کشمیر: سری نگر میں ’آنسو گیس شیل سے زخمی ہونے والا نوجوان چل بسا‘


بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ پانچ اگست کو بھارتی سکیورٹی فورسز کی ہاتھوں زخمی ہونے والا سترہ سالہ نوجوان اسرار احمد خان ہسپتال میں انتقال کر گیا ہے۔

پانچ اگست کو جب انڈیا نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تبدیل کیا اس روز سترہ سالہ اسرار احمد خان سیکورٹی فورسز کی جانب سے فائر کیے گئے آنسو گیس شیل لگنے سے زخمی ہو گیا تھا۔

ہلاک ہونے والے نوجوان کے خاندان کے کہنا ہے اسرار احمد اپنے دوستوں کے ہمراہ کرکٹ کھیل رہا تھا جب سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے جو دن بھر ڈیوٹی کے بعد واپس بیرکوں میں جا رہے تھے، ایک شیل اسرار احمد خان کی طرف فائر کیا جو اس کے سر میں لگا۔

ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے تصدیق کی ہے کہ لڑکے کے سر میں آنے والی چوٹ آنسو گیس کا شیل لگنے سے آئی تھی۔ لڑکے کی آنکھوں میں چھرے کے زخم بھی آئے تھے۔

نوجوان لڑکے کی لاش منگل کی رات دو بجے ورثا کے حوالے کی گئی اور اس کا نماز جنازہ بدھ کو صبح دس بجے سخت سکیورٹی میں ادا کی گئی۔ اس موقعے پر عمومی طور امن رہا۔

جو جہاں ہے وہ وہیں رک گیا ہے

کشمیر میں حکومت آہستہ آہستہ لوگوں کی نقل و حرکت پر عائد پابندیوں کو ختم کر رہی ہے لیکن کاروبار اور پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب ہے۔ بی بی سی کے نامہ نگار عامر پیرزادہ کے مطابق کشمیر میں خوف کی فضا برقرار ہے۔

کشمیر میں ہڑتال

کشمیر میں شہریوں کی نقل و حرکت پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں

کشمیر میں پبلک ٹرانسپورٹ کی تنظیم ویسٹرن بس سروس کے چیئرمین شبیر نے کہا ہے کہ اگر حکومت کہہ رہی ہے کہ سب کچھ نارمل ہے تو پھر اسے پہلے اپنی گاڑیاں سڑک پر نکالنی چاہییں۔ ‘جب لوگ باہر نہیں ہیں، سفر نہیں کر رہے ہیں تو پھر گاڑیاں کہاں جائیں گی‘۔

سری نگر کے پریمپورہ پبلک ٹرانسپورٹ سٹیشن پر سینکڑوں گاڑیاں پانچ اگست سے کھڑی ہیں۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ پوری وادی میں پبلک ٹرانسپورٹ معمول کے مطابق چل رہی ہے۔ ویسٹرن بس سروس کے چیئرمین نے کہا کہ ’جب سے کشمیر میں قدغنیں عائدکی گئی ہیں ہمارے جو ڈرائیور ضلع سے باہر گئے ہیں، ہمیں ان کا کچھ معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہیں کیونکہ مواصلات کا نظام مکمل طور پر بند ہے۔ جو جہاں ہے وہ وہیں رک گیا ہے۔‘

جموں و کشمیر کے پرنسپل سیکرٹری روہت کنسال کا کہنا ہے کہ ٹرانسپورٹ واپس معمول پر آ رہی ہے۔

بی بی سی کے نامہ نگار عامر پیرزادہ کے مطابق کشمیر میں پبلک ٹرانسپورٹ ہی شٹ ڈاؤن کی وجہ سے متاثر نہیں ہوا ہے بلکہ ہر قسم کی کاروباری سرگرمیاں معطل ہے اور دکانیں بند ہیں۔

بی بی سی کے نامہ نگار کی ایک ایسے خاندان سے ملاقات ہوئی جس کے سربراہ کو مبینہ طور پر اپنی دکان کھولنے پر کسی نے گولی مار کر ہلاک کر دیا ہے۔ خاندان کے افراد نے کے مطابق تین مسلح افراد ان کی دکان پر آئے اور دکاندار پر پستول سے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ اسی وجہ سے ٹریڈ یونینز، کاروباری مراکز اور دکانوں کے مالکوں میں خوف کی فضا پائی جاتی ہے۔

احمد ایک دکاندار ہیں۔ وہ کہتے ہیں ‘ہم کیسے دکانیں کھول سکتے ہیں۔ ہم ڈرے ہوئے ہیں۔ ہم کوئی غلطی نہیں کرنا چاہتے۔ کل کوئی عام رہائشی ہماری دکان پر آ کر کہہ سکتا ہے کہ آپ نے دکان کیوں کھول رکھی ہے۔ اس کے پاس اسلحہ بھی ہو سکتا ہے۔ ہم اپنی زندگیوں کو خطرے میں کیوں ڈالیں۔’

کشمیر میں ہڑتال

پانچ اگست کے بعد سے کشمیر میں پبلک ٹرانسپورٹ مکمل طور پر بند ہے

کشمیر ٹریڈرز فیڈریشن کے سیکرٹری جنرل بشیر گانگپوش کہتے ہیں ‘ہم دو تلواروں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ ہم اس کا فیصلہ مان لیں۔ لیکن ہم پر ایک اور قسم کا خوف بھی ہے۔

‘آپ مانیں نہ مانیں یہاں خوف کی فضا ہے۔ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا میں اپنی دکان دوبارہ نہیں کھول سکوں گا’۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے پرنسپل سیکرٹری روہت کنسال کہتے ہیں کہ کچھ قوم مخالف عناصر کی دھمکیوں کی وجہ سے بازار نہیں کھولے جا رہے ہیں۔

انڈین حکومت پانچ اگست کے بعد نافذ کی جانے والی پابندیوں کو آہستہ آہستہ ختم کر رہی ہے لیکن کشمیر میں صورتحال معمول میں آنے سے ابھی بہت دور ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp