وفاقی حکومت نے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے ایمنسٹی سکیم کا اعلان کیا اور اس مد میں 70 ارب روپے اکٹھے ہوئے جبکہ دوسری طرف چند لمحوں میں 200 ارب روپے سے زیادہ کی رقم مخصوص کمپنیوں کو معاف کرنے کی کوشش کی گئی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp